Column

عام انتخابات اور اس کے اثرات

طارق خان ترین
9 اگست 2023کو پاکستان کی قومی اسمبلی کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اس وقت کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے مشورے پر مدت کے مکمل ہونے سے تین روز پہلے تحلیل کر دیا۔ یہ وہ دن تھے جب مین سٹریم میڈیا پر اسمبلی تحلیل کے حوالے سے ترجیحا شور و غوغا کیا جارہا تھا کہ شہباز شریف اپنی حکومت کو مزید دوام دیتے ہوئے ایک غیر جمہوری اور غیر آئینی عمل کا شکار ہونگے، تو کسی نے اپنی خود ساختہ تجزیوں کو پروان چڑھاتے ہوئے کہا کہ درحقیقت اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ ملک میں موجودہ حکومت کا خاتمہ ہو۔ مگر ہوا کچھ یوں کہ مین سٹریم میڈیا کے اس مستقل روایت پر مبنی برتائو پر شہباز شریف کو خود سامنے آنا پڑا جب انہوں نے اپنی گورنمنٹ کے ممبران کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام 3اگست 2023کیا تھا تب انہوں نے اعلان کیا کہ قومی اسمبلی 9اگست تک تحلیل کردی جائیگی اور اس اعلان پر کاربند رہتے ہوئے وہ تمام چہ مگوئیاں دم توڑتی گئی جب 9اگست کا دن آیا اور بالآخر اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔ پھر سے میڈیا پر بیٹھے کچھ بزرگان جمہوریت نے تخمینے لگانا شروع کئے اور نگراں وزیراعظم کے انتخاب کو متنازعہ بنانے کی بھر پور کوشش کی۔ کسی نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کے انتخاب کا معاملہ کمیٹی میں جائیگا تو کسی نے تجزیے داغتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن میں معاملہ چلا جائیگا۔ مگر پھر سے سارے تخمینے اور اندازے غلط ثابت ہوئے اور شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کے درمیان معاملات طے پا گئے جب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک باصلاحیت شخص سینیٹر انوار الحق کاکڑ کو وزیراعظم کے لئے منتخب کیا گیا۔ 14اگست 2023 کو انوار الحق کاکڑ نے بطور نگراں وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف لیا۔ یہ بلوچستان کے لئے کسی اعزاز سے کم نہ تھا جبکہ بلوچستان کو ہمیشہ سے سیاستدان خصوصا قوم پرست سیاستدانوں کی جانب سے اس صوبے کو مایوسیوں اور پسماندگی کے ساتھ جوڑا جاتا رہا ہے۔ نگراں حکومت کا دور پاکستان کے لئے خوش قسمتی کی علامت ثابت ہوا جب سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، بجلی چوری، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوروں وغیرہ کے خلاف آرمی چیف کی سخت ہدایات پر ایک موثر کریک ڈائون شروع کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ملک کو معاشی نقصان پہنچانے والوں کی ایسی درگت بنائی گئی جس کی مثال ہمیں ماضی میں نہیں ملتی۔ ڈالر 340سے گر کر 285تک پہنچ گیا۔ ملک میں کاروبار پروان چڑھنے لگا جس سے کاروباری طبقے کی بھرپور حوصلہ افزائی ہوئی۔ ملک میں ٹیکس چوروں، بجلی چوروں اور دیگر اشیاء خورونوش کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈائون سے ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی بے تحاشہ فائدہ ملا۔ نگراں حکومت جس کے لئے منصفانہ الیکشن کا انعقاد سب سے اہم ہوتا ہے بالآخر انہوں نے 8فروری کو ملک بھر میں عام انتخابات کو منعقد کرایا، بلکہ انہیں پرامن اختتام کی جانب بھی لیکر گئے۔ جس کے نتیجے میں شہباز شریف نے 24ویں وزیراعظم منتخب ہوکر ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال لی۔
پاکستان میں پروپیگنڈوں بھرمار اسی لئے کی جاتی ہے تاکہ عوامی رجحانات، ترجیحات اور عادات کو اپنے بے سود مقاصد کے لئی تبدیل کیا جاسکے۔ عام انتخابات کے حوالے سے ہمیں مختلف پروپیگنڈے دیکھنے کو ملے اور ان پروپیگنڈوں کو پھیلانے کے لئے میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا رہا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ الیکشن کے انعقاد کے لئے سازگار ماحول کا ہونا بالکل ایسا ہی ضروری ہے جس طرح سی ایک بدن کو زندہ رہنے کے لئے روح کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ پاکستان جس طرح سے مختلف مسائل میں گھرا ہے ان سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں استحکام موجود ہو۔ اور استحکام تقسیم کو رد کرتا ہے۔ پاکستان ایک، ہم مسلمان ایک، ہمارا دین ایک، ہمارا پرچم ایک، اس سے بڑے اور کیا دلائل ہوسکتے ہیں، پھر بھی مختلف پارٹیوں، جھنڈوں، منشوروں میں بٹ چکے ہیں۔ پاکستان کے طول و ارض میں ہمارے سماجی، معاشرتی، معاشی، سیاسی حالات بد سے بدتر ہوچکے تھے مگر اس کے باوجود بھی الیکشن کے لئے اصرار کیا جا رہا تھا اور الحمدللہ الیکشن ہو بھی چکے، بلکہ پر امن طریقے سے ہوچکے۔ الیکشنز کو پرامن بنانے کے لئے ہماری سکیورٹی فورسز، انٹیلیجنس اداروں نے جس جاں فشانی، عزم اور استقلال سے کام کیا لائق تحسین ہے۔ مگر افسوس اس بات پر کہ جنہیں عوام نے الیکشن میں مسترد کر دیا وہ براہ راست ملکی اداروں پر لعن طعن شروع کر دیتے ہیں اور جو جیت جاتے ہو وہ خاموش تماشائی بن کر نظارہ دیکھتے ہیں۔ حالانکہ 8فروری کے الیکشن میں اپیل کرنے کا حق ہر اس امیدوار کے پاس محفوظ تھا جنہیں معمولی شکوک و شبہات تھے انہیں الیکشن ٹربیونل میں کیس دائر کرنے کا اختیار تھا اور بہت سو نے کیس دائر بھی کئے جس پر انصاف کے تقاضے پورے کئے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمیں تو پہلے سے ہی پتہ تھا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوگی، سوال یہ بنتا ہے کہ جب پتا تھا تو بائیکاٹ کیوں نہیں کیا؟ اس الیکشن کی ایک خصوصی بات یہ بھی تھی کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کیا جس سے معلوم ہوا کہ انتخابات فری اینڈ فئیر ہوئے۔ دوسری بات عوام کا جوق در جوق الیکشن میں حصہ لیکر ووٹ استعمال کرنا بھی ان انتخابات کے منصفانہ ہونے پر دلیل ہے۔ الیکشن کے لئے جن جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ان میں سے 88فیصد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی قبول ہوئے جبکہ بہت ہی کم تعداد یعنی 12فیصد نامزدگیاں اعتراضات کے ساتھ مسترد ہوئیں۔ ان میں بھی جن امیدواروں نے اعتراضات ختم کرکے الیکشن ٹربیونل سے رجوع کیا ان کے کاغذات نامزدگی واپس جمع کرائے گئے تاکہ انتخابی عمل میں کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔ 8فروری کے الیکشن میں کم و بیش 452غیر ملکی صحافیوں اور مبصرین نے اسلام آباد، لاہور، کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں الیکشن کا مشاہدہ کیا۔ کامن ویلتھ ابزرورز نے ڈاکٹر گڈ لک جوناتھن کی سربراہی میں اسلام آباد میں 10فروری کو اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’ میں نے پاکستان میں مختلف سیاسی قائدین، آرمی چیف اور الیکشن کمشنر سے ملاقاتیں کیں اور الیکشن کے دن پولنگ سٹیشنز کے دورے کئے جن میں کراچی، ملتان، حیدرآباد، فیصل آباد بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں عام انتخابات کا ہونا اور الیکشن کمیشن کی کارکردگی کو سراہتے ہے‘‘۔ قارئین کرام! کوئی بھی ذی فہم شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ چلے یہاں تو ہمیشہ سے ایک روایت چلی آرہی ہے کہ ہارنے والے ہمیشہ سے ملک اور اداروں پر لعن طعن کرتے ہیں، مگر کیا غیر ملکی مبصرین بھی جھوٹ بول رہے ہے؟ کم و بیش 50فیصد انتخابی ٹرن اوٹ نے ثابت کر دیا کہ پاکستانی عوام باوجود پہاڑ برابر مسائل کے اپنے حق رائے دہی کے استعمال کے لئے نکلے۔
الیکشن کے سیاسی گہما گہمی کے بعد پاکستان استحکام کی جانب رواں دواں ہے۔ اس وقت ملک میں سیاسی انتشار کی فضا تھم چکی ہے، جو امیدوار الیکشن میں ہار چکے اور احتجاج پر تھے اب احتجاج ختم کر چکے۔ سیاستدانوں کو اختلافات بالائے طاق رکھ کرملک کی تعمیر و ترقی پر اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔ اس وقت پاکستان سٹاک ایکسچینج میں 100انڈکس بلند سطح پر ہے۔ ورلڈ بینک کے رپورٹ کے مطابق ملک میں موجودہ جی ڈی پی ریٹ اس وقت 1.7فیصد ہے جوکہ اگلے مالی سال میں 2.4فیصد تک جانے کا امکان ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان میں قوت خرید میں اضافہ ہوگا بلکہ آنے والے وقتوں میں مہنگائی میں بھی کمی ہوگی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پچھلے سال الیکشن سے پہلے جہاں پاکستان دیوالیہ ہونے کے نعرے لگائے جاتے تھے جب پاکستان کی معاشی ترقی 0.2پر چل رہی تو بد قسمتی سے ایک سیاسی گروہ نے ہر طرح سے مضموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے زور لگایا مگر الحمدللہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ ان کے شر سے محفوظ فرمایا اور آج پرائے ہماری ترقی کے عشاریوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ اس وقت مہنگائی کی شرح 23.1فیصد پر ہے جبکہ الیکشن سے پہلے جنوری کے مہینے میں 28.1فیصد پر تھی۔ الیکشن کے بعد کے اثرات پر اگر مزید لکھا جائے تو اس وقت ملک میں امن امان کی فضا برقرار ہے۔ 8فروری کے الیکشن سے پہلے 29اور 30جنوری کی شب بلوچستان کے علاقے مچھ میں بلوچ علیحدگی پسند دہشتگردوں نے سکیورٹی فورسز پر حملے کا بہانہ بنا کر عام شہریوں کو نشانہ بنایا جس پر ہمارے سکیورٹی کے جوانوں نے موثر کارروائی کرتے ہوئے 21دہشتگردوں کو مارا۔ اسی طرح 8فروری الیکشن سے ایک دن قبل بلوچستان کے ضلع پشین اور ضلع قلعہ سیف اللہ میں الیکشن کمپئین پر دو دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں معصوم شہری جاں بحق ہوئے، اس کے بعد سے اب تک ملک میں سکیورٹی حالات اطمینان بخش ہیں۔ قارئین کرام! الیکشن کے پر امن انعقاد کے بعد سے ملک میں امن و امان، سیاسی، معاشی اور معاشرتی استحکام میں اضافہ ہوا ہے۔ مگر بہت سے میڈیا چینل سیاسی پسند نا پسند کی پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے ملک میں وہی انتشار چاہتے ہیں جو الیکشن سے پہلے تھا تاکہ ان میڈیا چینلز کو ٹی آر پی ملے اور خوب پیسہ کما سکیں، پھر چاہے وہ ریاست اور ریاستی اصول کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے حکومتی اداروں کو ایسے تمام میڈیا چینلز کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے جو ملک میں انتشار کا سبب بن رہے ہوں اور عوام کو بھی ہر اس بات کی تحقیق کرنی چاہیے جن سے ملکی معاملات دائو پر لگتے ہوں۔

جواب دیں

Back to top button