Editorial

ظالم اسرائیل بھی جلد مٹ جائے گا

فلسطین پچھلے 40روز سے بدترین مظالم کا شکار ملک ہے۔ ناجائز ریاست اسرائیل اُس پر مسلسل آتش و آہن برسا رہی ہے۔ سوا گیارہ ہزار زندگیوں کے چراغ گُل کیے جاچکے ہیں۔ ساڑھے ہزار سے زائد بچے شہدا کی فہرست میں شامل ہوکر دُنیا کے مہذب ممالک کو منہ چڑا رہے ہیں۔ ان معصوموں کا لہو جہاں اسرائیل کے سر ہے، وہیں اس میں نام نہاد مہذب ممالک کا بھی کہیں نہ کہیں ہاتھ ہے، جو اسرائیل کی پیٹھ تھپتھپا رہے تھے اور فلسطین پر مظالم ڈھانے پر اُسے شاباش دیتے اور درست قرار دیتے نہیں تھکتے تھے۔ اُنہوں نے ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم قرار دینے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہ کی۔ مفادات کے پجاریوں نے اسرائیل کی سیوا میں تمام حدیں پار کر ڈالیں۔ دوسری جانب غزہ میں ہر طرف ملبے کے ڈھیر نظر آرہے ہیں۔ پورا انفرا اسٹرکچر تباہ کیا جاچکا ہے۔ اسپتال چھوڑے نہ اسکول، عبادت گاہیں چھوڑیں نہ اقوام متحدہ و دیگر کے امدادی مراکز۔ ہر سُو اسرائیل نے بم برسائے۔ تباہی پھیلائی۔ سب کچھ برباد کر ڈالا۔ ہر طرف لاشے ہی لاشے ہیں۔ کہیں والدین اپنے بچوں کی میتوں پر بین کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں اولادیں شفقت پدری و مادری سے محرومی پر نوحہ کناں ہیں۔ فلسطین میں سسکتی انسانیت کے نوحے ہر جگہ بکھرے پڑے ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت پوری دُنیا اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی ہے، لیکن اس کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لارہا اور بارود برسانے میں مگن ہے۔ حماس کی اسرائیل کے خلاف جنگ مبنی برحق ہے، کیونکہ کوئی کب تک معتوب رہ سکتا ہے۔ کب تک بنیادی انسانی حقوق سے محرومی کے ساتھ زیست بسر کرسکتا ہے۔ کب تک ظلم و ستم برداشت کر سکتا ہے۔ کب تک اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کو برداشت کرسکتا ہے۔ کب تک اپنے معصوم اور بے گناہ شہریوں کی شہادتوں پر خاموش رہ سکتا ہے۔ کب تک مسلمانوں کے قبلۂ اوّل مسجد الاقصیٰ کے تقدس کی پامالی کو سہہ سکتا ہے۔ آخر کب تک؟ اسرائیلی ظلم کے خلاف آواز تو اُٹھنی تھی اور حماس نے اسرائیل پر 5ہزار راکٹ فائر کرکے یہ قدم اُٹھایا۔ اُس کے بعد سے اسرائیل ظلم و ستم میں تمام حدیں پار کرچکا ہے۔ اس کی سفّاکیت، درندگی پر چنگیز اور ہلاکو خان کی روحیں بھی شرمسار ہوگئی ہیں۔ اسرائیلی زمینی، فضائی اور بحری حملے جاری ہیں۔ اسپتالوں پر متواتر حملے جاری ہیں، گزشتہ روز بھی ایسی ہی مذموم کوشش کی گئی۔ تمام عمارتیں ملبوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ پر اسرائیلی بم باری جاری ہے، 7اکتوبر سے اب تک شہید فلسطینیوں کی تعداد 11ہزار 240سے زیادہ ہوگئی ہے۔ غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فلسطینی وزارت صحت نے بتایا کہ7اکتوبر سے جاری اسرائیلی بمباری سے 4ہزار 630بچے، 3ہزار 130خواتین شہید ہوچکے ہیں جب کہ طبی عملے کے 189افراد شہید ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بم باری سے 41ہزار 120رہائشی املاک تباہ ہوئیں، بم باری سے 94سرکاری عمارتیں تباہ اور 71مساجد بھی شہید ہوئیں جبکہ بمباری سے 253 اسکولوں کی عمارتیں تباہ ہوئیں ۔ علاوہ ازیں وحشیانہ بمباری میں غزہ کے الشفا ہسپتال کا ایک حصہ مکمل طور پر منہدم ہوگیا اور 179مریض ملبے تلے دب گئے جن میں سے 7نومولود اور انتہائی نگہداشت کے وارڈ کے 29مریض بھی شامل ہیں۔ عرب میڈیا کے مطابق ہسپتال کے ڈائریکٹر محمد ابو سلیمہ نے کہا ہے کہ اسرائیلی بمباری میں 179مریض ملبے تلے دب گئے جو ان کی اجتماعی قبر ثابت ہوئی۔ ڈائریکٹر نے مزید کہا کہ ہمیں مجبوراً ان مریضوں کو ملبے تلے ہی دفن کرنا پڑا۔ مشینری کا نہ ہونا اور ہمہ وقت ہونے والی بمباری کی وجہ سے امدادی کاموں تک کے لیے موقع نہیں مل پا رہا۔ دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اس سفاکیت پر اسرائیل کی خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل نے غزہ میں بچوں کے ہسپتال کے تہہ خانے سے فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے ہتھیار برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ دوسری طرف غزہ میں جھڑپوں کے دوران مزید 2اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔ ادھر حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے اسرائیل سے 5روزہ جنگ بندی کے بدلے یرغمال خواتین و بچوں کی رہائی پر آمادگی ظاہر کردی۔ ابوعبیدہ نے آڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ قطری ثالثیوں کو بتادیا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کی صورت میں ہر انسانی امداد کی اجازت ہونی چاہیے۔ اسرائیل عالمی مجرم ہے، اس نے ظلم و ستم کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ اس نے غزہ کے مظلوموں کی زندگی تباہ کر ڈالی ہے۔ اُن کے لیے زیست کو عذاب بناڈالا ہے۔ اس کے جنگی جرائم کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ چلنا چاہیے۔ پاکستان سمیت دُنیا کے کئی ملک اس حوالے سے مطالبات پیش کرچکے ہیں۔ ناجائز ریاست کو ہر صورت اس کے مظالم پر معتوب ٹھہرایا جانا چاہیے۔ مہذب دُنیا اپنے سوئے ہوئے ضمیر کو جگائے اور اسرائیل پر پابندیوں کا آغاز کرے۔ امریکا کے بغل بچے کو اُس کی اوقات یاد دلائی جائے۔ 57 اسلامی ممالک اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور اس ضمن میں باقاعدہ مہم چلائیں۔ اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی بھی اس حوالے سے اپنا کردار نبھائے۔ اسرائیلی مظالم کا جلد خاتمہ ہوگا، ظلم جتنا شدید ہوتا جاتا ہے، اُتنا ہی جلد مٹ جاتا ہے۔ دُنیا کی معلوم تاریخ میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ جلد فتح فلسطینیوں کا مقدر بنے گی۔ آزادی کا سورج جلد فلسطین میں طلوع ہوگا۔ رب کا انعام اُنہیں جلد ملنے والا ہے۔ اُنہوں نے بہت مشکل زیست گزاری ہے۔ بہت جلد اُن کو آزادی اور خودمختاری کی نعمت میسر آئے گی۔ اسرائیل کا کوئی نام لیوا بھی نہ ہوگا۔ یہ ناجائز ریاست ہمیشہ کے لیے دُنیا کے نقشے سے مٹ جائے گی۔
یوٹیلیٹی اسٹورز پر آٹے کی قلت
ملک عزیز میں اشیاء ضروریہ کی قلت اور بحران کے حوالے سے تاریخ خاصی طویل ہے۔ مہنگائی مافیا کو جب کسی شے کی قیمت بڑھانا مقصود ہو تو وہ اس کی مصنوعی قلت پیدا کر دیتے ہیں اور اس مصنوعی بحران کی آڑ میں قیمت میں من مانا اضافہ کردیتے ہیں۔ اس حوالے سے ڈھیروں مثالیں موجود ہیں۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کا قیام عوام کو مارکیٹ سے کم نرخوں پر اشیاء ضروریہ کی فراہمی کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ ملک بھر میں ان کا جال بچھایا گیا۔ خلق خدا کی بڑی تعداد ان سے مستفید ہوتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ یوٹیلیٹی اسٹورز سے تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پچھلے کچھ عرصے کے دوران یوٹیلیٹی اسٹورز پر دی جانے والی اشیاء پر سبسڈی میں کمی آئی ہے، تاہم اب بھی لوگوں کی بڑی تعداد ان سے استفادہ کر رہی ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اکثر یوٹیلٹی اسٹورز پر کبھی چینی کی قلت ہوتی ہے تو کبھی آٹا نایاب ہوجاتا ہے۔ پچھلے مہینوں میں آٹے کی قیمتیں آسمان پر جا پہنچی اور یہ 140سے 150روپے فی کلو کے حساب سے مارکیٹوں میں فروخت کیا جارہا ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر آٹے کی قیمت مارکیٹ کے مقابلے میں قدرے کم ہے، لہٰذا عوام کی بڑی تعداد آٹے کے حصول کے لیے یوٹیلیٹی اسٹورز کا رُخ کرتی ہے، تاہم اکثر شہریوں کو مایوس گھروں کو لوٹنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے پنجاب سے مستقل اطلاعات سامنے آرہی ہیں اور ان دنوں میں یوٹیلیٹی اسٹورز پر آٹے کی شدید قلت ہے۔’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق یوٹیلیٹی اسٹوروں پر آٹے کی قلت نے سنگین صورت حال اختیار کرلی ہے۔ مسلسل تیسرے ہفتے بھی غریب افراد سستے آٹے کے منتظر نظر آئے مگر اسٹوروں پر طلب کے مطابق آٹے کی سپلائی نہ پہنچ سکی۔ صارفین نے کہا کہ پورا دن کم آمدن والا طبقہ آٹے کے ٹرکوں کی راہ دیکھتا رہتا ہے مگر انہیں دو وقت کی روٹی کا سامان میسر نہیں۔ یہ امر تشویش ناک معلوم ہوتا ہے۔ غریب عوام آخر سستے آٹے کے لیے کہاں کا رُخ کریں، جب اُنہیں یوٹیلیٹی اسٹورز سے مستقل مایوس واپس جانا پڑ رہا ہے۔ لوگ گھنٹوں انتظار کرتے رہتے ہیں، لیکن اُن کی امید بر نہیں آتی۔ مہنگائی نے غریب عوام کا پہلے ہی جینا محال کیا ہوا ہے۔ ان حالات میں یوٹیلیٹی اسٹورز اُن کی اشک شوئی میں ممد و معاون ثابت ہورہے ہیں اور یہاں سے اُنہیں اشیاء ضروریہ سستی میسر آجاتی ہیں۔ اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ یوٹیلٹی اسٹوروں پر آٹے سمیت تمام اشیاء ضروریہ کی فراہمی طلب کے مطابق یقینی بنائی جائے۔ اس حوالے سے کسی قسم کی کوتاہی اور غفلت نہ برتی جائے۔ اس کے لیے انتظامیہ اپنا موثر کردار ادا کرے۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button