Columnمحمد مبشر انوار

متوقع انتخابات

محمد مبشر انوار( ریاض)
دنیا بھر میں جمہوری ممالک میں جمہوریت کا ماخذ و منبع آئین تصور ہوتا ہے اور تمام تر جمہوری اقدار و اعمال آئین سے چلائے جاتے ہیں ، پاکستانی جمہوریت بھی بظاہر آئینی جمہوریت رائج ہے لیکن بقول معروف قانون دان و سیاستدان جناب اعتزاز احسن، پاکستان اس وقت سرزمین بے آئین ہے۔ اعتزاز احسن کا پاکستان کو سر زمین بے آئین کہنا، موجودہ حالات کے پس منظر میں کسی بھی طور غلط نہیں کہلایا جا سکتا البتہ ان کی اس رائے سے اختلاف کرنے والوں کی ایک معتد بہ تعداد بھی موجود ہے، جو بعینہ اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کے تحت اس مقولے سے اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ سیاسی مخالفین کی تو خیر الگ بات ہے کل تک تو اعتزاز احسن کی اپنی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی بھی ،ان کے اس مؤقف کی حامی دکھائی نہیں دیتی تھی تاوقتیکہ اگلی حکومت کے خدوخال واضح نہیں ہو گئے اور اس میں پیپلز پارٹی کو وعدے وعدی اور توقعات کے برعکس، مرکز کی بجائے صرف سندھ تک محدود کیا جا رہا ہے،تو پیپلز پارٹی کے اکابرین اس قبل از وقت انتخابات پر واویلا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔تاہم یہ واویلا بھی صرف اسی حد تک نظر آتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح صاحب اختیار لوگ ،پیپلز پارٹی کی خدمات کے عوض،پیپلز پارٹی کو نوازنے میں بخل سے کام نہ لیں اور کم ازکم زرداری کی جوڑ توڑ کی سیاست میں انہیں اتنی آزادی میسر ہو کہ وہ آئی پی پی کے ساتھ مل کر جنوبی پنجاب میں اتنی نشستیں ضرور حاصل کر لیں کہ ان کی مرکز میں حکومت کے امکانات پیدا ہو جائیں۔اس جوڑ توڑ پر ابھی بھی کام جاری ہے لیکن معاملات ابھی تک گومگو کی دبیز تہہ میں چھپے دکھائی دیتے ہیں اور کچھ بھی واضح نہیں کہ آیا زرداری کی یہ توقعات پوری ہوں گی یا نہیں گو کہ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر سید احمد محمود کے آئی پی پی چیئر مین جہانگیر ترین کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہیں لیکن اس کے باوجود جہانگیر ترین کی طرف سے اتحاد کی کوئی یقین دہانی پیپلز پارٹی کو نہیں کرائی گئی۔جبکہ زمینی حقائق کوئی اور ہی منظر کشی کررہے ہیں اور نوشتہ دیوار یہ دکھائی دے رہا ہے کہ اگلی حکومت مسلم لیگ ن کو طشتری میں رکھ کر دی جا چکی ہے ،اتمام حجت کے لئے انتخابات کا کھیل ضرور کھیلا جائیگا ،ایک ایسا انتخابی عمل جس پر تحریک انصاف کے علاوہ باقی تمام سیاسی جماعتیں قناعت و صبر و شکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ،اپنے حصہ بقد جثہ پر خاموشی اختیار کریں گی اور اسی تنخواہ پر کام کرتی نظر آئیں گی۔آئینی جمہوریت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ،کسی بھی آئینی و جمہوری ملک کے لئے یہ ضروری ہے کہ کم از کم جمہوریت کی خاطر آئین پر عملدرآمد کو یقینی بنائے ،انتخابی عمل کو قابل قبول بنائے،تمام سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے لئے انتخابی عمل کا حصہ بننے کو یقینی بنائے بصورت دیگر ایسا کوئی بھی انتخابی عمل قطعا قابل قبول نہیں ہوتا بلکہ حکمران مسلط کئے جاتے ہیں۔
پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ کا علان ہو چکا ہے لیکن ابھی بھی اس حوالے سے گومگو اور بے یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے کہ ایک طبقہ ان انتخابات کے لئے میدان میں اتر چکا ہے جبکہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ان انتخابات میں مزید تاخیر کے لئے مختلف حربے استعمال کر رہا ہے،جبکہ ایک سیاسی جماعت کو ابھی تک یہ یقین ہی نہیں کہ وہ ان انتخابات میں حصہ بھی لے پائے گی یا نہیں۔مجوزہ انتخابات کے منعقد ہونے کے حوالے سے،قرین او قیاس یہی ہے کہ یہ اعلان کردہ تاریخ کو منعقد ہو جائیں گے کہ اس کے پس پردہ جو عوامل ہیں،وہ ریاست پاکستان کو انتخابات منعقد کروانے پر مجبور کر دیں گے،بالخصوص عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ کئے گئے وعدے،یقین دہانیاں ،ریاست پاکستان سے متقاضی ہیں کہ انتخابی عمل کو وقت پر مکمل کیا جائے بصورت دیگر پاکستان کے مالی حالات مزید دگرگوں ہو سکتے ہیں۔ یہ صرف انتباہ نہیں ہے بلکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ اس وقت پاکستان جس معاشی بحران کا شکار ہے،اس میں ایسا کوئی بھی ایڈونچر،پاکستان کے لئے شدید ترین مسائل پیدا کر سکتا ہے لہذا ان مسائل سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں انتخابات بروقت کروا دئیے جائیں اور اقتدار نئے منتخب/منظور نظر نمائندوں کے حوالے کر دیا جائے۔منظور نظر نمائندگان سے مراد قارئین بخوبی سمجھ رہے ہیں کہ اس وقت انتخابی میدان میں ایک سیاسی جماعت کو دیوار سے لگایا جا چکا ہے،اس کے سابق ممبران اسمبلی بتدریج پردہ سکرین پر آ کر،اپنی سیاسی وابستگیوں کو روتے ہوئے ،چھوڑنے کااعلان کر رہی ہیں،آئی پی پی میں شمولیت یا سیاست سے کنارہ کش ہونے کا اعلان کر رہی ہیں۔وہ سیاستدان جو آئی پی پی میں شمولیت اختیار نہیں کر رہے، ان کے لئے حالات مسلسل کشیدہ ہیں،ان کے خلاف قائم کئے گئے مقدمات ختم نہیں ہوئے بلکہ ان کا بازو مروڑنے کے لئے،ان مقدمات میں انہیں گھسیٹا جا رہا ہے،فواد چودھری کی مثال سامنے ہے۔ دوسری طرف منظور نظر سیاستدانوں ،جنہیں کل حکمران بنانا ہے،کے لئے قانون موم کی ناک بناہوا ہے،طاقتوروں کے گھر کی لونڈی بنا دکھائی دیتا ہے،ایسے ایسے فیصلے سامنے آ رہے ہیں کہ عقل ماؤف ہے۔ بالفرض اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ سابق وزیراعظم کے خلاف فیصلے غلط سنائے گئے تھے،ان کو سزا بھی غلط سنائی گئی تھی،اس کے باوجود قانونی عمل کا ایک واضح طریقہ کار ہے کہ جس کے مطابق ان سزاؤں کو ختم کیا جا سکتا ہے اور اگر واقعتا غلط ہیں تو ختم کیا جانا چاہئے لیکن یوں قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے،لاقانونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قطعی نہیں کہ عام شہری کا عدالتی نظام سے اعتبار ہی اٹھ جائے،جو پہلے بھی قائم نہیں رہا۔
یہاں یہ امر بھی واضح دکھائی دیتا ہے کہ بیرونی اداروں کی مجوزہ پاکستانی انتخابات اور نتائج میں دلچسپی اس قدر ہے کہ پاکستانی چیف الیکشن کمشنر ،صدر پاکستان سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیتے ہیں لیکن چند سفیروں سے ان کی ملاقات میڈیا کی زینت بنی دکھائی دیتی ہے جس میں وہ مجوزہ انتخابات کے حوالے سے بات کرتے دکھائی بھی دیتے ہیں۔یہ سب حقائق میڈیا میں رپورٹ ہو چکے ہیں گو کہ بعد ازاں الیکشن کمشنر ،عدالت عظمی کے حکم پر ایک دن کے اندر ہی صدر مملکت سے ملاقات کے لئے پہنچ جاتے ہیں،اور یہ حقیقت بھی واضح دکھائی دے رہی ہے کہ جن ممالک کے سفراء سے الیکشن کمشنر ملے ہیں،ان کے پاکستان میں مفادات کیا ہیں اور وہ نئی پاکستانی حکومت سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔آئی ایم ایف سے رجیم چینج کے بعد،پاکستان کو کوئی بھی فوری ریلیف نظر نہیں آیا تھا،بہت سے پاپڑ بیلنے کے باوجودزیرے کی مانند قرضہ مل پایا تھا جبکہ بعد ازاں پاکستان کو ملنے والے قرضہ کے حوالے جو خبریں زیر گردش ہیں،وہ ہماری خود مختاری و سالمیت کا نوحہ کہنے کے لئے کافی ہیں ۔گزشتہ دنوں ایک مہم منظر عام پر آئی تھی کہ نہ صرف ڈالر کی سمگلنگ کو روکا جارہا تھا بلکہ اس میں ملوث افراد کو پکڑا بھی جا رہاتھا ،موہوم سی امید پیدا ہوئی تھی کہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات بہتر ہو جائیں اور ہمیں بیرون ملک انحصار کرنے سے چھٹکارا مل جائے لیکن ڈالر کی اڑان دوبارہ شروع ہو چکی ہے مطلب وہ مہم بھی ختم شدسمجھی جائے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایک بھی انتخابی عمل ایسا نہیں رہا کہ جس کے متعلق وثوق سے یہ کہا جا سکے کہ صاف و شفاف انتخابات رہے ہیں، ستر کے انتخابات کو پیپلز پارٹی اس لئے صاف و شفاف تسلیم کرتی ہے کہ اس میں غیر متوقع طور پر پیپلز پارٹی کو اکثریت ملی تھی،وگرنہ ان کی شفافیت بھی ایک سوالیہ نشان ہی رہی ہے۔حقیقت یہ رہی ہے کہ پاکستان میں جس سیاسی جماعت کو اقتدار میں حصہ مل جائے،وہ انتخاب اس کے لئے صاف و شفاف ہے،جبکہ دیگر جماعتوں کے لئے ایسے انتخابات کو کسی بھی صورت شفاف تسلیم نہیں کیا جاتا،حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستانی جمہوریت میں مقبولیت کسی کھاتے میں نہیں البتہ قبولیت ہی سب کچھ ہے اور اس قبولیت نے پاکستان کے بخیئے ادھیڑ کی رکھ دئیے ہیں لیکن مقبولیت کی طرف جانا ابھی بھی منظور نہیں۔ جمہوریت تو وہی ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں ،تولا نہیں کرتے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں جمہور کو گننے کا رواج ہنوز موجود نہیں بلکہ آج بھی بندوں کو تولا جا رہا ہے۔ انتخابات میں نتائج اگر من پسند نکلتے نہ دکھائی دئیے تو تاخیری حربوں سے انتخابات کو ملتوی کرنے کا متوازی منصوبہ موجود نظر آرہا ہے لیکن کیا یہ ممکن ہو سکے گا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button