ColumnImtiaz Aasi

ناقص پالیسیوں کا خمیازہ

امتیاز عاصی
کسی ملک کی ترقی اور داخلی صورت حال میں اس کی پالیسیوں کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے ۔ملکی پالیسیاں مستقبل کے منظر نامے کو پیش نظر رکھ کر تشکیل دی جاتیں تو آج ہمیں جن مشکلات کا سامنا ہے ان سے بچا جاسکتا تھا۔درحقیقت ہمیں جن چیلنچزز کا سامنا ہے وہ ہمارے خو د پیدا کردہ ہیں۔ افغان پناہ گزینوںکو چوالیس سال سے قیام کی اجازت دینا ہماری ناقص خارجہ پالیسی کا سبب ہے ورنہ روس کے افغانستان سے نکلنے کے بعد افغان پناہ گزینوںکو وطن واپس بھیجنا چاہیے تھا۔روس کے افغانستان سے نکلنے کے بعد خانہ جنگی کا عذر پیش نظر رکھ کر افغان پناہ گزینوں نے یہاں قیام جاری رکھا۔ عشروں تک افغان مہاجرین کی میزبانی کے باوجود ہم افغان دشمن قرار دیئے جاتے ہیں۔ ہمسایہ ملک ایران بھی ہے جہاں پاکستان سے کئی گناہ زیادہ افغان پناہ گزیں برسوں سے قیام پذیر ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے ایران نے ایک افغان مہاجر کو کیمپوں سے نکلنے کی اجازت نہیں دی جب کہ ہم نے چند سال کیمپوں میں رکھنے کے بعد انہیں نقل وحرکت کی آزادی دے دی جس کے نتیجہ میںچاروں صوبوں کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں افغان قیام پذیر نہیں ہوں گے۔ سمند ر تک رسائی نہ ہونے سے افغانستان سے آنے والے مہاجرین ہماری قانونی ذمہ داری تھے اس کا مطلب یہ نہیں تھا وہ مستقل طور پر یہاں سکونت اختیار کرتے۔ چند روزقبل ایک افغان خاتون ہمارے ہسپتال علاج معالجہ کے لئے آئی میرے سوال پر اس نے بتایا اس کے پاس کسی قسم کی قانونی دستاویزات نہیں وہ اسلام آباد میں قیام پذیر ہے۔کوئی ملک کسی غیر ملکی کو بغیر ویزا کے قیام کی اجازت دیتا ہے ؟قانونی طور پر پناہ گزینوں کو ایک محدود عرصے تک قیام کی اجازت دی جا سکتی تھی ۔درحقیقت روس اور افغانستان کی جنگ میں پاکستان کو دھکیلا جانا پاکستان سے دشمنی تھی جس میں امریکہ کامیابی سے ہمکنار ہوا ۔بدقسمتی سے پاکستان کو یہ تاثر دیا گیا افغانستان کے بعد گرم پانیوں تک رسائی کے حصول کے لئے اگلا ہدف پاکستان ہے۔ہم تاریخی طور پر نظر ڈالیں تو افغانستان سے پاکستان کے تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے ہیں۔افغانستان میں ظاہر شاہ کی حکومت کا تختہ الٹنے والے سردار دائود خان پاکستان دشمنی میں ہمیشہ پیش پیش رہا ۔اقتدار سنبھالنے کے بعد اس نے پشتون اور بلوچ علیحدگی پسندوں سے تعلقات استوار کئے۔ جب وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوا تو سردار دائود نے پاکستان کے دورے پر آکر یہ باور کرانے کی کوشش کی وہ پاکستان کا دوست ہے۔ سردار دائود کی پاکستان دشمن سرگرمیوں میںمبینہ طور پر ملوث بعض پاکستانی سیاست دانوں کوذوالفقار علی بھٹو نے گرفتارکیاجنہیں بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے آکر رہائی دی ؟ افغان پناہ گزیں خواہ قانونی ہیں یا غیر قانونی انہیں طالبان حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد رضا کارانہ طور پر وطن واپس جانا چاہیے تھا کجا پاکستان کی حکومت کو انہیں واپس بھیجنا پڑ رہا ہے۔بدقسمتی سے بعض اینکر غیر قانونی افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے معاملے کو ہوا دے رہے ہیں۔جیسا کہ سوشل میڈیا پر چل رہا ہے ہمارے اداروں نے بعض افغان شہریوںکو بھارتی خفیہ ایجنسی سے مل کر دہشت گردی کی پاداش میں گرفتار کیا ہے جو اس امر کا واضح ثبوت ہے افغانستان کے لوگوں نے اسلامی بھائی چارے کا ناجائز فائدہ اٹھاکر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ۔نگران حکومت نے غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کے لئے ایک ماہ کی مہلت دی ۔ جیسا کہ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف آپریشن کا اعلان کیا گیا تھا اس رفتار سے آپریشن کا آغاز نہیں ہوا ہے۔ کئی لاکھ غیر قانونی افغان پناہ گزینوں میں سے دو لاکھ چلے جانے کو کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتابلکہ تمام افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس بھیجنے میں ہماری عافیت ہے۔ہمارا ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے افغان مہاجرین کو واپس نہ کرئے تو بھی دشمن سمجھا جائے گا ۔ہمیں تو دنیا کے دوسرے ملکوں کی پالیسیوں کی سمجھ نہیں آرہی ہے ۔دنیا کے بیشتر ملک پاکستان پر افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی سے روکنے کے لئے دبائو ڈال رہے ہیں۔ بھلا کوئی ان سے پوچھے انہیں افغان پناہ گزینوں سے اتنی ہمدردی ہے تو انہیں اپنے ملکوں میں قیام کی اجازت کیوں نہیں دے دیتے۔یہ بھی حقیقت ہے جب سے غیر قانونی افغان باشندوں کی واپسی کا عمل شروع ہوا ہے ہمارے ہاں دہشت گردی کے واقعا ت میں اضافہ ہوا ہے۔وطن دشمنوں کا پہلے ٹارگٹ عام شہری تھے جب کہ اب ہماری عسکری تنصیبات پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔گرفتار ہونے والے دہشت گردوں میں اکثریت افغانوں کی ہے جس کے بعد ہمیں افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہتی ۔نگران حکومت نے پھر بھی نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے کارڈ ہولڈر افغان پناہ گزنیوں کے قیام کی مدت میں توسیع دے دی۔ ہم بات یہ ہے پاکستان کے پالیسی سازوں کو افغان مہاجرین کی وطن واپسی بارے کوئی واضح پالیسی کا جلد اعلان کرنا چاہیے تاکہ تمام افغان مہاجرین اپنے ملک واپس جا سکیں۔ پناہ گزینوں کو انہی حالات میں کوئی ملک اپنے ہاں پناہ دے سکتا ہے جب انہیں اپنے ملک میں جان کا خطرہ ہو۔افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد وہاں کے رہنے والے وہیں قیام پذیر ہیں تو پناہ گزینوں کو وطن واپس جانے سے کیوں انکاری ہیں۔چلیں طالبان حکومت کی طرف سے خواتین پر چند پابندیاںلگانے کا مطلب یہ نہیں وہاں کے رہنے والے ملک چھوڑ جائیں۔یہ ہماری ناقص خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے جو کئی عشروں سے غیر قانونی افغان یہا ں قیام پذیر ہیں ۔حکومت کو چاہیے تمام صوبوں میں رہنے والے افغان پناہ گزنیوں کے پاکستانی شناختی اور پی او کارڈز کی تصدیق کا کام فوری طور پر شروع کرے تاکہ بوگس کارڈ ہولڈرز کا سراغ لگایا جا سکے۔ یہ بات یقینی ہے ہزاروں افغانوں کے پاس جعلی قومی شناختی کارڈ اور پی اوآر کارڈز ہیں لہذا وقت آگیا ہے ان تمام لوگوں کو مرحلہ وار وطن واپسی کا بندوبست کیا جائے ۔طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کئی ہزار افغانوں کی آمد کی تحقیقات کی جائے تاکہ سرحد پار کرنے کے ذمہ دار اہل کاروں کو گرفت میں لایا جاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button