Column

احتجاج نہیں ضرورت جہاد ہے

سیدہ عنبرین

فلسطین میں جنگ بندی کیلئے عرب لیگ اور او آئی سی کا ہنگامی اجلاس رسمی کارروائی کے بعد ختم ہوگیا ہے۔ رسمی مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کے بعد سمجھا جارہا ہے کہ ان کا فرض ادا ہوگیا۔ اجلاس کی قرارداد میں کیا کہا گیا، کون اس کے ساتھ تھا، کون اس کی مخالفت میں کھڑا ہوا، کس کس نے اس ووٹنگ میں حصہ لینا بھی مناسب نہ سمجھا سب کچھ تاریخ میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوگیا ہے۔
اجلاس میں شرکت کرنے والے میزبانی سے ہر طرح کا لطف اٹھانے کے بعد اپنے اپنے جہازوں میں بیٹھ کر اپنے اپنے ملک واپس پہنچ کر مختلف اداروں کو اپنے رات رات بھر جاگ کر اجلاس کی تیاری، اپنے ملک کی بھرپور ترجمانی اور اسی اجلاس کے بہانے دوسرے ملکوں کے سربراہوں سے مفید رابطوں کی رپورٹیں پیش کر چکے ہیں۔ سر شام کافی کی میز پر اور رات گئے وہسکی کی میز پر دوستوں کو یہ بھی سمجھانے کی کوششیں جاری ہیں کہ دنیا میں ہو کیا رہا ہے، خطے میں پاکستان کی اہمیت کیا ہے اور سب سے اہم بات کہ ہماری سٹریٹیجک پوزیشن ایسی ہے کہ ہم دنیا کے ہر ملک کی ضرورت ہیں، سب ہمارے پائوں میں سر رکھ کر بیٹھے رہیں گے، ہمیں کسی کی ضرورت نہیں، چونکہ یہ ملک اللہ نے بنایا ہے لہٰذا ہمیں اس کی حفاظت کے معاملے پر بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اللہ خود اس کی حفاظت کریگا وغیرہ وغیرہ۔ ایک طرف یہ تقرریں اور ڈرامے جاری ہیں دوسری طرف اسرائیل کی طرف سے فلسطین میں غزہ کے چپے چپے پر تسلسل کے ساتھ بمباری جاری ہے، آج وہ پرآشوب دن ہے جب غزہ میں کوئی ایک ہسپتال نہیں رہا جو اسرائیلی بمباری سے تباہ نہ ہوچکا ہو۔ شمالی غزہ، جبالیہ اور خان یونس میں تعلیمی اداروں کی عمارتیں اور رہائشی علاقے کھنڈر بن چکے ہیں، القدس ہسپتال، الشفاء ہسپتال میں زیر علاج اور انکے کمپائونڈ میں پناہ لئے ہوئے سیکڑوں مرد، عورتیں اور بچے شہید کر دیئے ہیں۔
اسرائیلی حکام نے اپنے پسندیدہ میڈیا ورکرز کو مخصوص علاقوں کا دورہ کرایا اور انہیں دکھایا کہ انکی پوزیشن مضبوط ہے۔ صیہونی اور ہمنوا میڈیا کو بتایا گیا کہ غزہ کے ہسپتالوں میں بڑی تعداد میں ہتھیار بند مجاہدین موجود ہیں جبکہ بعض یورپی صحافیوں اور رپورٹرز نے اسرائیل دعویٰ کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے ان ہسپتالوں میں زخمی تو ضرور دیکھے ہیں انہیں تو وہاں کوئی مورچہ یا مورچہ بند نظر نہیں آیا، اسرائیل غزہ میں وہی مکروہ حربہ استعمال کرکے دنیا بھر کے ساتھ اقوام متحدہ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے جیسے امریکہ اور اس کے حواریوں نے عراق پر حملے کیلئے وہاں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کو بہانا بنایا، جو وہاں تھے ہی نہیں۔ پھر عرصہ دراز بعد امریکی صدر نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ اطلاعات غلط تھیں، عراق میں کوئی کیمیائی ہتھیار موجود نہیں تھے۔ لیکن جب یہ اقرار کیا گیا اس وقت عراق مکمل تباہ ہوچکا تھا، اس کے تیل کے ذخائر پر قبضہ ہوچکا تھا اور کئی برس تک بعد ازاں وہاں سے بلا قیمت تیل لوٹا جاتا رہا، آج اس کی بہت کم قیمت ادا کی جارہی ہے، یوں لوٹ مار ایک نئے انداز سے جاری ہے۔
اسرائیل کے پاس ایٹم بم سمیت ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار موجود ہیں، اسرائیل کی طرف سے ان کے ایک وزیر ایٹم بم چلانے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔ اسرائیل نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں کیمیائی ہتھیار استعمال کئے تھے۔ اسرائیل نے نیپام بم برسائے تھے جو پھٹنے کے بعد آگ لگا دیتے تھے اور کیمیائی مواد آس پاس ہر چیز کو جھلسا دیتا تھا، اس بمباری میں بھی سیکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے، ہزاروں افراد جھلس گئے اور ہمیشہ کیلئے اپنی بینائی اور دیگر اعضاء سے محروم ہوگئے۔ اس واقعے کو نصف صدی سے زیادہ بیت گئی، مسلمانوں اور بالخصوص عرب ممالک نے ا پنے موثر دفاع کیلئے کوئی منصوبہ بندی کی نہ سائنس کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کی حالانکہ تمام عرب ممالک وسائل سے مالامال تھے۔ بیشتر جگہوں پر امریکہ، یورپ اور اسرائیل کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے افراد اور گروہ پر مشتمل حکومتیں قائم کردی گئیں، ان میں سے بیشتر ملکوں کے حکمران خاندان عیاش اور کرپٹ تھے، انکا دن عورت اور شراب کے ساتھ طلوع ہوتا تھا، رات بھی اپنی خرمستیوں میں گزرتی تھی۔ نظام حکومت نام کا انکے ہاتھ میں تھا، پردے کے پیچھے امریکی، برطانوی اور اسرائیلی کام کرتے تھے، یہ حکمران سال میں چار مرتبہ امریکہ و یورپ کے تفریحی دوروں پر جاتے اور جہازوں کے جہاز بھر کر اپنے لئے آسائش حاصل کرنے کا سامان خریدتے۔
گنتی کے چند ملک ایسے تھے جن کے سربراہوں نے غلامی میں آنے سے انکار کر دیا، اسی خطا پر وہ معزول ہوئے، قتل ہوئے، ان کے ملکوں پر قبضے ہوگئے، اس حوالے سے تاریخ میں سعودی عرب کے شاہ فیصل، لیبیا کے کرنل قذافی، مصر کے انور السادات، شام کے حافظ الاسد، عبدالحکیم عامر تاریخ میں زندہ رہیں گے، یہ شخصیات جب عالمی استعمار کی زد پر آئیں تو عالم اسلام کے سرکردہ ممالک اور انکے سربراہ خوفزدہ چوہوں کی طرح دبکے بیٹھے رہے، تباہی کا تماشا دیکھتے رہے، پھر وہ وقت آیا جب ان کی اپنی باری آگئی۔ انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو اور بعد ازاں صدر سوہاتو نے بھی مزاحمت کی کوشش کی لیکن اس وقت بہت دیر ہوچکی تھی۔
مقام افسوس کہ مسلمان ڈیڑھ ارب آبادی اور وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود اتحاد کی نعمت سے محروم ہے، اسے گزشتہ دو سو سال میں اپنے خلاف ہونیوالی سازشوں کی سمجھ نہ آسکی کہ عالمی استعمار کے گماشتے مشق ستم کیلئے ایک مسلمان ملک کو منتخب کرتے ہیں، تمام غیر مسلم ممالک اس کے ہمنوا ہوتے ہیں، اقوام متحدہ جیسے بدنام زمانہ طوائف کو ساتھ ملاتے ہیں اور پھر یلغار کر دیتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ظلم و زیادتی ہورہی ہے پھر بھی کوئی صدق دل سے اکٹھا ہونے کا نہیں سوچتا۔ پھر وقت آتا ہے جب کسی دوسرے ملک کی باری آ جاتی ہے، وہ تباہ کر دیا جاتا ہے تو تیسرے ملک کی باری آ جاتی ہے، حجاز کے درجنوں ٹکڑے ہوگئے، خلافت عثمانیہ ختم ہوگئی، پاکستان دولخت کر دیا گیا، کشمیر چھن گیا، سوڈان کی بندر بانٹ ہوگئی، بوسنیا میں مسلمانوں پر قیامت بیت گئی، مسلمان قراردادیں پاس کرتے رہے اور صرف اس بات پر خوش نظر آئے کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ان کے حق میں احتجاج ہورہا ہے، وہ یہ بات بھو ل گئے کہ احتجاج لا دین کرتے ہیں، خدا اور رسولؐ کو ماننے والے احتجاج نہیں جہاد کرتے ہیں، تاریخ کے ورق پلٹ کر دیکھ لیجئے، جب تک جہاد جاری رہا مسلمانوں کا رعب داب طاری رہا، جب مسلمانوں نے مصلحت اندیشی اختیار کی، جہاد کو پس پشت ڈالا، دنیا بھر میں رسوا ہونا شروع ہوگئے، اصلاح احوال کیلئے ایک تھپڑ کھا کر دوسرا رخسار آگے کر دینا بدھ مت کی تاکید تو ہوسکتی ہے اسلام کی تعلیم نہیں، دشمن سے بہتر تعلقات رکھنے کا درس امریکہ و یورپ کا سلسلہ ہے، مسلمانوں کو دشمن سے ہمیشہ محتاط رہنے اور زمانہ امن میں جنگ کی تیاری کرنے، اپنے گھوڑے اور تلواریں تیار رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، دشمن سے تجارت دشمن کی اقتصادی حالت بہتر کرنے کا ذریعہ، اس کے ساتھ میلے ٹھیلے اپنی کمزوریاں اس پر عیاں ہونے کی راہ ہموار کرتی ہیں، چین کی ترقی اور طاقت کی بات کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں چین نی خود کفالت کی منزل طے ہونے تک اپنے گرد حصار قائم رکھا، وہ دنیاوی عیاشیوں اور اللے تللوں سے دور رہے اور ناقابل تسخیر بنے۔ احتجاج چھوڑیئے، جہاد کی تیاری کیجئے، پہلا جہاد غیر ملکی مصنوعات کیخلاف فوراً شروع کیجئے، اس پر پابندی بھی ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button