Editorial

عوامی ریلیف کا بندوبست بھی کیجئے

شنید ہے کہ روس سے سستے تیل کی درآمد شروع ہونے کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بتدریج کمی ہونے جا رہی ہے۔ کئی سال سے ہوش ربا مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کے لیے یقینا یہ خوش آئند خبر ہو سکتی ہے اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے نتیجے میں دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی کم ہوتی جائیں۔ کسی کو برا لگتا ہے تو لگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ روس سے سستا تیل درآمد کرنے کے معاملے میں ہم نے بہت دیر کر دی ہے۔ ہمارے مقابلے میں بھارت اور چین سمیت بہت سے ممالک سستے روسی تیل سے گزشتہ ایک سال سے مستفید ہو رہے ہیں لیکن تجربہ کاروں کی حکومت کے باوجود ہم سوا سال بعد جا کر کہیں سستے روسی تیل سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں آ رہے ہیں۔ مہنگائی کا جو سلسلہ تبدیلی حکومت کے آتے ہی شروع ہوا تھا وہ تجربہ کاروں کی حکومت میں انتہائوں کو چھوتے چھوتے تاریخ رقم کر چکا ہے۔ گزشتہ کئی سال سے پٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں پے در پے کئے جانے والے اضافوں کے نتیجے میں ہونے والی کمر توڑ مہنگائی نے عوام کی اکثریت کا حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست پر بھی اعتماد متزلزل کر دیا ہے۔ چند سال قبل تک ہمارے ہاں معیشت کی زبوں حالی اور بے تحاشا لیے جانے والے قرضوں کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی کی ذمہ دار صرف حکومت وقت کو سمجھا جاتا تھا لیکن اب عوام کی ایک بڑی تعداد حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست پر بھی تنقید کرتی دکھائی دیتی ہے۔ تین ہفتے قبل پیش آنے والے واقعات کی اگرچہ کسی بھی طرح جسٹیفیکشن نہیں دی جا سکتی تاہم اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس بدترین قسم کی توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو میں غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں زچ افراد بھی شامل تھے۔ کوئی شک نہیں کہ سابقہ وزیراعظم اپنے کارکنوں کی تربیت کرنے میں ناکام رہے ہیں اور انہیں یا ان کی جماعت کو عمران خان کو ’’ سرخ لکیر ‘‘ قرار نہیں دینا چاہیے تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد غربت، مہنگائی اور قانون پر عمل درآمد میں ریاستی و حکومتی ناکامیوں سے بھی عاجز آچکے تھے۔ کہتے ہیںکہ چینی دانش ور کنفیوشس سے بادشاہ وقت نے پوچھا، ریاست کو چلانے کے لیے کون سی تین چیزیں از حد ضروری ہیں؟کنفیوشس نے جواب دیا ’’ روٹی، فوج اور عوام کا اعتماد‘‘ بادشاہ نے عرض کیا کہ اگر ریاست بحالت مجبوری ان میں سے ایک چیز نہ دے تو ان میں سے کس چیز کے بغیر گزارا ہو سکتا ہے؟ کنفیوشس نے جواب دیا ، فوج کے بغیر ریاست چل سکتی ہے۔ بادشاہ نے پھر عرض کیا کہ اگر ریاست ان میں سے دو چیزیں نہ دے سکے تو ؟ کنفیوشس نے کہا، فوج اور روٹی کے بغیر گزارا ہو سکتا ہے لیکن اگر ریاست عوام کا اعتماد کھو دے تو ریاست قائم نہیں رہ سکتی۔ کنفیوشس کے قول کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ریاست کو عوام کا اعتماد حاصل رہے تو نہ صرف فوج کے بغیر ریاست قائم رہ سکتی ہے بل کہ ریاست کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ بھی نہ ہو تو بھی عوام ریاست کے وسیع تر مفاد میں بھوک اور فاقے تک برداشت کر سکتے ہیں لیکن جب بھوک کی ماری عوام کا ریاست پر اعتماد اٹھ جائے تو ریاست کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔اپنے بڑے بوڑھوں کی طرح ہم بھی شروع سے ہی ’’ ملک کے نازک دور‘‘ سے گزرنے کی باتیں سنتے آ رہے تھے لیکن گزشتہ دو تین سالوں سے یہ جملہ ترمیم ( انتہائی نازک دور) کے ساتھ سنائی دینے لگا تھا جب کہ گزشتہ چند ماہ میں یہاں تک سننے کو ملا کہ 75سال سے نازک دور سے گزرنے والا پاکستان اب پل صراط پر پہنچ گیا ہے۔ کہنے والے کہتے رہے کہ اب دو ہی صورتوں میں بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ ایک یہ کہ حکمران اشرافیہ خود سے حالات کی سنجیدگی کا ادراک کرتے ہوئے نہ صرف خود کو حاصل اربوں ڈالر کی مراعات سے بتدریج دست بردار ہونے کو تیار ہو جائے بل کہ ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بناتے ہوئے امیر و غریب سب کے لیے قانون اور انصاف کے ایک جیسے معیار قائم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے، بصورت دیگر غریب عوام اور سفید پوش طبقہ اپنے معاشی استحصال کے خلاف خود اٹھ کھڑا ہو گا۔ دو سال قبل اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طاقتور اشرافیہ ( کارپوریٹ سیکٹر، جاگیر دار، سیاسی طبقہ اور فوج ) کو دی جانے والی اقتصادی مراعات کا تخمینہ 17.4ارب ڈالر بنتا ہے۔ یہ رپورٹ ’’ طاقت، عوام اور پالیسی‘‘ کے پرزم پر مبنی، عدم مساوات سے متعلق مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے ملک میں آمدنی اور اقتصادی مواقع کے واضح تفاوت کا جائزہ لیتی ہے۔ اس رپورٹ میں ایک اور تشویش ناک حقیقت متوسط طبقے کی شرح میں آنے والا مسلسل سکڑائو ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق درمیانی آمدنی والے افراد موجودہ صدی کی دوسری دہائی میں آبادی کے42فیصد سے کم ہو کر 36فیصد رہ گئے جب کہ اب ایک اندازے کے مطابق مڈل انکم رکھنے والے افراد کی شرح بمشکل30فیصد رہ گئی ہے۔ کہتے ہیں زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے لیکن ہمارے ارباب اقتدار ابھی بھی ہوش کے ناخن نہیں لے رہے۔ زبان خلق دہائی دے رہی ہے کہ اب غریبوں میں مزید مہنگائی اور ٹیکسز کا بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی۔ مہنگائی اور قرضوں کا بوجھ یا تو اشرافیہ پر ڈالا جائے یا پھر اشرافیہ کی تفریح اور آسائش کے لیے بنے 200گولف کلبوں میں سے چند ایک بیچ دئیے جائیں۔ کوئی شک نہیں کہ کرونا اور روس یوکرین تنازع کے باعث دنیا کے بیشتر ممالک معاشی مشکلات کا شکار ہوئے ہیں لیکن دنیا کے زیادہ تر ممالک حکومتی و سماجی سطح پر کفایت شعاری مہم کے ذریعے اپنی مشکلات پر قابو پا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں حکمران اشرافیہ اپنے لائف سٹائل میں تبدیلی اور مراعات میں کمی پر تیار نہیں۔ ہمارے ہاں ہر آنے والی حکومت سابقہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کر کے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتی ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملک کو اس نہج تک پہنچانے میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ مقتدر ہ کا اہم کردار ہے جو اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے سیاسی حکومتوں کی کا اکھاڑ پچھاڑ میں ملوث رہتی ہے۔ حرف آخر یہی کہ آپ کو ریاستی و حکومتی اداروں اور اثاثوں کی توڑ پھوڑ کرنے والوں کے بندوبست کرنے سے فرصت مل جائے تو عوامی ریلیف کے بندوبست کے لیے بھی کچھ کیجئے۔ ریاستی و حکومتی اداروں کی تقدیس کا بندوبست تو یہاں شروع سے ہوتا آیا ہے ، ہاں البتہ عوام کو غربت، مہنگائی اور بے روزگاری سے دیرپا بنیادوں پر نجات دلانے کا یہاں کسی نے بندوبست نہیں کیا۔

عالمی سطح پر شرمندگی کا بھارتی اعتراف

بھارت کا کردار پوری دُنیا کے سامنے عیاں ہے، وہ خطے میں اپنی چودھراہٹ کے خواب عرصہ دراز سے دیکھ رہا ہے۔ اس کے لیے وہ مختلف ہتھکنڈے اختیار کرتا رہا ہے۔ اس نے کیا کیا سازشیں پاکستان کے خلاف نہیں کیں۔ گزشتہ سال پاکستان میں اس نے براہموس میزائل بھی فائر کیا تھا، جس پر اسے بھرپور سبکی اُٹھانا پڑی تھی۔ اس پر بھارتی عدالت نے اپنی حکومت سے جواب طلب کیا تھا، جس میں بھارتی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ سال مارچ میں حادثاتی طور پر پاکستان میں براہموس میزائل فائر کیے جانے کے واقعے سے بھارت کو ناصرف بین الاقوامی سطح پر شرمندگی اُٹھانی پڑی اور پڑوسی ملک کے ساتھ اس کے تعلقات بُری طرح متاثر ہوئے، بلکہ خزانے کو بھی 24 کروڑ روپے( پاکستانی 82 کروڑ روپے ) کا بھاری نقصان پہنچا ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق یہ اعتراف حادثے کے بعد برطرف کیے گئے بھارتی فضائیہ کے افسر ونگ کمانڈر ابھینو شرما اور دیگر افسروں کی طرف سے اپنی برطرفی کے خلاف دہلی ہائیکورٹ میں دائر درخواست پر مودی حکومت کے جواب میں کیا گیا ہے۔ حکومت نے ہائیکورٹ میں پیش کیے گئے اپنے حلف نامے میں کہا کہ پاکستان میں براہموس میزائل فائر کرنے کی تحقیقات کے بعد اس سنگین غفلت پر ونگ کمانڈر ابھینو شرما سمیت بھارتی فضائیہ کے تین افسروں کو کورٹ مارشل کے ذریعے برطرف کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں مودی حکومت نے مزید کہا کہ ملازمت سے برطرفی کے خلاف تینوں افسروں کی درخواست ریکارڈ پر موجود شواہد کی حساس نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بلاجواز ہے۔ مودی حکومت نے جواب میں یہ بھی اعتراف کیا کہ بین الاقوامی برادری نے پاکستان میں براہموس میزائل فائر کرنے کے حوالے سے اہم تفصیلات جاننے کے لیے حکومت پر دبائو بڑھایا تھا، کیونکہ اس حادثے کی وجہ سے ناصرف بھارت کی سلامتی بلکہ دونوں ہمسایہ جوہری قوتوں کے درمیان تعلقات بھی بُری طرح متاثر ہوئے تھے۔ مودی حکومت نے مزید کہا کہ فضائیہ میں سنگین غفلت پر افسروں کی برطرفی کا فیصلہ 23سال بعد لیا گیا ہے اور بھارت کی طرف سے فائر کیا گیا براہموس میزائل پاکستان کی حدود میں گرنے سے بین الاقوامی سطح پر بھارت اور بھارتی فضائیہ کی ساکھ پر بھی سوال اُٹھ گئے اور سرکاری خزانے کو 24کروڑ روپے ( پاکستانی 82 کروڑ روپے ) کا نقصان بھی پہنچا۔ بھارت کا یہ اعتراف اُس کی عالمی سطح پر بُری سبکی کے مترادف ہے۔ عدالت میں بھارتی حکومت اپنی جارحیت پسندی کو معصومیت کے لبادے میں چھپانے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ امن اُس کا کبھی بھی خواب نہیں رہا۔ اُس نے ہمیشہ ہی طاقت کے زور پر پاکستان کو دبانے کی کوشش کی۔ کون نہیں جانتا پچھلی دو مدت سے مودی ایسا انتہا پسند بھارت کا وزیراعظم ہے، جس کی وزارتِ عظمیٰ میں بھارت میں تعصب، انتہاپسندی، اقلیتوں کے ساتھ مظالم، اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے ڈھیروں واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ بھارتی عدلیہ کی تو مجبوری ہے کہ وہ اپنی حکومت کی باتوں میں ہاں میں ہاں ملائے، مگر غیر جانب دار حلقے بھارتی حکومت کی اس چال بازی کو بخوبی سمجھتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button