ColumnImtiaz Aasi

حقیقی آزادی، عمران خان کی مشکلات

امتیاز عاصی

سانحہ نو مئی نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ بعض لوگ اس سانحہ کو نائن الیون سے سنگین قرار دے رہے ہیں۔ نائن الیون کے واقعہ میں قریبا تین ہزار لوگ مارے گئے۔ اللہ کا شکر ہے عسکری اداروں کے اہل کاروں نے اس روز صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور لوگوں کی جانیں محفوظ رہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں سانحہ نو مئی منفرد واقعہ تھا جس روز ملک کے حساس مقامات کو نشانہ بنایا گیا، جس کی ہر پہلو سے تحقیقات بہت ضروری ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سانحہ میں ملوث مرد اور خواتین کو گرفتار کیا ہے اور موقع پر موجود اصل ملزمان کی نشاندہی کے لئے جیلوں میں شناخت پیریڈ کے انتظامات کئے گئے ہیں۔ جی ایچ کیو پر حملہ آور ہونے والے ملزمان کو فوجی حکام کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔ ہماری معلومات کے مطابق کسی بے گنا کو سزا سے بچانے کے لئے تمام قانونی پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر پولیس حکام انکوائری کر رہے ہیں۔ سانحہ میں گرفتار ایک بے گناہ خاتون کو شناخت پیریڈ کے بعد منگل کی رات سنٹرل جیل راولپنڈی سے رہا کر دیا گیا ہے۔ حساس تنصیبات کسی بھی ملک کے دفاع کی علامت ہوتی ہیں، جن کی حفاظت عسکری اداروں اور شہریوں دونوں کی ذمہ داری ہوتی ہیں۔ امریکہ میں کپیٹل ہل پر حملہ آور ہونے والوں کے سرغنہ کو اٹھارہ سال قید کی سزا دی گئی ہے، اسی طرح کپیٹل ہل کے سانحہ میں ملوث دیگر افراد کو بھی سزائیں دی گئی تھیں۔ ایک اردو معاصر میں سابق وزیراعظم عمران خان کا جو خطاب رپورٹ ہوا ہے، کی مطابق عمران خان کا کہنا ہے جب انہیں کمانڈو ایکشن کرکے گرفتار کیا گیا تو احتجاج عسکری تنصیبات پر ہی ہونا تھا، سمجھ سے بالاتر ہے ۔ان کا کہنا ہے وہ کسی قیمت پر غلامی قبول نہیں کریں گے اگر خوف کے آگے جھک گئے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی، لہذا یہ وقت ہے حقیقی آزادی کے لئے جدوجہد کریں۔ دراصل عمران خان کا اشارہ مقتدرہ سے آزادی کی طرف ہے سوال ہے جب انہیں وزیراعظم کے منصب پر بٹھایا گیا انہیں اس وقت حقیقی آزادی کا خیال کیوں نہیں آیا۔ وزارت عظمیٰ سے محروم کئے جانے کے بعد انہیں حقیقی آزادی کا خیال آرہا ہے۔ ہم عمران خان کی اس بات سے متفق ہیں آئین اپنے شہریوں کو احتجاج کی آزادی دیتا ہے کہیں یہ تو نہیں لکھا ہے احتجاج کی آڑ میں حساس تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے۔ عمران خان نے پاپولر لیڈر ہونے کے باوجود اپنی جماعت کے لوگوں اور عوام کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ یہ درست ہے پی ٹی آئی کے جن لوگوں پر دبائو ڈال کر پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے ان کے ملاپ سے کنگز پارٹی کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ عمران خان کے قریبی دوست اور سیاست سے نااہل قرار دیئے جانے والے جہانگیر ترین پی ٹی آئی چھوڑنے والوں پر مشتمل لوگوں کی مدد سے نئی پارٹی کا قیام عمل میں لا رہے ہیں نئی بات نہیں۔ اس سے پہلے ایوبی دور میں کنونشن مسلم لیگ اور ضیاء الحق کے دور میں پیپلز پارٹی پروگرسیو کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ سانحہ نو سے بین الاقوامی سطح پر ملک و قوم کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ ہمارا ملک عشروں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، کے پی کے ہو یا بلوچستان آئے روز خودکش حملوں اور دہشت گردوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہونے والوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ ملک کے حساس ترین مقامات کو نشانہ بنا کر دشمن کو تماشا دکھانا چاہیے۔ ادھر وفاقی وزیر داخلہ نے عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا عندیہ دیا ہے۔ وزیرداخلہ کے بیان کے مطابق عمران خان خود طے کر کے گئے تھے کہاں کیا کرنا ہے، جس کے حکومت کے پاس ثبوت موجود ہیں۔ تعجب ہے ایک طرف وزیر داخلہ حساس تنصیبات پر حملہ آور ہونے کا ذمہ دار عمران خان کو ٹھہرا رہے ہیں، دوسری طرف وزیر دفاع سانحہ نو مئی کی ذمہ داری صدر مملکت عارف علوی پر ڈال رہے ہیں، جو اس امر کا غماز ہے حکومت کے پاس سانحہ نو مئی کی ذمہ داری کا تعین کرنے کے لئے ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ ہمارا ملک عجیب صورت حال کا شکار ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے، پیپلز پارٹی کے قائد آصف زرداری ایک بار پھر متحرک ہو چکے ہیں، انہوں نے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ پی ٹی آئی سے جانے والوں کا زیادہ تر جھکائو مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کی طرف ہے اسی لئے آصف زرداری نے لاہور میں قیام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جیلوں میں بند پی ٹی آئی ورکرز کی ملاقاتوں پر مکمل پابندی ہے۔ کسی کو شناخت پیریڈ کے لئے رکھا گیا ہے یا بیرک میں ہیں، ان کی ملاقاتوں پر پابندی ہے حالانکہ جیل مینوئل میں قیدیوں اور حوالاتیوں پر ان کے اہل خانہ کی ملاقات پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ پنجاب حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے کسی کا جرم اپنی جگہ لیکن ملاقات پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ ہائی پروفائل قیدی جنہیں ہائی سیکورٹی جیل میں رکھا گیا ہے ان کی ملاقات پر پابندی نہیں ہے تو پی ٹی آئی ورکرز پر ملاقات پر پابندی کس قانون کے تحت لگائی گئی ہے۔ حکومت کا عوام کے مسائل کی بجائے پی ٹی آئی پر فوکس ہے کس طرح تحریک انصاف کا خاتمہ ممکن ہو۔ ہمیں مریم نواز کا بیان شدت سے یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے نواز شریف کی نااہلی کے خاتمے تک انتخابات کے انعقاد کو ناممکن قرار دیا تھا سچ ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حالیہ حالات میں عام انتخابات کے انعقاد کے دور دور تک آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ حالات اور واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان کی گرفتاری اور نااہلی تک عام انتخابات کا ہونا ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ سانحہ نو مئی کی آڑ میں حکومت عمران خان کے خلاف ٹھوس شواہد جمع کر رہی ہے جیسے ہی ان کے خلاف ناقابل تردید ثبوت اکٹھے ہوں گے انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ کاش عمران خان اپنی انتخابی مہم میں حقیقی آزادی کا نعرہ لگاتے تو عوام میں اس بھی زیادہ مقبول ہو سکتے تھے ۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button