Editorial

سانحات قوم کا مقدر بن گئے

حادثات کے حوالے سے ملک عزیز میں طویل تاریخ ہے، ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر سانحہ ثابت ہوتا ہے، یہاں کئی بار ہوائی جہاز، ٹرین اور بس کے ایسے حادثات ہوچکے ہیں، جن پر پوری قوم بارہا دہلی۔ ہر درد مند شخص کی آنکھ اشک بار ہوئی۔ کس کس کا ذکر کیا جائے، وقت گزرنے کے ساتھ ان حادثات میں کمی کے بجائے اضافے ہی دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ان میں بعض حادثات غفلت اور لاپروائی کا شاخسانہ تھے، کسی کی ذرا سی غفلت نے کئی زندگیاں تباہ کر ڈالیں، کچھ قدرت کی طرف سے آزمائش، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان حادثات میں ہر سال ہزاروں افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوجاتے ہیں اور لاتعداد ایسے ہوتے ہیں، جن کا مقدر عمر بھر کی معذوری بن جاتی ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر اموات تو ملک میں 15سال جاری رہنے والی دہشت گردی سے نہیں ہوئیں، جتنی حادثات کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ سانحات قوم کا مقدر بن گئے ہیں، ہر کچھ روز بعد کوئی نہ کوئی ایسا حادثہ یا واقعہ رونما ہوتا ہے، جو کئی زندگیوں کے ضیاع کی وجہ بن جاتا ہے، اس پر پورے ملک میں سوگ کی فضا طاری ہوجاتی ہے۔ گزشتہ روز بھی ایک ایسا ہی حادثہ پیش آیا ہے، جس میں 10افراد اپنی زندگی سے محروم ہوگئے اور دو درجن سے زائد لوگ زخمی ہوگئے۔ اطلاعات کے مطابق گلگت بلتستان کے ضلع استور کے علاقے شونٹھر ٹاپ پاس میں برفانی تودہ گرنے سے 10افراد جاں بحق اور 25 زخمی ہوگئے۔ ریسکی اہلکار نے خبر ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کشمیر سے آنے والے 35خانہ بدوشوں کے گروپ نے کھائی کے قریب کیمپ لگا رکھا تھا، کیمپ میں موجود افراد گزشتہ رات برفانی تودے کی زد میں آئے، خراب موسم، دشوار گزار راستے کے باعث امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ آرہی ہے۔ ترجمان نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( این ڈی ایم اے) کے مطابق این ڈی ایم اے، مقامی انتظامیہ، ریسکیو 1122کے ساتھ رابطے میں ہے، فورس کمانڈر شمالی علاقہ جات کو ریسکیو و ریکوری کے لیے متحرک کر دیا گیا ہے۔ این ڈی ایم اے نے 2پاک آرمی کے ہیلی کاپٹرز دستیاب کر دئیے ہیں، جاں بحق، زخمی اور لاپتا ہونے والے افراد کی تعداد کی تصدیق کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ جاں بحق اور زخمیوں کا تعلق پنجاب کے علاقوں سے ہے، راستے خراب اور رابطے نہ ہونے کے باعث حادثے کا تاخیر سے علم ہوا، ایک شخص نے حادثے کے مقام سے نیچے آکر اطلاع
دی، برفانی تودہ گرنے کا واقعہ کل پیش آیا تھا۔ یہ بڑا افسوس ناک واقعہ اور الم ناک سانحہ ہے۔ پوری قوم اس پر اُداس اور غم زدہ ہے۔ کئی گھرانوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ وہ اپنے پیاروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔ پاک فوج کی امدادی اور ریسکیو ٹیموں نے سول انتظامیہ کے تعاون سے اب تک 8جاں بحق افراد کو زیرِ برف تودہ سے نکال لیا۔ امدادی کاوشوں کے نتیجے میں 13زخمی افراد کو بحفاظت ڈی ایچ کیو ہسپتال استور پہنچا دیا گیا۔ پاک فوج کا میڈیکل کنٹرول روم بھی اسی ضمن میں تیار کرلیا گیا تاکہ زخمیوں کے میڈیکل اور امدادی سرگرمیوں کو تیزی سے بر وقت جاری رکھا جاسکے۔ شکر کہ پاک فوج تیزی کے ساتھ ریسکیو سرگرمیوں میں مصروف ہے، اس حوالے سے اُسے بڑی کامیابی ملی ہے اور جلد بقایا لوگوں کو بھی ریسکیو کیے جانے کی توقع ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو مانا کہ حادثات کی روک تھام نہیں کی جاسکتی۔ دُنیا بھر میں ہوائی جہاز، ٹرین اور بس حادثات ہوتے ہیں، لیکن وہاں ایسی حفاظتی انتظامات کیے جاتے ہیں، جن کے نتیجے میں اموات کی شرح کم سے کم ہوتی ہے۔ زندگیوں کا ضیاع اُس پیمانے پر نہیں ہوتا، جتنا یہاں دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کی وجہ وہاں کے سیفٹی اقدامات کا موثر ہونا ہے جب کہ یہاں حفاظتی انتظامات کے نام پر کوئی اقدامات دیکھنے میں نہیں آتے۔ اگر کیے بھی جاتے ہیں تو وہ زبانی کلامی دعووں تک محدود ہوتے ہیں، اُن پر عمل درآمد کا فقدان ہوتا ہے۔ اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، سیفٹی اقدامات ہر صورت کیے جائیں، تاکہ حادثات میں کم از کم زندگیوں کا نقصان ہو۔ اس کے علاوہ فضائی، ٹرین اور بس حادثات کی روک تھام کے لیے سخت قوانین کا نفاذ ضروری ہے۔ ایسے انتظامات کیے جائیں کہ غفلت اور لاپروائی کی بالکل بھی گنجائش نہ بچے۔ ان حادثات کی وجوہ کو تلاش کیا جائے اور اُن کا سدباب کرنے کی کوشش کی جائے۔ ریلوے کے نظام کو مزید بہتر اور دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ اسی طرح بسوں کی فٹنس پر آئندہ کبھی کسی قسم کا سمجھوتا دیکھنے میں نہ آئے۔ اس معاملے میں کرپشن کے عمل دخل کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ گیس سلنڈر مسافر گاڑیوں سے نکالے جائیں۔ سلنڈرز پر چلنے والی مسافر گاڑیوں کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے اور ان کے مالکان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ بس ڈرائیورز کی تربیت کا مناسب بندوبست کیا جائے۔ نشئی اور غیر حاضر دماغ لوگوں کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا کر اتنی سارے لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کا سلسلہ بند کیا جائے۔ یقیناً حفاظتی اقدامات کے ذریعے حادثات میں اموات کی شرح میں معقول حد تک کمی لانا ممکن ہے۔

آئرن لیڈی ڈاکٹر سیمی جمالی کی رحلت، ایک اور مسیحا روٹھ گیا

جناح ہسپتال کراچی کی سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی ہفتے کی شب طویل علالت کے باعث انتقال کر گئیں۔ وہ کافی عرصے سے بڑی آنت کے کینسر میں مبتلا تھیں۔ خاندانی ذرائع کے مطابق ڈاکٹر سیمی جمالی کئی روز سے نجی ہسپتال میں زیر علاج تھیں۔ سیمی جمالی کی نماز جنازہ اتوار کو بعد نماز عصر جناح ہسپتال کی مسجد میں ادا کی گئی۔ ڈاکٹر سیمی جمالی نے نواب شاہ سے میڈیکل کی تعلیم مکمل کی، انہوں نے تھائی لینڈ سے ماسٹر آف پبلک ہیلتھ مینجمنٹ کی ایڈوانس ڈگری حاصل کی اور 1988ء میں بطور آر ایم او جے پی ایم سی جوائن کیا۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کو1995ء میں جے پی ایم سی کے شعبۂ حادثات کا انچارج مقرر کیا گیا، وہ 2010ء میں جے پی ایم سی کی جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر بنیں، پھر 6سال بعد وہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر مقرر ہوئیں۔ ان کے انتقال پر وزیر خارجہ بلال بھٹو زرداری، گورنر سندھ کامران ٹیسوری اور وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ نے گہرے دکھ اور لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کا انتقال بہت بڑا سانحہ ہے، اُن کا خلا کبھی پُر نہیں ہوسکے گا۔ وہ خدمت انسانیت کے حوالے سے معتبر حوالہ تھیں۔ شعبہ طب میں اپنی بیش بہا خدمات کے باعث انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ اُنہوں نے جناح ہسپتال کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت سے فعال کردار ادا کیا اور ملک گیر شہرت حاصل کی۔ اُنہیں تمام ہی حلقوں میں عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ تمام تر عرصے غیر متنازعہ شخصیت رہیں۔ کردار بے داغ اور شفاف رہا۔ ڈاکٹر سیمی جمالی دُکھی اور غریب مریضوں کے لیے وہ بہت بڑا سہارا تھیں۔ کرونا وائرس کے پہلی بار پھیلائو کے دوران وہ کینسر کے باعث شدید بیمار تھیں، اس کے باوجود اُنہوں نے اپنے فرض کو اولیت دیتے ہوئے عالمی وبا کے خلاف صف اول میں رہتے ہوئے فعال کردار نبھایا۔ اُنہیں آئرن لیڈی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ شعبہ طب میں گراں قدر خدمات پر انہیں تمغۂ امتیاز عطا کیا اور پاک فوج کی جانب سے اعزازی لیفٹیننٹ کرنل بھی بنایا گیا تھا۔ اُن کی رحلت سے شعبۂ طب کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے۔ ان کے انتقال سے ایک عظیم اور غریبوں کا دُکھ اپنے دل میں محسوس کرنے والا مسیحا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روٹھ کر چلاگیا۔ آہ کیا کیا صورتیں تھیں، جو خاک میں پنہاں ہوگئیں۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت اُن کی مغفرت فرمائے اور اُن کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button