ColumnRoshan Lal

خطرناک ڈرائیونگ ، عمران خان اور انجام کار ..  روشن لعل

روشن لعل

ایسے ڈرائیور جو انتہائی تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں، ان کی ڈرائیونگ کو ہمیشہ نفرت کی حد تک ناپسند کیا ہے۔ اس حد تک نفرت کے باوجود کسی ڈرائیور کو تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے دیکھ کر کبھی یہ خواہش نہیں کی کہ اس کا ایکسیڈنٹ ہو جائے۔ خطرناک حد تک تیز رفتاری سے گاڑی چلانے والوں کی سلامتی کی خواہش کے باوجود ان کے ایکسیڈنٹ کے زیادہ امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہی کہ خطرناک ڈرائیونگ کرنے والے کا ہی نہیں بلکہ محتاط ڈرائیور کے ایکسیڈنٹ کا امکان بھی اسی وقت پیدا ہوجاتا ہے جب وہ اپنی گاڑی سڑک پر لے کر آتا ہے۔ یہ بات درست ہے مگر جہاں تک حد سے زیادہ رفتار کا تعلق ہے تو جس قدر کوئی غیر محتاط ہو کر تیز رفتاری سے گاڑی چلائے گا اسی قدر اس کے ایکسیڈنٹ کا امکان زیادہ ہو جائے گا۔ اگر کوئی ڈرائیور اپنے ارد گرد گاڑیاں چلانے والوں اور حتیٰ کہ فٹ پاتھ پر چلنے والوں کو بھی انتہائی حقیر سمجھ کر ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اس نیت سے خطرناک ڈرائیونگ کرے کہ کسی کو اس سے آگے رہنے کا حق نہیں ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کے ایکسیڈنٹ اور دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے نقصان کا کتنا زیادہ امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ خدانخواستہ اگر کبھی محتاط ڈرائیور کا ایکسیڈنٹ ہوبھی جائے تو اس کے ارد گرد جمع ہونے والے لوگ اس کے ساتھ والہانہ ہمدردی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں جبکہ غیر محتاط ڈرائیور کے ایکسیڈنٹ کی صورت میں بعض اوقات یہ افسوسناک الفاظ بھی سننے کو ملتے ہیں کہ جس تیز رفتاری سے یہ گاڑی چلا رہا تھا اس سے توایسا لگتا تھا کہ یہ گھر سے نکلا ہی مرنے کے لیے نکلا ہے۔ کوئی چاہے اپنی غلطی اور خطرناک ڈرائیونگ کی وجہ سے ہی کیوں نہ زخمی ہوا ہو اس کی لیے اس طرح کے الفاظ کسی طرح بھی مناسب قرار نہیں دیئے جا سکتے مگر کیا کیا جائے کہ یہاں جس طرح لوگ خطرناک حد تک نامناسب ڈرائیونگ کرتے پائے جاتے ہیں اسی طرح خطرناک ڈرائیونگ کی وجہ سے زخمی ہونے والوں کے لیے نامناسب الفاظ بھی سننے کو مل جاتے ہیں۔ خطرناک ڈرائیونگ کرتے ہوئے اگر کوئی بندہ زخمی ہو جائے تو طبی امداد کی فراہمی کو اس پہلا حق سمجھنے کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کیونکہ زخمی ہو گیا ہے اس لیے اس کے خلاف مروجہ قوانین کے مطابق کوئی کارروائی نہ کی جائے ۔ اس کے برعکس ایسے تیز رفتار ڈرائیور کے متعلق نامناسب الفاظ استعمال کرنے والوں کے رویے کو ناپسند تو کیا جاسکتا ہے مگر ان کے خلاف کسی قانونی کارروائی کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔
سطور بالا میں خطرناک ڈرائیونگ ، اس کے انجام کار اور ایکسیڈنٹ کی شکل میں زخمی ہونے کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے اس کا خاص تعلق عمران خان اور ان کی تحریک انصاف سے ہے ۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ عمران خان خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر تحریک انصاف کی گاڑی کس حد تک خطرناک طریقے سے چلاتے رہے۔عمران خان کے رویوں سے تنگ آئے ہوئے جن لوگوں نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر یہ کہا تھا کہ کہ انہیں ہم نہیں گرائیں گے بلکہ یہ خود ہی اپنے وزن سے گر جائیں گے اور یہ کہ ان کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں ہوگا، ان لوگوں نے بہت پہلے باور کرادیا تھا کہ عمران خان کی خطرناک ڈرائیونگ کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔ عمران خان اپنی ذات، اپنے دوستوں اور اپنی جماعت کے متعلق بیان کی گئیں دانشمندوں کی پیش گوئیوں کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے خطرناک سے خطرناک حد تک تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرتے رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی ڈرائیونگ کے آغاز پر انہیں یہ ضمانت حاصل تھی کہ ان کے زیراستعمال گاڑی جس کی رفتار کی کوئی حد نہیں اس میں پٹرول کبھی ختم نہیں ہونے دیا جائے ، خطرناک حد سے بہت زیادہ رفتار میں گاڑی چلانے کی دوران انہیں تو چالان سے استثنا حاصل ہوگا لیکن مناسب رفتار سے گاڑی چلانے والا کوئی ڈرائیور اگر ان کے قریب پھٹکنے کی کوشش کرے گا تو اس کا فوراً چالان کر دیا جائے گا۔ انہیں خطرناک طریقے سے گاڑی چلانے کی اس حد تک اجازت ہوگی کہ اگر ان کی گاڑی سڑک کی بجائے فٹ پاتھ پر چڑھ کر وہاں چلنے والوں کو کچل بھی دے تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔اس طرح کی بے رحمی کی اگر کوئی مخالفت کرے گا تو سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا میں بھرتی کیے گئے ایجنٹوں کی فوج ظفر موج کے ذریعے مخالفت کرنے والوں کی آوازوں کو کچل کر انہیں غدار قرار دے دیا جائے گا۔ اپنی حکومت کے اولین تین برسوں کے دوران عمران خان بااختیار لوگوں کی سہولت کاری کے بل پر اپنی گاڑی کو جس قدر ممکن تھا تیز رفتاری اور بے رحمی سے چلاتے رہے۔ اس دوران عمران خان یہ بھی بھول گئے کہ انہیں بے رحمی اور تیز رفتاری سے گاڑی چلانے کا جو لائسنس عطا کیا گیا ہے اس کے کچھ خاص مقاصد ہیںجو بڑی حد تک بااختیار لوگوں کے اجتماعی اور ذاتی مفادات کے تحفظ سے جڑے ہوئے ہیں۔ بااختیار لوگوں کی فوج ظفر موج میں سے ہر کسی کے مفادات کا بیک وقت تحفظ کسی طرح بھی ممکن نہیں ہو سکتا ۔جب ایسے لوگوں کے مفادات کے تحفظ میں عمران خان توازن قائم نہ رکھ سکے تو بے رحمی اور انتہائی تیزرفتاری سے چلنے والی ان کی گاڑی کو حاصل جملہ استثنا آہستہ آہستہ واپس ہونا شروع ہو گئے۔ ہر استثنا کو اپنا حق سمجھنے والے عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے خلاف بھی محاذ کھول دیا جنہوں نے انہیں دیا گیا بے رحمی سے گاڑی چلانے کا لائسنس واپس لینے کی دھمکی دی تھی۔ نئی محاذ آرائی کے نتیجے میں عمران خان کا بے رحمی اور تیز رفتاری سے گاڑی چلانے کالائسنس مکمل طور پر ختم ہوگیا مگر اس کے باوجود انہوں نے ان ٹریفک سنتریوں کے تعاون سے حسب سابق خطرناک اور بے رحم ڈرائیونگ جاری رکھنے کی کوشش کی جن سنتریوں کے ساتھ لائسنس کینسل ہونے سے پہلے ان کے خاص قسم کے روابط قائم ہو چکے تھے۔ جس قدر ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ عمران خان ایک عرصہ سے کرتے چلے آرہے تھے اسی قدر ناعاقبت اندیش ان کے ٹریفک سنتری دوست ثابت ہوئے اور انہوں نے ایک ایسی گاڑی کو بے رحم اور خطرناک حد تک تیز رفتاری سے چلانے میں عمران خان کی مدد کی جس کے پٹرول کا پرمٹ اور ڈرائیور کا لائسنس بہت پہلے کینسل ہو چکا تھا۔ اب ایسی گاڑی کے ایکسیڈنٹ اور اس ایکسیڈنٹ کے دوران سواروں کے زخمی ہونے کا یقینی امکان کیسے رد کیا جاسکتا ہے۔ یقینی امکان کے عین مطابق عمران خان کی گاڑی ایکسیڈنٹ کا شکار اور اس گاڑی کے نعرے باز سوار زخمی ہو چکے ہیں۔ عمران خان اور ان زخمی ساتھیوں کے ساتھ اب کوئی انسانی حقوق کے نام پر چاہے جتنی بھی ہمدردی کر ے مگر وہ ان قوانین کے اطلاق سے کسی کو بھی استثنا نہیں دلوا سکے گا جنہیں عمران خان اپنے دور حکومت میں صرف اس وجہ سے تبدیل یا ختم کرنے کے لیے راضی نہ ہوئے کیونکہ وہ انہیں اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف استعمال کر رہے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button