Editorial

عیدالفطر۔۔۔ قدرت کا عظیم تحفہ

جہان پاکستان فیملی کی جانب سے اہل وطن کو عیدالفطر کی خوشیاں مبارک ہوں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کہ جس کی تشکیل ہی اسلام کے نام پر ہوئی اور جہاں آباد شہریوں کی بڑی تعداد الحمدللہ مسلمان ہے۔ وطن عزیز ماہ رمضان المبارک کی 27ویں شب کے عظیم موقع پر آزاد ہوا۔ یہاں بسنے والے اسلامی تہواروں کے ساتھ خاص عقیدت رکھتے ہیں۔ عیدین کے مواقع ہوں، رمضان المبارک ہو یا محرم الحرام کے دن، پاکستانی مسلمان انہیں عقیدت و احترام اور ایمانی جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔ اسلامی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کو عیدالفطر کی بے پایاں خوشیاں منانے کا بنیادی درس ایک آفاقی قرآنی پیغام میں ملتا ہے۔ نبی آخر الزماںؐ نے قرآنی تعلیمات کے ذریعے مسلمانوں کو بتایا کہ پہلی امتوں پر بھی روزے فرض کیے گئے، اس کی اساس تقویٰ پر رکھی، روزوں کی فضیلت انسانی معاشرے میں ایک وحدت انسانی سے مشروط وہ کامل ترین عبادت ہے،جس میں بندہ پورے مہینے کے روزے اس نیت سے رکھتا ہے کہ اس کی بدنی طہارت، روح کی پاکیزگی اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی حاصل کرے اور اپنے تزکیہ نفس کے لیے اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اسلام کی حقانیت سے مربوط دینی و مذہبی ہدایات کی ہر حکمت کو جو مظاہر فطرت کی تمام چیزوں میں نمایاں کرے۔ روزہ بدن کی زکوٰ ۃبھی ہے اور عید کا ایک عظیم تحفہ بھی۔ عیدالفطر دراصل رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں اللہ کی غرض سے اختیار کی گئی ریاضت کا عظیم انعام ہے۔ اہل اسلام رمضان کے متبرک ماہ میں رب عظیم کی رضا کے لیے بھوک پیاس، خواہشاتِ نفسی پر ضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ رحمتوں، برکتوں، مغفرت اور انعامات کے اس مہینے کا ایک حُسن عیدالفطر بھی ہے، جو رمضان کے اختتام پر اہل ایمان کو نصیب ہوتا ہے۔ عیدالفطر جہاں اللہ رب العزت کی جانب سے رمضان المبارک کی محنتوں کا ایک صلہ ہے، وہیں اہلِ اسلام کے درمیان محبت، خلوص، پیار اور اخوت کے اشتراک کا مظاہرہ بھی ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد کسی تفریق کے بغیر ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہونا اور خوشیوں کو معاشرے کے ہر طبقے تک پھیلانا بھی ہے۔ اسی طرح عیدالفطر کے وسیع تر مقاصد میں ایک باہمی اتحاد و یگانگت سے خوشیوں، رحمتوں اور نعمتوں کے حصول کا متفقہ اظہار بھی ہے۔ عید کی خوشیاں لامتناہی ہیں، اس میں غریب اور امیر کی کوئی قید نہیں، ایک سادہ دل مزدور پیشہ بندہ بھی اپنے اہل خانہ کو عید کی خوشیوں کے قابل بنا سکتا ہے، وہ بھوک اور غربت، بیماری اور استحصال کے مارے اس نظام میں سسکتے ہوئے بھی اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے خریدنے کے جتن کرتا ہے، وہ احساسِ کمتری کا شکار نہیں رہتا، کسی سے گلہ نہیں کرتا کہ اس کے غربت زدہ بچے محروم جب کہ امیروں کے بچے تعیشات اور ہر قسم کی سہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں، یہ قناعت ایک سماج کے ارتقائی سفر کی ان کہی کہانیوں کا ابتدائیہ ہوتی ہے۔ یہاں ہم لوگوں کی اس جانب توجہ مبذول کرانا چاہیں گے کہ موجودہ مہنگائی کے تناظر میں بعض ایسے بھی ہیں کہ جو عید کی خوشیوں سے محروم رہ گئے ہیں۔ عوام میں سے جو صاحب استطاعت ہیں، وہ اپنے اردگرد ایسے لوگوں پر نظر رکھیں اور اُن کو عید کی خوشیاں دینے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اُن کے لیے آسانیاں فراہم کریں۔ اُن کی مدد ایسے کریں کہ دل آزادی نہ ہو اور وہ عید کی خوشیوں میں شامل بھی ہوسکیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان معیشت کے بدترین بحران سے نبرد آزما ہیں۔ مہنگائی کے نشتر عوام پر بُری طرح برس رہے ہیں۔ بے روزگاری کا دور دورہ ہے۔ غربت کی شرح میں ہولناک اضافے دیکھنے میں آرہے ہیں۔ پاکستانی روپیہ بدترین بے توقیری سے گزر رہا ہے۔ وطن عزیز شدید معاشی بحران میں موجودہ حکومت کی کوششوں سے ایک نئی منزل کی جستجو میں مصروفِ عمل ہے۔ حکومتی اقدامات کے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ بعض مشکل فیصلے ضرور کیے گئے، لیکن اگلے وقتوں میں ان کے قومی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ حالات مشکل ضرور ہیں لیکن ان سے احسن انداز سے نمٹا جائے تو اس کٹھن صورت حال سے جلد خلاصی ممکن ہے۔ پاکستان کو نوجوان افرادی قوت وافر تعداد میں میسر ہے، جس کا مطمع نظر پاکستان کی سلامتی اور وطن عزیز کی قومی یکجہتی ہے۔ یہ نوجوان اپنی شبانہ روز محنتوں سے ملکی معیشت میں بہتری کے لیے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ان کو بلاامتیاز مواقع فراہم کرنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس سے صورت حال میں مزید بہتری کے آثار نظر آئیں گے۔ ملکی وسائل پر انحصار کیا جائے۔ پاکستان قدرت کی عطا کردہ عظیم نعمتوں سے مالا مال ہے۔ ان کو صحیح خطوط پر بروئے کار لایا گیا تو صورت حال موافق بنائی جاسکتی ہے۔ پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے، پاک فوج ملک کے دفاع سے غافل نہیں اور ہر لحاظ سے آگے بڑھ کر ملک و قوم کی خدمت میں مصروف عمل ہے۔ ہم ان سطور کے ذریعے کہنا چاہیں گے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں قوم کو اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی سطح پر بھی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا جائے۔ سیاست میں دانش، تدبر اور دُوراندیشی کو فروغ دیا جائے۔ ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھالنے سے دریغ کیا جائے۔ برداشت کا کلچر متعارف کرایا جائے۔ سیاست برائے سیاست کی روش ترک کی جائے۔ سیاست برائے خدمت کی روایت ڈالی جائے۔ عیدالفطر کے موقع پر دعا ہے کہ رب العزت ملک عزیز کو ہر طرح کا استحکام عطا فرمائے۔ قوم میں اتحاد و یگانگت پیدا فرمائے۔ معاشرے میں پائی جانے والی خرابیوں کا خاتمہ فرمائے۔ انصاف کا بول بالا فرمائے۔ رب العزت تمام اہل وطن کو عید کی خوشیوں سے مالا مال فرمائے اور یہ عید سعید سب کے لیے امن و سکون اور مسرت کا باعث ٹھہرے۔ ( آمین)

انٹر سٹی بس مالکان کی عیدی مہم، شہری پریشان

لوگوں کی عیدالفطر منانے کے لیے آبائی علاقوں کو واپسی کے موقع پر ٹرانسپورٹرز کی جانب اُن کی جیبوں پر بھرپور نقب لگانے کی اطلاعات ملک بھر سے سامنے آرہی ہیں۔ اسلام آباد ہو کہ کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ و دیگر شہروں سے اپنے آبائی علاقوں کو عید منانے کے لیے جانے والے ٹرانسپورٹرز کی جانب سے زائد کرائے وصول کیے جارہے ہیں، جس پر ان لوگوں کی جانب سے شکوے و شکایات بھی سامنے آرہی ہیں۔ ایسا ہر سال ہی ہوتا ہے۔ ہر بار عیدین کے موقع پر ٹرانسپورٹرز اسی طرح من مانے کرائے وصول کرکے ناجائز منافع کماتے ہیں۔ اخباری اطلاع کے مطابق ٹرانسپورٹرز اور ڈرائیورز نے عیدی مہم شروع کردی، ایک سے دوسرے شہر جانے والے شہریوں سے دوگنا کرایہ وصول کرنے لگے۔ پردیسیوں کی عید کے لیے اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کے لیے انٹرسٹی بس اڈوں پر رش لگ گیا، بیشتر پردیسی ٹکٹ نہ ملنے پر مارے مارے پھرتے رہے، جس نے ہاتھ پاں مار کر ٹکٹ حاصل کیا، اس کو انتہائی مہنگا ملا۔ بس اڈوں پر بیٹھے ٹرانسپورٹرز کے ملازمین اور ڈرائیورز نے عیدی مہم بھی شروع کردی، بڑے شہروں سے دیگر شہروں کو جانے والے مسافروں سے منہ مانگے کرائے وصول کیے جارہے ہیں، 500والا ٹکٹ ایک ہزار جب کہ ہزار والا دو ہزار روپے سے کم میں نہیں مل رہا۔ ٹرانسپورٹرز کی جانب سے زائد کرایہ وصولی کا سلسلہ جاری ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے بعض شہروں میں اکا دکا مقامات پر زائد کرایہ لینے والے ٹرانسپورٹرز کے خلاف کارروائیاں عمل میں لائی گئیں، باقی سب جگہ اس حوالے سے راوی چین ہی چین لکھتا رہا کہ افسران عید منانے میں مصروف عمل تھے۔عیدین کے موقع پر انٹرسٹی بس مالکان کی جانب سے زائد کرائے کی وصولی کسی طور بھی احسن امر نہیں کہلاسکتا، یہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ہی کہلائے گا۔ لوگ پہلے ہی بدترین مہنگائی سے تنگ ہیں، اُس پر پہلے ہی کرائے کافی حد تک بڑھ چکے ہیں، اس کو جب دوگنا وصول کیا جائے تو یہ غریبوں کو سنگین بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹ مالکان کو اس روش کو ترک کرنا چاہیے۔ اُن کی ناجائز منافع خوری بہت سے غریبوں کے لیے سوہان روح ثابت ہوتی ہے۔ دین بھی ناجائز منافع خوری سے منع کرتا ہے۔ دُنیاوی نقطہء نظر سے بھی یہ امر درست نہیں۔ اُنہیں جائز کرایہ وصول کرنا چاہیے۔ آخر شہریوں کو اس طرح کب تک لوٹا جاتا رہے گا۔ کب تک اُن کی جیبوں پر نقب لگائی جاتی رہے گی۔ یہ تمام سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہی کہ آئندہ تمام شہروں میں متعلقہ انتظامیہ زائد کرایہ وصول کرنے والے ٹرانسپورٹرز کے خلاف منظم مہم شروع کریں، ان کے خلاف متواتر کارروائیاں جاری رکھی جائیں، انٹرسٹی بسوں کو روزانہ کی بنیاد پر چیک کیا جائے، ان کے مسافروں سے معلومات لی جائیں، زائد کرایہ وصول کرنے والے بس مالکان کے خلاف سخت کارروائیاں عمل میں لائی جائیں، تاکہ وہ اپنی اس ناپسندیدہ مشق سے تائب ہوسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button