Editorial

داخلی حالات اور ترجیحات !

 

بلوچستان کے ضلع بولان میں بلوچستان کانسٹیبلری کے ٹرک پر خودکش دھماکے میں 9 سکیورٹی اہلکار شہید اور 9 زخمی ہوئے ہیں۔ موٹرسائیکل سوار خودکش حملہ آور نے ٹرک کے قریب آکر خود کو دھماکے سے اڑالیا۔تین زخمیوں کی حالت نازک اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ بلوچستان کانسٹیبلری کے اہلکار سبی میلے میں ڈیوٹی کرکے واپس آرہے تھے جب انہیں راستے میں نشانہ بنایا گیا۔ دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ٹرک الٹ گیا اور اہلکار اس کے نیچے دب گئے مگر دشمن عناصر کی بزدلانہ کارروائیاں، بلوچستان کے امن اور خوشحالی کو سبوتاژ نہیں کر سکتیں،سکیورٹی فورسز خون اور جان کی قیمت پر بھی دشمن کے مذموم عزائم کو چیلنج کرنے اور خاک میں ملانے اور مادر وطن کے دفاع کے لیے پرعزم ہیں۔ چند روز قبل ہی پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کو سات سال مکمل ہوئے ہیں۔بھارتی نیوی کا حاضر سروس کمانڈرکلبھوشن سدھیر یادیو، حسین مبارک پٹیل کے نام سے پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلا رہا ہے۔ کلبھوشن کو پاکستانی ایجنسیوں نے 3 مارچ 2016 کو چمن کے علاقے ماشخیل سے گرفتار کیا تھااور کلبھوشن نے اپنے بیان میں پاکستان میں دہشت گردی کا اعتراف کرتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ بھارت کا ہدف سی پیک، گوادر بندرگاہ اور بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کو بڑھاوا دینا تھا۔ستمبر 2016میں پاکستان نے کلبھوشن یادیو اوربھارتی دہشت گرد تنظیم ’’را‘‘ کی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں پر مبنی ڈوزیئر بھی اقوامِ متحدہ کے حوالے کیا بھارت نے پہلے پہل کلبھوشن یادیو کواپنا شہری ماننے سے انکار کیا تاہم اپریل 2017 میں پاکستان کی طرف سے کلبھوشن کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد بھارت میں کھبلی مچ گئی اور بھارت کلبھوشن یادیو کی رہائی کے لیے عالمی عدالت جا پہنچا۔بلوچستان میں علیحدگی پسند گروپوں کو بھارت کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وہ پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے بھرپور سرمایہ کاری کررہا ہے۔ایک طرف بلوچستان میں نام نہاد علیحدگی پسند بھارتی ایجنٹ پاک فوج اور سکیورٹی فورسز کے خلاف مسلح کارروائیوں میں مصروف ہیں تو دوسری طرف خیبر پختونخوا اور اِس سے منسلک قبائلی علاقوں میں بھی امن دشمنوں کی طرف سے ایسی ہی افسوس ناک کارروائیاں کی جارہی ہیں جن میں سکیورٹی فورسز اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایک طرف خیبر پختونخوا میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) مسلح کارروائیاں کررہی ہے تو دوسری طرف بلوچستان میں شرپسند عناصر ملک دشمنوں کے آلہ کار کے طور پر اپنی ہی محافظ سکیورٹی فورسز اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنارہے ہیں اور متذکرہ واقعات کے بعد کوئی ابہام باقی نہیں رہتا کہ تخریب کاروں کا بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانے کا مقصد خوف و ہراس اور بدامنی پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں اور انہیں اِس کام کے لیے دشمنوں کی مکمل مدد حاصل ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والے اِن کارروائیوں کے تانے بانے پڑوسی ملک بھارت سے ملتے ہیں اور بلاشبہ دہشت گردی کی تمام تر کارروائیوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت بارہا اقوام عالم کو پیش کیے جاچکے ہیں۔ بلوچستان سے بھارتی فوج کے حاضر سروس آفیسر کلبھوشن یادوکی گرفتاری اور اس کے نیٹ ورک کی تفصیلات منظر عام پر آنے کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ بھارت کو عالمی عدالت کے کٹہرے میں بطورمجرم کھڑا کیا جائے کیونکہ ایک طرف بھارت بلوچستان میں بدامنی پیدا کرنے کے لیے دہشت گردوں کو ہر طرح کی سہولت فراہم کررہا ہے تو دوسری طرف وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو بھی ہر طرح سے معاونت کررہا ہے۔پس بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے دونوں نیٹ ورک بھارت کے مالی تعاون اور مکمل معاونت کے ذریعے چلائے جارہے ہیں مگر پھر بھی بھارت ابھی تک عالمی برادری کی پکڑ سے باہر ہے اور اس کی وجہ سمجھنے سے کوئی بھی قاصر نہیں کیونکہ بھارت اِس خطے میں ایک طرف بعض طاقتوں کے ایما پر اُن کے مفادات کی لڑائی لڑ رہا ہے تو دوسری طرف اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو تقویت دینے کے لیے ہر موقعے سے فائدہ اٹھارہا ہے، امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کے دوران افغانستان میں بھارت کے درجنوں قونصل خانے دہشت گردی کے مراکز بنے ہوئے تھے جہاں دہشت گردوں کی عالمی تنظیموں کو منظم کرکے پاکستان کے خلاف بھرپور وسائل دے کر استعمال کیا جارہا تھا جبھی ہم بیس سال تک دہشت گردی کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ لڑتے رہے اور بالآخر اسی ہزار شہدا کی قربانیوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں نصرت عطا فرمائی۔ بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا واحد مقصد پاکستان دشمن طاقتوں کے ایجنڈے کی تکمیل ہے جو پاکستان کو خدانخواستہ کمزور دیکھنا چاہتے ہیں اور افسوسناک امر یہ ہے کہ یہاں کے بعض مقامی افراد دشمن کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی ہی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنارہے ہیں لہٰذا اب یہ جواز قابل قبول نہیں کہ بلوچستان محرومیوں کا شکار ہے بلکہ ہر صوبہ اپنے وسائل سے بلوچستان کو کچھ نہ کچھ حصہ ضرور فراہم کررہا ہے، بلوچستان میں بدامنی کی وجوہات سامنے آنے کے بعد ہر منتخب حکومت ہی نہیں بلکہ تمام ادارے بلوچستان کو خصوصی ترجیح دے رہے ہیں تاکہ اِس تاثر کو زائل کیا جاسکے جس کےذریعے لوگوں کو ’’محرومیوں‘‘ کے نام پر گمراہ کرکے ملک دشمنوں کا آلہ کار بنایا جارہا ہے، بہرکیف ایک طرف بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو دہشت گردوںنے اپنے نشانے پر لے رکھا ہے تو دوسری طرف اِس خطرناک صورتحال میں بھی ہمارا سیاسی عدم استحکام وہیں کا وہیں ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں فوری عام انتخابات کے لیے سیاسی محاذ گرم ہے اور بہرصورت کوئی بھی فریق اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ لہٰذا افہام و تفہیم اور دور اندیشی کے ساتھ دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا دہشت گردی کے حالیہ واقعات اور دہشت گردوں کے انتباہ کے بعد ہم انتخابات کے انعقاد کا رسک لے سکتے ہیں جبکہ خود اہم سیاسی شخصیات کو جان کے خطرات لاحق ہیں۔ دہشت گردی، معیشت ، سیاسی عدم استحکام اور انتخابات میں کونسا معاملہ ترجیحات میں اول اور کونسا آخر ہونا چاہیے ، آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں، ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button