CM RizwanColumn

نئی سیاسی پالیسی کی ضرورت .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی عدالت نے ریمارکس میں کہا ہے کہ نام انصاف پر رکھا ہوا ہے اور عدالت میں زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اسدعمر اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کرنے پر درج کیس کی سماعت کے دوران جج راجہ ناصر عباس نے جوڈیشل کمپلیکس میں عمران خان کی گزشتہ پیشی پر ہنگامہ آرائی پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس دن آئے تھے اور اپنے ساتھ اڑھائی ہزار بندہ بھی کمرہ عدالت میں لے آئے۔ جج نے مزید کہا کہ برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں اور خود عدالت کا احترام نہیں کرتے، اپنے ساتھ غنڈے اور بدمعاش بھی کمرہ عدالت میں لاتے ہیں۔ میرے پاس اس معاملے کی تمام سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے۔ فاضل جج نے ریمارکس میں کہا کہ ایک سال کی پیشی پر آئے تھے اور اپنے ساتھ دو سال کی مزید پیشیاں لے کر چلے گئے، اب ایک سال مزید مجھے عدالتی سماعتوں میں مصروف رکھیں گے۔
یادرہے کہ یہ الفاظ اس مقبول ترین لیڈر اور اس کی سیاسی جماعت کے متعلق ایک عدالت کے ہیں جو سیاسی جماعت محض اس بناء پر میدان میں آئی اور مقبول ہوئی کہ اس سے قبل تین چار دہائیوں تک ملک کے اقتدار پر حاکم رہنے والی سیاسی جماعتوں کی سیاسی، پارلیمانی، اخلاقی، جمہوری اور عوامی اخلاقیات میں بقول ان کے، کمی، کوتاہی اور غفلت موجود تھی اور یہاں تک کہ وہ لوٹ مار کر کے کثیر ملکی سرمایہ بیرون ملک منتقل کر چکی تھیں۔ تب عمران خان نے قوم کو امید دلائی تھی کہ وہ ملک میں قانون کی بالادستی کو فروغ دیں گے اور ہر بااثر شخص قانون کے اسی طرح تابع ہوگا جس طرح کہ کوئی عام غریب پاکستانی۔ مگر آج عمران خان کی جانب سے عدالتوں پر تنقید اور دباؤ کا یہ عالم ہے کہ ایک معزز جج یہ ریمارکس دینے پر آ گیا ہے۔ ایک طرف یہ سراسر غیر جمہوری روایت ہے جو اس نسبتاً اچھی سیاسی جماعت نے قائم کی ہے اور دوسری جانب پی ٹی آئی کی سب سے زیادہ تکلیف دہ روایت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ان کے خوف سے ان کے مخالفین کی شلواریں گیلی ہو جاتی ہیں اور یہاں تک کہ آصف زرداری ان کی بندوق کی شست پر ہے۔ القصہ ہر الزام ہر دھمکی اور ہر گالی اپنے مخالفین کو عمران خان نے دی ہے۔ مختلف اہل الرائے اور اینکر پرسنز کی جانب سے 2018 کے انتخابات سے قبل اور بعد ازاں ان کی ساڑھے تین سالہ حکمرانی کے دور میں کئی درجن مرتبہ عمران خان اور ان کی مرکزی قیادت کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ مخالف سیاسی جماعتوں پر اخلاقی الزامات اور ان کے رہنماؤں کے خلاف بد تہذیبی اچھا شیوا نہیں مگر فردوس عاشق اعوان اور شہباز گل جیسی شخصیات کی اس سیاسی جماعت میں بھرتی ہی اسی مقصد کے تحت کی گئی کہ وہ صبح شام مخالفین کو گالیاں دیں۔ 2017 کے دھرنے کے دوران سیاسی اخلاقیات کی پاسداری کی تلقین اس لیے کی جاتی تھی کہ اگر پارٹی نے مستقبل میں حکومت بنائی تو وہ مخلوط حکومت ہوگی جس سے پارٹی کو ہزیمت اٹھانا پڑے گی۔ مگر عمران خان سمیت پارٹی کے رہنماؤں کو یہ بات کبھی نہ بھائی، اس لیے کہ ان کی تمام سیاست کا محور یہی ہے کہ باقی سب برے ہیں صرف ہم اچھے ہیں۔ اس رویے کو انگریزی اصطلاح میں God Complex کہتے ہیں۔ اس وہم کا شکار آدمی یا گروہ سمجھتا ہے کہ صرف وہ اچھے ہیں جبکہ باقی سب لوگ برے ہیں اور یہ بھی کہ صرف ان کے پاس مسائل کا حل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو برائیاں پی پی پی اور مسلم لیگ نون میں ہیں وہی برائیاں پی ٹی آئی میں بھی موجود ہیں، یعنی ان سب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ غرور اور رعونت ہی آج عمران خان اور ان کی پارٹی کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ بن کر سامنے آئی ہے۔ پھر یہ بھی کہ دوسروں کو محض اخلاقی الزامات دینے والے قائد کے خلاف اب اخلاقیات کی بنیاد پر کیس دائر کر دیا گیا ہے اور سوال کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی مبینہ بیٹی کے بارے میں بتائیں کہ وہ ان کی بیٹی ہے یا نہیں اور اگر ہے تو انہوں نے اپنے انتخابی گوشواروں میں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا اور اگر نہیں تو جو انہوں نے اس مبینہ بیٹی کی پرورشِ کے لیے اس کی خالہ کو اتھارٹی اپنے دستخط سے جاری کی ہے اس کی کیا حیثیت ہے۔ دوسری جانب ملک آج جس بحران سے دوچار ہے آج اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ایک نئی جمہوری و سیاسی نظام کے خدوخال ترتیب دیں۔یہ بھی تسلیم شدہ ہے کہ ہماری پرانی سیاسی جماعتوں خاص طور پر پی پی پی اور مسلم لیگ نون نے اس قوم کو بہت مایوس کیا ہے اور ہمارے بہت سے مسائل کی وجہ انہی دونوں پارٹیوں کے ماضی اور حال کے غلط سیاسی فیصلے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ صرف ان پارٹیوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے شرط رکھی جانی چاہیے کہ وہ سیاسی مذاکرات قابل قبول نہیں ہوں گے جس میز پر سب موجود نہ ہوں۔ اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ پرانی سیاسی پارٹیوں کو پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے۔ ان تمام لوگوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان لوگوں کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا اور نواز شریف، زرداری، مولانا، اے این پی کے رہنماؤں، ایم کیو ایم کے سینئرز، بلوچستان کے تمام پرانے سیاسی قائدین مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کریں کہ آخر موجودہ اندرونی اور بیرونی حالات میں ملک وقوم کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے اور عام پاکستانی کا بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اصلاحی مشاورت لوگوں کو جوڑتی ہے توڑتی نہیں۔ اس بات کا بھی یقین ہے کہ تمام پارٹیوں کے ارکان اورووٹرز اس ملک کو سدھارنا چاہتے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ جب مذاکراتی میز پر بیٹھیں گے تو تمام سیاسی مسائل پر اتفاق رائے پیدا ہو گا۔ دوسری بات یہ کہ ماضی میں پارٹی سربراہان خاص طور پر نواز شریف، شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری اپنی ذات سے اوپر نہ اٹھ سکے اور اپنی پارٹیوں کو خاندانی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ اس کے باوجود ان پارٹیوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو جمہوری رویہ رکھتے ہیں، جنہیں سیاست کا کئی دہائیوں کا تجربہ ہے۔ نئی سیاسی پالیسی کی تشکیل میں ان کے تجربے سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ ہمیں دوسرے ملکوں کے تجربات سے بھی سیکھنا ہوگا۔ نیلسن منڈیلا پر جن لوگوں نے ظلم کیے اس نے بعد ازاں انہی کے ساتھ بیٹھ کر ایک نئی جمہوریہ قائم کی۔ ابراہم لنکن نے جن لوگوں کو خانہ جنگی میں شکست دی تھی اس نے انہیں ہی عام معافی دی تھی اور دوبارہ معاشرے کا حصہ بنایا۔ بسمارک نے ایک کوشش یہی کی تھی کہ جرمنی میں جو دراڑیں تھیں انہیں بھرا جائے لیکن جہاں تک اب تک کے مشاہدے اور تجربے کی صورت حال ہے خدشہ یہی ہے کہ عمران خان کبھی بھی دیگر ملکی سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے کے لیے تیار نہ ہوگا۔ کیونکہ عمران خان ایک اصلاحی سیاست دان نہیں۔ وہ ہر وقت لوگوں کو توڑنے میں لگے رہتے ہیں اور دوسروں کو اپنے آپ سے کم تر سمجھتے ہیں۔یہاں تک کہ جن لوگوں نے دوسرے پارٹیوں کو ووٹ دیئے عمران خان کا بس چلے تو وہ انہیں ملک بدر کر دیں۔ یہ رویہ نہ تو ملک کو کوئی فائدہ دے سکتا ہے اور نہ اس سے ترقی ہو سکتی ہے۔ اس وقت بنائی جانے والی کوئی بھی مجموعی پالیسی کامیاب ہی اُس وقت ہوگی جب سب مل کر اس ملک کو ایک نئے سرے سے تعمیر کریں گے کیونکہ کوئی بھی شخص صرف اس بات کی ضمانت تو دے سکتا ہے کہ وہ خود یا اس کی پارٹی ایمان دار ہو، مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی یہ دعویٰ کرے کہ وہ دوسروں کو بزور طاقت پارسائی سکھائے گا جبکہ وہ خود انہی برائیوں میں ملوث ہو۔ عمران خان کی آج یہی کیفیت ہے اور ملک کے اس وقت کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی انحطاط کی یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے یہ سوچ مضبوط کر دی ہے کسی بھی دوسرے کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے، جبکہ نئے نظام میں ہمیں لوگوں کو یہ موقع دینا ہوگا کہ وہ بذات خود اور بغیر کسی دباؤ کے اس بات کو مانیں کہ ایمان داری، ذمہ داری اور خلوص کے ساتھ اس ملک کی تعمیر میں ہم سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button