ColumnJabaar Ch

جیلیں بھرنے کا آسان نسخہ .. جبار چودھری

 

جبار چودھری

عمران خان صاحب اس وقت پاکستان کی سیاست اور توجہ کا مکمل گھنٹہ گھر بنے ہوئے ہیں۔سیاست کا اچھا براجو بھی ہے وہ عمران خان صاحب کے گرد ہی طواف کررہاہے ۔پی ٹی آئی کے کارکن بھی انہی کے گرد چکرکاٹ کررہے ہیں اور پی ڈی ایم سرکار بھی صبح سے شام تک انہی کے گرد طواف کناں ہے۔وہ عمل کرتے ہیں اور باقی سب رد عمل میں مصروف رہتے ہیں۔عمران خان صاحب ایک کے بعد ایک آئٹم مارکیٹ میں پھینکتے ہیں اور باقی سب اس پر بحث و تکرار میں جُھٹ جاتے ہیں۔عمران خان صاحب اپنی ہر چال کو ٹرمپ کارڈ کہتے ہیں ۔ لیکن اب تک ان کا کوئی بھی ٹرمپ کارڈ انہیں منزل مقصود تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہواہے۔بات سازشی بیانیے سے شروع ہوکرناکام لانگ مارچ ،استعفوں اورصوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے ہوتی ہوئی اب جیل بھروتحریک تک پہنچ گئی ہے۔عمران خان صاحب کی اچھی یا بری بات یہ ہے کہ وہ پہلے اعلان کرتے ہیں اورسوچتے بعد میں ہیں۔وہ اعلان کرنے کے بعد سب کو مشاورت کے لیے بلاتے ہیں اورپھر کہتے ہیں کہ ہوگا تویہی جو میں کہہ چکا ہوں باقی آپ بتادیں کہ کرنا کیسے ہے۔
قومی اسمبلی سے استعفے دینے اوراپنی حکومتیں تحلیل کرنے کے جذباتی فیصلے اس کی بہترین مثالیںہیں ۔انہوںنے دس ماہ میں جوبھی اب تک کیا ہے ان کا مقصدقبل ازوقت الیکشن کروانا اور اقتدارکی کرسی دوبارہ اپنے نیچے لانا تھا لیکن اس وقت ان کے پاس الیکشن کے سواباقی سب کچھ ہے ۔جیل بھروتحریک کا اعلان انہوںنے کافی دیر پہلے کردیا تھا لیکن تاریخ کے لیے موسم سازگار نہیں تھا جواب کہا جارہا ہے کہ سازگار ہوگیا ہے ۔اس میں بھی ایک سازشی کہانی ہے ۔سازشی کہانی یہ ہے کہ پنجاب میں نگران حکومت بننے کے بعد پورے صوبے میں انتظامی مشینری کی اکھاڑپچھاڑکے بعد نگران وزیراعلیٰ نے پولیس سے لے کر پٹواری تک پورا سسٹم اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔اس سازشی کہانی کا مرکزی کردار سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر صاحب کو کہاجارہا ہے۔سی سی پی اوکو ہٹانے کے لیے وفاقی اور پنجاب حکومت نے اپنا پورازورلگالیا ۔لاہور ہائی کورٹ نے بھی ان کو ہٹانے کا فیصلہ برقراررکھا لیکن سپریم کورٹ نے انہیں عہدے پر بحال کردیا ۔جس دن سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا اسی دن خان صاحب نے جیل بھروتحریک کے آغازکی تاریخ کا اعلان کردیا۔اس پورے کام کا چودھری پرویز الٰہی کی مبینہ لیک آڈیوسے بھی کوئی تعلق بنتا ہے یا نہیں اس کی تفتیش شروع ہوچکی ہے۔اس مبینہ آڈیومیں چودھری صاحب مخصوص بینچ میں کیس لگوانے کی گفتگوکررہے ہیں ۔اسی بینچ میں غلام محمودڈوگر کا کیس لگا اور پھر فیصلہ بھی ڈوگر صاحب کے حق میں آگیااور جیل بھروتحریک کا اعلان بھی لاہور سے ہوگیا۔ہفتے کے روزسامنے آنے والی یاسمین راشد صاحبہ اور غلام محمود ڈوگر کی آڈیولیک اس سازشی کہانی میں حقیقت کا رنگ بھررہی ہے۔
عمران خان صاحب نے بدھ سے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا ہے۔ان کی اپنی گرفتاری کا کیا ہوگا یہ اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔ویسے لگتا تو نہیں کہ وہ بھی کسی جیل جانے کو تیار ہوں گے کیونکہ جتنا زور انہوں نے جیل سے بھاگنے کے لیے لگادیا ہے اورضمانت پر ضمانت لیے جارہے ہیں اس سے تو لگتا ہے جیلیں صرف کارکنوں سے ہی بھری جائیں گی۔احتجاجی تحریکیں چلانا آئین کے مطابق ہر سیاسی جماعت کا حق ہے اور خان صاحب کو اس حق کے استعمال سے بالکل بھی روکا نہیں جانا چاہیے۔
میرے خیال میں تو پی ٹی آئی کے کارکنوں کو جیلوں میں بھیجنے کے لیے جتنی آسانیاں پیداکی جائیں کم ہیں۔اس حوالے سے میری چند تجاویز ہیں ۔صوبے کے نگران وزیراعلیٰ جناب محسن نقوی کو چاہیے کہ وہ سامنے آئیں اورایک پریس کانفرنس میں جس میں جیل بھرنے کے لیے باقاعدہ ایک روڈ میپ کااعلان کریں ۔حکومت کو اس معاملے میں باقاعدہ سہولت کاری کرنی چاہیے ۔پاکستان کی جیلیں پہلے ہی ”اوورکراو¿ڈڈ“ ہیں یعنی وہاں جگہ کم اور ملزم زیادہ ہیں۔اس کے علاوہ تھانوں میں توویسے ہی حوالات اتنی چھوٹی ہے کہ معمول کے چوراچکے ہی بڑی مشکل سے پورے آتے ہیں اس لیے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اس طرف لانے سے مشکلات پیدا ہوں گی اس کام کے لیے ایک متبادل بندوبست کی ضرورت ہے ۔
محسن نقوی صاحب کو چاہیے کہ وہ لاہورکی مختلف کی جگہوں پر شادی ہال کرائے پر لے لیں۔شادی ہالز میں بھی ”مارکی “والا سسٹم زیادہ بہتررہے گا کیونکہ موسم بھی اب زیادہ شدید نہیں رہا لیکن تھوڑی سردی ہوبھی جائے تو جیل والی ”فیلنگ“آنا بھی ضروری ہے۔ان شادی ہالزکو ایک ماہ کے لیے کرائے پر لے کر ان کو باقاعدہ جیلیں قراردیدیا جائے اوران عارضی جیلوں پرپنجاب کے جیل خانہ محکمے سے چن چن کر ایسے راشی افسران کو تعینات کیا جائے جو رشوت کھانے کے ریکارڈ یافتہ ہوں تاکہ جیلیں بھرنے والوں سے ملاقات کے لیے آنے والوں کو انہی رشوت خورمراحل سے گزرنا پڑے جن سے جیل میں اپنے ملزموں سے ملنے کے لیے ایک عام آدمی کو گزرنا پڑتا ہے۔جو لوگ کبھی ملاقات کے لیے جیل گئے ہوں ان کو معلوم ہے کہ کس طرح کہاں کہاں رشوت دے کر اندرجانا پڑتا ہے۔
اس کے بعد حکومت کو ان عارضی جیلوں کے قوانین اور ایس او پیز بنانے چاہئیں۔حکومت اعلان کرے کہ جس نے بھی جیل بھرنی ہے وہ ان مخصوص جگہوں پر جائیں ۔قطار بنائیں اور اپنی رجسٹریشن کروائیں ۔انپا بائیوڈیٹا۔کام کاج کی تفصیل درج کروائیں اور ایک حلف نامہ دیں کہ وہ کم از کم ایک ماہ اس جیل میں قید رہنے کے لیے آرہے ہیں ۔اس سے پہلے گھر جانے کی ضد نہیں کریں گے۔بدھ کی صبح اہلکار ان جیلوں کے باہر موجود ہوں اور اعلان کردیا جائے کہ ہر آنے والا موسم کے مطابق اپنا بوریابستراساتھ لے کر آئے۔جیل میں آنے والوں کو فون ساتھ لانے کی اجازت نہیں ہوگی۔مزیدسہولت دیتے ہوئے ایک وقت کا کھانا گھر سے منگوانے کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔باقی کھانے کے لیے پاکستان کی جیلوں میں موجود” مینو“جیل کے گیٹ پر ہی آویزاں کردیا جائے ۔یعنی جو بھی جیل میں قید مجرم کھاتے ہیں وہی کھانا ان جیل بھرو والوں کو دیا جائے۔حکومت ان جیلوں میں نیچے چٹائیاں خود بچھوادے اور بستر آنے والا ساتھ لے آئے۔جو بھی جیل میں داخل ہواس کا باہر کی دنیا سے رابطہ مکمل کاٹ دیا جائے ۔وہ پیغا م رسانی کے لیے ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں کو رشوت دے کر اپنا پیغام باہر پہنچالیں اگر سودابن جائے تو۔سگریٹ وغیرہ اگر کوئی پینا چاہے تو اسی مشکل ترین مرحلے سے اس کوگزاراجائے جس طرح جیل کے دوسرے قیدی گزرتے ہیں۔ہاں جیل کے ساتھ ایک ڈسپنسری بھی بنادی جائے تاکہ کسی کی صحت بگڑے تو دوائی موجود ہو۔
ان سیاسی اور فرمائشی قیدیوں پرتشدد کا راستہ بالکل نہ اپنا یا جائے ۔ایک مارکی میں کم از کم پانچ سولوگوں کو بندکیا جاسکتا ہے۔اگر تعداد زیادہ ہوتو مزید اسی طرح کا بندوبست ساتھ ساتھ کیا جائے۔مجھے پکا یقین ہے کہ اس طرح کا بندوبست دیکھتے ہوئے لاہور کے بعدمزید کسی اور شہر میں جیل بھرنے کی نوبت نہیں آئے گی ۔اگر آئے بھی تو دوسرے شہروں میں بھی اسی طرح کا بندوبست کردیا جائے۔ایک بات کا خیال رکھا جائے کہ اس طرح کی عارضی جیلوں میں بی یا سی کلاس بالکل نہ رکھی جائے ۔سب ایک ہی کلاس انجوائے کریں۔قائدین بھی کارکنوں کے ساتھ انہیں جیلوں میں بندہوں۔موبائل اورانٹرنیٹ کے بغیر زندگی گزاریں۔ نہ پریس کانفرنس نہ جلسے میں تقریریں۔
اب رہی بات خان صاحب کی کہ ان کو کس جیل میں رکھا جائے تو اس بارے ہونا تو یہی چاہیے کہ وہ بھی اسی طرح کی ایک مارکی جیل میں گرفتاری دیں لیکن وہ چونکہ بیمارہیںاور بزرگ بھی ہوگئے ہیں تو ان کے لیے بھی ایک رعایتی تجویز موجود ہے۔خان صاحب کے گھر زما ن پارک کوہی جیل کا درجہ دے دیا جائے ۔اس جیل میں کوٹ لکھپت یا اڈیالہ جیل کے وہی اہلکار لائے جائیں جو میاں نوازشریف کی جیل ڈیوٹی پر لگائے گئے تھے۔ہاں کھانے پینے کا حساب بھلے یہاں بھی شہبازگل صاحب کے ہی حوالے کردیا جائے کیونکہ ان کے پاس میاں نوازشریف کی بوٹیاں گننے کا تجربہ پہلے ہی ہے۔زمان پارک کوجیل ڈکلیئرکرکے وہاں پنجاب پولیس کے جیل اہلکار تعینات رکھے جائیں ۔ملاقاتوں پر مکمل پابندی ہو۔اورزمان پارک میں موجود ویڈیو لنک اتاردیا جائے ۔فون کی سہولت واپس لے لی جائے اورکھانا بھی جیل مینول کے مطابق خان صاحب کو فراہم کیا جائے۔اس جیل بھروبندوبست کے ساتھ اگر خان صاحب اور پی ٹی آئی کارکن مہینہ گزارجاتے ہیں تو پھر اس حکومت کو چاہیے کہ چُپ کرکے شرمندہ ہوئے بغیر اسمبلی توڑ کر الیکشن کا اعلان کردے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button