ColumnM Anwar Griwal

دِل کھول کر ۔۔! محمدانورگریوال

 

محمدانورگریوال

حُکم ہوا ہے کہ ”دِل کھول کر عطیات دیجیے“۔ یہ فرمان برادر اسلامی ممالک تُرکیہ اور شام میں تباہ کُن زلزلہ کے پس منظر میں جاری کیا گیا ہے۔ خود حاکمینِ وقت نے عطیات دیئے ہیں یا نہیں، اِس کی خبر نہیں، تاہم وفاقی وزیر تعلیم کو سابق ’خادمِ اعلی‘ (موجودہ دور کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے لیے کوئی خاص لقب اختیار نہیں کیا) نے فرمان جاری کیا ہے کہ پورے پاکستان میں سکولوں کے تمام طالب علموں سے مبلغ دس روپے لے کر وزیراعظم کے ریلیف فنڈ میں جمع کروائے جائیں۔ حکمِ حاکم میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ کالج وغیرہ کے طالب علموں سے دس روپے سے زیادہ بھی وصول کئے جا سکتے ہیں۔ محکمہ تعلیم نے لٹھ اٹھا کر تمام سکولوں کے بچوں سے دَس دَس روپے وصول کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ حکم نجی تعلیمی اداروں کے لیے بھی ہے ، کہا گیا ہے کہ ہر سکول کا پرنسپل بچوں کی تعداد کے مطابق پیسے بینک جمع کروا کے رسید کی کاپی محکمہ تعلیم کے فلاںیا فلاں افسر کو وٹس ایپ کر ے۔ نہیں معلوم پیسے بچوں نے دینے ہیں یا پرنسپل نے؟
دل کھولنے کی کہانی بھی عجیب ہے۔ عام آدمی کے دل کی بات کوئی سنتا نہیں، کیونکہ حکمران، مقتدر طبقے اور اختیارات کے مالک کسی اور ہی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، اُن کی آمدنی اتنی زیادہ اور اتنی محفوظ ہے کہ انہیں عام آدمی کے مسائل کا ادراک ہو ہی نہیں سکتا۔ وفاقی کابینہ میں گزشتہ دنوں ہی نئے مشیر بھرتی کئے گئے، خوش کن اطلاع دی گئی کہ تنخواہ کے بغیر کام کریں گے، کابینہ کی تعداد میں اضافہ کا صدمہ اس خبر نے کم کر دیا، مگر حقیقت کیا ہے؟ کیا پوری کابینہ میں کوئی فرد ایسا بھی ہے جس کا حکومتی مراعات کے بغیر گزارہ مشکل ہو؟ جو صرف وزیر یا مشیر وغیرہ کی تنخواہ پر ہی گزر بسر کرتا ہو؟ ممکن ہی نہیں، کابینہ کا ہر فرد اگر بہت غریب بھی ہے تو کم از کم کروڑ پتی ہے۔ جب ملک کی معیشت خطرے میں ہے، بحران خطرناک سرحد عبور کر رہا ہے، ایسے میں کابینہ کی معاشی قربانی کا وقت نہیں آیا؟
پٹرول کی قیمت پر نگاہ ڈالی جائے اور عام آدمی کے ساتھ حکومتی عہدیداروں کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا، کہ وسائل کو نہایت بے دردی اور بے حسی سے لوٹا جارہا ہے۔ اگر حکمرانوں ، انتظامیہ یا فوج وغیرہ میں کسی کو بھی ملک کا خیال ہو تو وہ تمام اضافی مراعات سے دستبردار ہو جائیں، اِ ن لوگوں کو تو قومی خزانے سے اس قدر تنخواہ وغیرہ مل جاتی ہے کہ بہت آسانی سے گزارہ چل سکتا ہے، ان کی گاڑیاں سرکاری، سیکڑوں لیٹر پٹرول سرکاری، گارڈ، بجلی، فون، علاج معالجہ اور بھی نہ جانے کیا کیا کچھ مفت دستیاب ہے۔ رہا عام آدمی تو وہ چند ہزار کی آمدنی میں سے ہی پٹرول خریدے، اسی میں اپنے تمام تر مسائل حل کروائے گا۔ جس کے پاس بہت کچھ ہے، اس کو اور بھی بہت کچھ دیا جا رہا ہے۔ جن کے پاس کچھ نہیں ہے ، انہیں مزید نچوڑا جا رہا ہے۔
سُنا تھا کہ ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، شاید اس کے مٹنے کا وقت آنے کو ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کو جینا دوبھر کر دیا ہے، ضرورت کی چند چیزیں خریدنے کی بھی سکت ختم ہو تی جارہی ہے۔ اپنی عیاشیوں میں کمی کا کوئی شیڈول دکھائی نہیں دیتا، ٹیکسوں کے نئے بم گرائے جارہے ہیں ، کوئی چیز کسی کے قابو میں نہیں، حکومت کی کہیں رِٹ دکھائی نہیں دیتی۔ آئی ایم ایف کے قرض لینے کے لیے ہر قسم کی شرائط تسلیم کی جارہی ہیں۔ اس منطق کی ہمیں تو سمجھ نہیں آسکی کہ آئی ایم ایف صرف غریبوں یا عام آدمی پر ہی ٹیکس کیوں لگاتا ہے؟ وہ یہ کیوں نہیں کہتا کہ جب تک معاشی بحران ہے تمام حکمران طبقہ ، بیوروکریسی ، ججز اور فوجی افسران اپنی سرکاری گاڑیوں میں پٹرول اپنی تنخواہ سے ڈلوائیں، جب تک حالات ٹھیک نہیں ہو جاتے کابینہ کی تعداد محدود کی جائے، اضافی مراعات واپس لی جائیں، پروٹوکول کی مد میں گاڑیوں کی قطاروں میں کمی کی جائے؟ قرض حکمران لیتے ہیں اور واپسی کے لیے عوام کی رگوں سے خون نچوڑا جاتا ہے۔
اِس خبر پر یقین نہیں آرہا، یہ خبر عام ہوئی ہے کہ ترکیہ والوں نے جب برادر ملک پاکستان سے مدد کے لیے جانے والا سامان کھولا تو وہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ تو وہی پیکنگ ہے جو گزشتہ برس پاکستان میں سیلاب زدگان کے لیے جو امداد ترکیہ نے پاکستان کو بھیجی تھی۔ وجہ یہ نہیں کہ پاکستان نے وہی امداد واپس کر دی۔ یقین نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی ملک امداد دے اور سامان تقسیم کرنے والے ادارے تقسیم کم اور زیادہ غبن نہ کریں۔ اپنے ہاں تو یہ ہوتا ہے کہ اچھی اچھی چیزیں بڑے بڑے گھروں میں چلی جاتی ہیں، ضرورت مندوں کا حق کھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی، نہ شرم محسوس کی جاتی ہے۔ لوٹ کھسوٹ کی روایت اس قدر پختہ ہو چکی ہے کہ امداد کی چیزیں بازاروں میں فروخت ہوتی پائی جاتی ہیں، ہماری تمام حکومتیں اس عمل میں شامل ہیں۔ جو لوگ امداد کا مال فروخت کرنے سے نہیں کتراتے اور مستحق کا مال گھر لے جانے سے نہیں شرماتے ۔ وہاں چھ مہینے تک سامان بچ کیسے سکتا ہے؟ لٹیروں ، فراڈیوں اور استحصال کرنے والے مقتدر طبقوں سے سامان کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ اگر ابھی تک وہ سامان پڑا تھا تو بھی حیرت کی بات ہے۔
غریب کا دل کھول کر دیکھیں تو بے چارگی، بے بسی اور ویرانی ملے گی، وہ عطیات کیا دیں گے کہ جن سے جینے کا حق بھی حکمرانوں نے چھین لیا ہے۔ جس کی دال سبزی پوری نہیں ہوتی ، وہ مدد کرے اور جو قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ اور زبان سے چاٹ رہے ہیں، وہ اپناکام کرتے جائیں۔ دوسری طرف حکمران اور مقتدر طبقے کا دل کھول کر دیکھیں تو حرص، لالچ، تنگی، ذخیرہ اندوزی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔آپ نے یاد دلایا تو یاد آیا، کہ بڑی توندوں والے حکمران ہڈیوں کے ڈھانچے بنے عوام سے خون کے آخری قطرے کا بھی مطالبہ کررہے ہیں۔ وہی بات کہ ظلم حد سے بڑھ رہا ہے، یعنی کہ ظلم کے مٹنے پر آگیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button