Editorial

صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر ؟

 

پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے لیے وزارت دفاع، وزارت خزانہ اور عدلیہ نے معاونت سے معذرت کر لی ہے۔ وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ فوج اندرونی سکیورٹی میں مصروف ہے، الیکشن اہلکار نہیں دے سکتے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ معاشی بحران اور خسارے کا سامنا ہے، اضافی ضمنی گرانٹ کا مطالبہ موخر کیا جائے جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے الیکشن کمیشن کو خط میں بتایا ہے کہ پنجاب میں سوا 13 لاکھ سے زائد کیسز زیرالتوا ہیں، عدالتی افسران کی فراہمی سےمقدمات کا التوا مزید بڑھ جائے گا۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی زیر سربراہی ہونے والے اجلاس میں آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نےموقف اختیار کیا ہے کہ انتخابات کے دوران دہشت گردی کا خطرہ ہے، صوبے میں جاری آپریشن مکمل ہونے تک تعاون مشکل ہے،اسی اجلاس میں چیف سیکرٹری پنجاب بتایا ہے کہ انتخابات کے دوران ماہ رمضان آرہا ہے جس میں انتظامی افسران کو پرائس کنٹرول اور مسجدوں میں نمازیوں کے لیے سکیورٹی پر تعینات ہوتے ہیں اس لیے انتخابات کے لیے سیکورٹی فراہم کرنا مشکل ہوگی، پنجاب کی دونوں اہم شخصیات کا موقف جاننے کے بعد الیکشن کمیشن نے ازخود فیصلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات کے لیے ایک ہی دن میں تیسری پیش رفت صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو لکھے گئے خط کو قرار دیاجاسکتا ہے۔ صدر مملکت نے خط میں چیف الیکشن کمشنر سے کہا ہے کہ وہ الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کریں۔پنجاب اورخیبر پختونخوا کے صوبائی انتخابات کے ساتھ ساتھ مستقبل کے عام انتخابات کے حوالے سے خطرناک قیاس آرائیوں پر مبنی پراپیگنڈے کو ختم کرنے کے لیے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابی شیڈول جاری کرنا ضروری ہے،کیوں کہ ملک میں ایسے حالات نہیں ہیں جو انتخابات میں تاخیر یا التوا کا کوئی جواز فراہم کرتے ہوںاور حالیہ عالمی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ آئینی طور پر طے شدہ انتخابات کے التوا نے جمہوریت کو طویل مدتی نقصان پہنچایا ہے ۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے پاکستان تحریک انصاف کے 43ارکان اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا الیکشن کمیشن کاحکم معطل کرتے ہوئے 43 حلقوں میں ضمنی الیکشن تاحکم ثانی روک دیاہے ،عدالت نے الیکشن کمیشن سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیاہے، پی ٹی آئی کے ریاض فتیانہ سمیت 43 ارکان اسمبلی نے سپیکر راجہ پرویز اور الیکشن کمیشن کی جانب سے استعفوں کی منظوری کے اقدام کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ گذشتہ روز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے ملاقات کی ہے اور ذرائع ابلاغ کے مطابق اِس ملاقات میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کا اعلان نہ ہونا زیر بحث آیا ہے۔ پچھلے سال قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں تحریک انصاف اکثریت سے اقلیت میں تبدیل ہوکر اقتدار سے باہر ہوگئی یہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی نے اجتماعی استعفے بھی دے دیئے جنہیں پہلے تو سپیکر قومی اسمبلی نے بارہا مطالبات کے باوجود منظور نہ کیا اور آئینی طریقہ اپنانے پر زوردیا مگر جب حالیہ دنوں میں تحریک انصاف نے ایک بار پھر قومی اسمبلی میں جانے کا فیصلہ کیا تاکہ نگران سیٹ اپ کے لیے حزب اقتدار کے طور پر اپنا آئینی کردار اداکرسکے تو محترم سپیکر قومی اسمبلی نے دھڑا دھڑ استعفوں کی منظوری شروع کردی جس کے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا واضح حکم سامنے آگیا ہے۔ جہاں تک پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے لیے عام انتخابات کے انعقاد کا معاملہ ہے تو یہاں بھی سیاست آڑے آئی، دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی مخالف اتحاد کے گورنرز تھے لہٰذا انہوں نے وزرائے اعلیٰ کی اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق سمریاں وصول تو کرلیں مگر اِن اسمبلیوں کی تحلیل کی منظوری نہ دی کیونکہ دونوں گورنرز تحلیل کی منظوری دیتے تو انہیں ساتھ ہی انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان کرنا پڑتا لہٰذا دونوں گورنرز نے تاحال انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا تو صدر مملکت نے الیکشن کمشنر کو خط کے ذریعے یاد دلایا ہے کہ اسمبلی کی تحلیل سے تین ماہ کے اندر اندر انتخابات کا انعقاد آئینی ضرورت ہے بصورت دیگر الیکشن کمیشن ذمہ دار ہوگا۔ یہاں بتانا ضروری ہے کہ چیف سیکرٹری پنجاب نے جہاں الیکشن کمشنر کے سامنے مسائل کا انبار پیش کیا وہیں قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی روز میں کرانے کی تجویز بھی پیش کی تاکہ انتظامی کاموں کے لیے سرکاری ملازمین و افسران کی کمی کے کم سے کم اثرات ہوں۔ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے تین مختلف ایام میں پی ٹی آئی کے مستعفی اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کیے، جن کی مجموعی تعداد 64بنتی ہے لہٰذا الیکشن کمیشن نے اسی ترتیب سے مارچ کے وسط میں دو تواریخ ضمنی انتخابات کے لیے مقرر کیں مگر جب سپیکر اسمبلی نے تیسری بار استعفے منظور کیے تو لاہور ہائی کورٹ نے 43ارکان کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا الیکشن کمیشن کا حکم معطل کردیا ۔ درحقیقت یہ ضرب بالکل آسان اور سیدھی دو دونی چار والی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات پانچ پانچ سال کے لیے ہوں گے جبکہ سپیکر قومی اسمبلی تحریک انصاف کے جن مستعفی اراکین کے استعفے دھڑا دھڑ منظور کررہے ہیں اُن نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے اور نو منتخب اراکین اسمبلی موجودہ قومی اسمبلی کی تحلیل تک رکن قومی اسمبلی رہیں گے۔ قبل ازیں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے تمام نشستوں پر بطور امیدوار انتخابات میں حصہ لینے اور اتحادی حکومت نے حصہ نہ لینے کا اعلان کیا تھا مگر اب عمران خان کی جگہ اُن حلقوں سے وہی اُن کے امیدوار ہیں جنہوں نے 2018کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور تحریک عدم کی کامیابی کے بعد مستعفی ہوگئے تھے، مگر دوسری جانب پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے بھی اپنے امیدوار ضمنی انتخابات میں اُتار دیئے ہیں۔ اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے شیڈول کے مطابق چاروں صوبوں کے چونسٹھ حلقوں میں اگلے ماہ مارچ میں ضمنی انتخابات ہورہے ہیں مگر پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے پانچ سال کے لیے انتخابات کے معاملے پر یکسر خاموشی ہے۔ گورنرز نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط نہیں کیے لہٰذا وہ انتخابات کے انعقاد کی تاریخ یا اعلان کے پابند نہیں ہیں اِس لیے اب پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کا سارا معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سپرد ہے اور ابھی تک اُدھر سے دونوں صوبوں کے انتخابات کا اعلان نہیں ہوا لہٰذا صدر مملکت نے الیکشن کمشنر آف پاکستان کو اپنے خط میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا حوالہ دیا اور آئین کے آرٹیکل 224(2) میں اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دنوں میں انتخابات کے انعقاد پر زور دیا ۔انہوں نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن ہی ہےجوانتخابات کے حوالے سے اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہنے کی صورت میں ملک کے آئین کی خلاف ورزی کا ذمہ دار اور جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔ بلاشبہ ایک سال سے وطن عزیز سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے اور اب تیسرا مسئلہ سکیورٹی کا سر اُٹھاتا نظر آرہا ہے جس کی واضح مثال پشاور کی پولیس لائن میں خود کش حملہ ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور بظاہر ہم اُن کی ہر شرط ماننے کو راضی ہیں مگر تاحال بات بنتی نظر نہیں آرہی اور معاشی مسائل ایسے ہیں کہ کسی سے بھی سنبھالے نہیں جارہے اور نجانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نئی حکومت کے لیے بھی اِن معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے آسان نہ ہوگا کیونکہ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور بڑے بڑے معاشی سُورما معیشت اور مہنگائی کو قابو کرنے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں، لہٰذا کچھ تو ایسا ہونا چاہیے جو تمام سیاسی فریقین کے لیے قابل قبول ہو اور ہم ایسے ہر نقصان سے محفوظ رہیں جن کا دونوں جانب سے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button