ColumnNasir Naqvi

ایک اور عہد کا خاتمہ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

پاکستان کے سابق سپہ سالار اور زبردستی کے صدر پرویز مشرف طویل علالت کے بعد دنیا سے رخصت ہو گئے اور یوں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک اور عہد کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ عہد مختلف حوالوں سے متنازعہ رہا، انہوںنے 12اکتوبر 1999کو وزیراعظم نواز شریف کی حکومت پر قبضہ کیا تھا لیکن انہوں نے مارشل لاء لگانے کے بعد بھی اپنے لیے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی بجائے چیف ایگزیکٹو کہلانا پسند کیا۔ موصوف نے اپنی آمرانہ کارروائی میں آئین پاکستان کو بالائے طاق رکھ دیا اور نواز شریف طیارہ اغوا کیس میں اٹک جیل پہنچ گئے۔ پرویز مشرف نے جمہوریت کی بساط پلٹ دی۔ ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا۔ اقتدار سنبھالنے پر ان کی پہلی پندرہ منٹ کی تقریر میں قوم سے کالا باغ ڈیم اور مذہبی افراتفری کے خاتمے جیسے وعدے کیے لیکن اپنے آٹھ سالہ آمریت کے د ور میں ماضی کے آمروں کی طرح اپنے وعدوں پر قائم نہ رہ سکے۔ وہ بھی مصلحت پسندی کا شکار ہوئے تاہم قاف لیگ کو کنگ پارٹی بنا کر ظفر اللہ جمالی، چودھری شجاعت حسین اور شوکت عزیز جیسے وزیراعظم بنائے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ بہادر کی چاکری میں ڈالروں کی بارش کے مزے لوٹے۔ ملک کی معاشی حالت میں بھی بہتری دکھائی دی لیکن آئین کی معطلی، لال مسجد آپریشن، سانحہ 12مئی کراچی، آپریشن بلوچستان اکبر بگٹی کا قتل اور دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی حمایت جیسے اقدامات کے ساتھ کارگل جنگ، میڈیا کی بندش اور سپریم کورٹ کے ججز کو قید رکھنا ان کے دور کی سیاہ یادیں ہیں۔ ان کی وفات سے آخری فوجی آمر بھی رخصت ہو گیا،وہ 11 اگست 1943 میں پیدا ہوئے اور 79سال کی عمر میں وطن سے دور دبئی کے امریکن نیشنل ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ جہاں مختلف پیچیدہ بیماریوں کا مقابلہ کرتے کرتے زندگی کی بازی ہار گئے۔ وہ 1999 سے 2008 تک سپہ سالار رہے۔
ان کی تعیناتی اس وقت کے وزیراعظم محمد نواز شریف نے کی تھی لیکن کارگل جنگ پر دونوں میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ نواز شریف نے ان کے دورہ سری لنکا کے موقع پر جنرل ضیاء الدین بٹ کو نیا آرمی چیف نامزد کرنے کے بعد ان کا طیارہ کراچی ایئرپورٹ پر اترنے نہیں دیا۔اور اس کے ردعمل میں وہ زبردستی اقتدار پر قابض ہو گئے۔ جبکہ 2001 میں پاکستان کے 10ویں صدر بنے۔ انہوں نے اپنی حکومت کے استحکام کیلئے ملک کو مقامی حکومتوں کا ایک حیرت انگیز نظام دیا جسے عمر اصغر خاں اور دانیال عزیز کی مشاورت اور رہنمائی سے تیار کیا گیا تھا۔ اور اسی نئے بلدیاتی نظام کے تحت شہر کراچی کو متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت ملی۔ ان کی زندگی میں بہت سے اُتار چڑھائو آئے، ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہو ا لیکن وہ بچ گئے انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو خبردار کیا تھا کہ ان کا پاکستان آنا خطرناک ہو سکتا ہے لیکن جب وہ واپس وطن لوٹیں تو پہلے کارساز کراچی میں بم دھماکہ ہوا اور پھر انہیں لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک جلسہ عام کے بعد خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا تاہم متنازعہ پرویز مشرف کے حامی ان کو چند اقدامات کے باعث پسند بھی کرتے تھے جن میں ان کا نعرہ ’’ سب سے
پہلے پاکستان‘‘ بھی انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کیلئے قدم بڑھانا اور بھارت جا کر تنازعات کے ساتھ کشمیر کیلئے محبت آمیز انداز میں بات چیت کرنا، الیکٹرانک میڈیا کا فروغ ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ اسی لیے مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کا دعویٰ ہے کہ پرویز مشرف کے علاوہ کشمیر کیلئے کسی نے کچھ نہیں کیا ، انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارتی وزیر اعظم واجپائی سے راہ ہموار کر لی تھی لیکن بعدازاں بھارتی حکومت نے تمام اقدامات بدل دئیے، صرف جنگ بندی باقی ہے۔ عسکری حوالے سے بھی وہ ایک کمانڈو کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ خان لیاقت علی خان کے بعد انہیں مکا لہرانے کا اعزاز حاصل رہا۔ 1965 ، 1971 اور کارگل جنگوں کے غازی تھے۔ اس لیے ان کی زندگی کو فوج اور اقتدار دونوں حوالوں سے عروج و زوال کی داستان ہے۔ 1999 میں نواز حکومت کے خاتمے سے 2006 تک شہرت کی بلندیوں پر رہے لیکن پھر روشن خیالی، اعتدال اور مصلحت پسندی جیسے نظریات فوج اور اقتدار سے دوری کا سبب بن گئے۔ ان کازوال چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار احمد چودھری کی برطرفی کے بعد عدلیہ محاذ آرائی سے شروع ہوا۔ پھر فوج اور امریکہ کی حمایت کا خاتمہ، سیاسی میدان میںتنہائی نے اقتدار پر گرفت ختم کر دی تاہم آئین سے غداری کے مقدمے نے انہیں وطن سے جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ پرویز مشرف 2016 میں علاج کی غرض سے متحدہ عرب امارات گئے لیکن بیماری نے انہیں وطن واپس آنے کی مہلت نہیں دی۔ یوں ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔
پاکستان میں سیاسی اور آمرانہ تاریخ میں پرویز مشرف کو اچھے بْرے الفاظ میں ایک عرصہ یاد کیا جائے گا۔ ان کے انتقال پر سابق وزیراعظم عمران خان کے سوا تمام سیاسی اکابرین بشمول نواز شریف تعزیتی بیانات آئے لیکن ایک مطالبہ یہ بھی کیا گیا کہ سابق صدر پر آئین شکنی کے مقدمے میں آرٹیکل 6 کا جرم ثابت ہوا اور پشاور کی خصوصی عدالت کے جسٹس وقار سیٹھ نے نہ صرف سزائے موت سنائی بلکہ انہوں نے یہ فیصلہ بھی دیا کہ اگر مجرم کی موت واقع ہو جائے تو اسے اس سنگین جرم کی پاداش میں بعد از مرگ نہ صرف گھسیٹا جائے بلکہ ڈی چوک میں لٹا کر نشانِ عبرت بنایا جائے۔ تاکہ آئین اور عدلیہ کی بالادستی قائم ہو اور آئندہ کوئی آئین شکنی کی جرأت نہ کرے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا یہ مقدمہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں دائر کیا گیا تھا جو چھ سال چلا اور اسے سات ججز نے سنا اور اس کی 125سماعتیں ہوئیں اور مارچ 2016 کو پرویز مشرف کی غیر موجودگی میں فرد جرم عائد کی گئی۔ عدالت نے متعدد بار انہیں پیش ہونے کا موقع دیا لیکن وہ بیماری کے باعث آ نہیں سکے۔ اور پھر خصوصی عدالت نے 19جون 2016کو پرویز مشرف کو مفرور قرار دیا۔ آرٹیکل 6 کا جرم ثابت ہونے پر پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وقار سیٹھ اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد فضل کریم نے اکثریتی فیصلہ دیا جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر محمد نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ سماعت کے دوران استغاثہ نے پرویز مشرف کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو بطور شریک ملزم شامل کرنے کی درخواست کی تھی جو عدالت نے مسترد کر دی۔ خصوصی عدالت نے سزائے موت سنائی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا تھا۔
سابق صدر پرویز مشرف ایک طویل عرصہ موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد اپنے خالق حقیقی کے پاس چلے گئے۔ ان کا جسد خاکی بھی ایک خصوصی طیارے کے ذریعے وطن لاکر سپرد خاک بھی کر دیا گیا لیکن یہ رائے ابھی بھی موجود ہے کہ آرٹیکل 6کے جرم میں دی جانے والی سزا پر عمل درآمد کسی نہ کسی صورت میں ضرور ہونا چاہیے تھا تاکہ مستقبل میں کوئی دوسرا منتخب حکومت کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی جرأت نہ کرے۔ پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ہاں ہر دور میں انصاف کا نظام کمزور اور طاقت ور کیلئے مختلف رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ لہٰذا ہمارے معاشرے میں پسند ناپسند اور مصلحت پسندی کبھی بھی میرٹ پر فیصلہ نہیں ہونے دیتی، جس کی وجہ سے انصاف کا قتل تو قدم قدم پر کیا گیا، لیکن بول بالا نہیں ہو سکا۔ریاست پاکستان کے حالات اسی بے ترتیبی کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ جب تک نظام انصاف کی حاکمیت قائم نہیں کی جائے گی اس وقت تک بہتری کی گنجائش پیدا نہیں ہو گی۔ مملکت پاکستان پر قریباً آٹھ سال من مرضی کی زبردستی حکومت کرنے والے آمر کے خلاف دلیرانہ فیصلہ اکثریتی ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد ناممکن ہی رہا۔ کہنے والے کہہ گئے کہ ظلم کا نظام چل سکتا ہے لیکن ناانصافی میں کبھی کوئی ریاست پھول پھل نہیں سکتی لیکن محبت، جنگ اور پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ ایک عہد اور بیت گیا مملکت کے قیام کو 75سال گزر گئے پھر بھی ہم جمہوریت اور پارلیمانی نظام کی موجودگی میں کچھ نہیں کر سکے۔ پہلا وزیراعظم مارا گیا، پہلا منتخب وزیراعظم پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ پہلی خاتون وزیراعظم دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئی اور ہم ملزمان کو صرف اس لیے کیفر کردار تک نہیں پہنچا سکے کہ ہمارا قانون آج بھی طاقت ور کا مرہونِ منت ہے، آخر کب تک؟

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button