Abdul Hanan Raja.Column

کی مجلس شوریٰ اور رائج جمہوری نظام .. عبدالحنان راجہ

عبدالحنان راجہ

 

ابن خلدون کے علاوہ دو اور مفکرین اوسوالڈ اشپنگلز اور آرنلڈ ٹوائن نے اقوام کے عروج و زوال کی مختلف جہات کا سائنسی انداز میں جو تجزیہ کیا اس کے مطابق جب اقوام اپنے وسائل سے زیادہ خرچ کرنے لگیں تو ان کی نسلوں کی عادات میں بگاڑ اور وہ جد وجہد کو ترک کر کے تن آسانی اختیار کر لیتی ہیں، دوسروں کے وسائل پر انحصار بڑھتا چلا جاتا ہے جس سے بدعنوانی کو فروغ اور ریاستی ادارے کمزور جبکہ افراد طاقتور ہو جاتے ہیں اور یہی زوال کی بڑی نشانیاں ہیں۔ صدیوں قبل ان مفکرین نے جو بیان کیا وہ ہمارے نظام سیاست پر خوب صادق آتا ہے۔ دانائے راز، حکیم الامت، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے افکار، نظریہ اور فلاسفی کا ایک عالم معترف اور اقبال کا شمار ان عظیم ہستیوں میں کہ جو مشرق و مغرب کے مستشرقین، محققین اور اقوام عالم کے عروج و زوال پر نظر رکھنے والوں کے ہاں یکساں مقبول مگر بدقسمتی کہ قومی شاعر اور حکیم الامت جیسے القابات دینے کے باوجود ہم انکے افکار سے روشنی لے سکے اور نہ ان کے متنبہ کرنے کے باوجود ابلیسی نظام کی چالوں کو سمجھ سکے کہ جس بارے انہوں نے ایک سو سال قبل امت کو آگاہ کر دیا تھاکہ یوں لگتا ہے کہ روح ‘ مزدک، ہمارے سیاسی نظام میں حلول کر چکی ہے۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ کے عنوان سے اس نظم میں اقبال نے ابلیسی نظام کی مکاریوں اور عیارانہ چالوں کا پردہ چاک کیا کہ کس طرح ابلیس نے دنیا کا نظام اپنی شاطرانہ چالوں سے جکڑ رکھا ہے۔ نائب قدرت کو جن اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کیلئے خلعت سے نوازا گیا۔ فرشتوں کے خدشات کے باوجود آدم کو تخلیق اور پھر اسے مسجود ملائکہ بنایا مگر ابلیس نے بارگاہ الوہیت میں جو قسم کھائی تھی اسے پورا کر دکھایا۔ مسلمان مادیت پرستی، جاہ و جلال اور ہوا و ہوس کے پھندوں میں جکڑا جا چکا اور فکری و روحانی افکار کی بالیدگی اب اس کی نظر میں اہم نہیں رہی۔ عشروں سے اس نظام میں پلنے، بڑھنے والے کمزور، مطلوم اور محروم طبقات کے اندر مایوسی اس قدر سرایت کرا دی گئی کہ باوجود غالب اکثریت کے، مغلوب اور آمادہ بر غلامی ہو چکے، ابلیسی نظام نے ان کو غربت و افلاس کی زنجیریں توڑنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا، غریب اس ذلت و رسوائی کو اپنا مقدر سمجھ کر قانع ہے، ابلیس کی جرأت سخن تو دیکھیے کہ اس کی بچھائی ہوئی بساط کو ‘ کارگاہ شیشہ سمجھنے والوں کو للکارتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے مسلط کردہ نظام سے بغاوت کی جرأت کس میں ہے !
یہ عناصر کا پرانا کھیل یہ دنیائے دوں،
ساکنان عرش اعظم کی تمناؤں کا خوں
میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب،
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں
میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں منعم کو دیا سرمایہ کاری کا جنوں
کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں
پہلا مشیر :
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام ، پختہ تر اس سے ہوئے خوئے میں عوام
آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام
دوسرا مشیر
خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے باخبر
ہوں مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو کیا اس سے خطر
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
ابلیس اپنے مشیروں سے:
کیا امامان سیاست،
کیا کلیسا کے شیوخ،
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو!
کارگاہ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو
تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے
تا بساط زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات
خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر آوروں کی خاطر یہ جہان بے ثبات
مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
یہی وجہ ہے کہ اقبالؒ نے یورپ کے متعارف کردہ نظامات، کیپٹل ازم، سوشل ازم، لبرل ازم، سیکولر ازم اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کو مسترد کیا اور اپنے خطبہ آلہ آباد میں واضح طور پر فرمایا کہ اسلام ایک زندہ قوت اور فرد اور ریاست کو اگر کوئی قوت باندھ سکتی ہے تو وہ اسلامی ضابطہ حیات ہی ہے۔اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو ہمارے پاس شرمندگی اور ندامت کے سوا اور ہے ہی کیا کہ جھوٹ، غیبت، بددیانتی، دنیا پرستی انفرادی، عائلی اور اجتماعی زندگیوں میں غالب اور ابلیسی نظام عملاً رواج ! دعوت و تبلیغ بے اثر، عامی کو تو چھوڑیئے، دین دار طبقات کے گھرانے بھی معاشرتی معاملات کو پابند شریعت کرانے میں بے بس۔
اقبال نے اس سے بھی بحث کی کہ
فقط دعوت و تبلیغ سے مغرب کو کوئی خطر ہے اور نہ محکم نظام ابلیسی کو
وہ تو بندہ مومن کو ذکر و فکر سے روکتا ہے اور نہ پابند تقدیر سے
وہ تو خائف ہے تو پختہ خیالی سے،
اذان بلالی سے اور تلقین غزالی سے،
حسینی فکر کے مقابل وہ اپنے قائم کردہ یزیدی نظام کو ہر صورت مستحکم اور دائم رکھنا چاہتا ہے. بظاہر وہ اس میں کامران! کہ ہم ہویے جو اس کے بندہ بے دام !
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button