ColumnNasir Sherazi

مرض لاعلاج ہوچکا! .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

گلزارِ سیاست میں پونے چار برس چھیاں چھیاں چلنے اور سیر سپاٹے کے بعد سیاسی سیاں گھر بیٹھ گئے، اعلان کردیا کہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہورہے ہیں پھر ایسا ہی حکم پارٹی کے ممبران قومی اسمبلی کو جاری کیا جس پر کچھ نے عمل کرتے ہوئے بے دلی سے استعفے دے دیئے اور ساتھ ہی کہلوادیا کہ ہم بہ امرمجبوری ایسا کررہے ہیں لہٰذا ان پر مزید کارروائی نہ کی جائے، پس یہ ہوا میں معلق رہے کچھ نے مستعفی ہونے سے انکار کردیا، شاید ان کا ضمیر جاگ گیا تھا، سیاں جی کے مطابق جب کوئی پارلیمنٹرین پارٹی لائن کے خلاف فیصلہ کرتا ہے تو یہ دراصل ضمیر کے جاگنے کی نشانی ہوتی ہے، اگلے مرحلے پر پنجاب اسمبلی کے تمام حلقوں پر چھری پھیر کر تاثر دیاگیا کہ نئے انتخابات کے لیے ہم کوئی بھی قربانی دے سکتے ہیں اور یہی کچھ خیبر اسمبلی میں کریں گے، راجہ ریاض بطور اپوزیشن رہنما وفاق میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے اچانک خیال آیا کہ نئے نگران سیٹ اپ کے لیے قومی اسمبلی میں جانا ضروری ہے ورنہ چوری وہ کھا جائیں گے جو وہاں بیٹھے ہیں۔ خیال تھا کہ طویل ریسٹ کے بعد سیاسی سیاں جی قومی اسمبلی آئیں گے اور وہ کردار ادا کریں گے جس کے لیے انہیں حکومت اُس وقت راضی کرنے کی کوشش کررہی تھی، جب وہ نااہل قرار نہیں دیئے گئے تھے، ان کے قومی اسمبلی میں واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی حکومت کی طرف سے 35 ممبران قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرلیے گئے ہیں اور الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی نوٹیفائی کردیا ہے جس کے بعد ایک مرتبہ پھر 35 پنکچر کا شور اٹھے گا مگر ایک نئے ساز کے ساتھ۔ بروقت حکومتی اقدامات سے اب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کا خطرہ ٹل گیا ہے، حکومت اب مزید کئی ماہ بلا خوف و خطر اپنے منصوبے کے مطابق چلتی رہے گی، بجٹ بھی پیش کرے گی اور ٹرم مکمل کرنے کے بعد انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے گی۔
سیاسی بارات تو ابھی دور ہے بڑی دیگ اس موقعہ پر چڑھے گی، سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے موقعہ پر یعنی سیاسی مہندی کی تقریب میں چھوٹی دیگ چڑھائی گئی تھی، ڈھکن اٹھاکر دیکھا تو معلوم ہوا پیپلز پارٹی پہلے، جماعت اسلامی دوسرے نمبر اور تحریک انصاف تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کے حصے میں 40 دانے آئے ہیں، ان نتائج سے اندازہ ہوگیا کہ جنرل الیکشن میں کیا ہوگا۔ 2018کے انتخابات میں باجوہ فیکٹر کے سبب کامیابی حاصل
کرنے کے بعد پنجاب میں وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب کے لیے جناب عثمان بزدار کو سامنے لایاگیا تو تحریک انصاف کی صفوں میں بے چینی نظر آئی جس پر قابو پانے کے لیے فرمایاگیا کہ عثمان بزدار کو نہ دیکھو مجھے دیکھو، ووٹ عثمان بزدار کو نہیں مجھے دینا ہے پھر بزدار صاحب وزیراعلیٰ بنے تو انہیںوسیم اکرم پلس قرار دیاگیا لیکن وہ عام رفتار سے بولنگ کراتے رہے اورڈنگ ٹپاتے رہے، آج اہل پاکستان پوچھتے نظر آتے ہیں کہ کراچی کے عوام نے یہاں خان صاحب کا چہرہ کیوں یاد نہ رکھا اور اگر انہیں اس حوالے سے سب کچھ یاد تھا تو پھر انہوں نے انہیں ووٹ کیوں نہ دیا۔
تحریک انصاف ان انتخابات میں تیسرے نمبر کی جماعت کے طور پر کھڑی ہے اس سلسلے میں انہیں ایم کیو ایم کا شکر یہ ادا کرنا چاہیے وہ اپنی پوری تیاری کے ساتھ میدان میں ہوتے تو پھر تحریک انصاف چوتھے نمبر پر آتی۔
کہا تو گیا ہے کہ کراچی میں ہماری تنظیم کمزور تھی حالانکہ علی زیدی بھرپور انداز میں نہایت فعال رہے انہیں ترقیاتی فنڈز بھی ملتے رہے وہ ہر موقعہ پر دھواں دھار تقاریر کرتے اپوزیشن کو لتاڑتے نظر آئےیہی کیفیت دیگر پارٹی ممبران قومی اسمبلی کی تھی اب فقط چند ماہ کی اپوزیشن میں پارٹی کا تیسرے نمبر پر آجاناصرف تنظیم کی کمزوری نہیں جناب یہ تو کوئی اور کمزوری ہے جس کا علاج کرنے والا حکیم ریٹائر ہوچکا ہے، اگر اس کے چند چھوٹے کہیں موجود ہیں اور ان سے علاج کرانے کی کوشش کی گئی تو کسی غلط دوا کے سبب رہی سہی جان بھی نکل سکتی ہے، لہٰذا جو مل چکا ہے اس پر صبر شکر کیا جائے اور صرف کراچی یا سندھ نہیں بلکہ قومی اسمبلی میں مثبت طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف دھیان دیا جائے اور اپنے وقت پر ہونے والے عام انتخابات کی تیاری کی جائے بصورت دیگر اگر یہی رویہ روا رکھا گیا اور عام انتخابات میں بھی ملتا جلتا نتیجہ سامنے آیا تو پھر واضح ہوجائے گا معاملہ اب صرف تنظیمی کمزوری کا نہیں بلکہ بات اس سے کہیں آگے بڑھ گئی ہے، وفاق میںچار برس ، پنجاب میںچار برس جبکہ صوبہ خیبر میں دس برس حکومت کے بعد تنظیمی کمزوری کا بہانہ قابل قبول نہیں وقت آچکا ہے آنکھوں کی پٹی کے ساتھ ساتھ ٹانگ کی پٹی اُتارکر کھلی آنکھوں اور کھلے دل کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لیا جائے، خوشامدیوں کے چنگل سے نکل کر زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے ان لوگوں سے قطع تعلق کیا جائے جو ہر وقت آئندہ الیکشن سویپ کرنے کی فرضی کہانیاں سناتے رہتے ہیں اور ایک بال پر تین وکٹیں لینے پر سر دھنستے نظر آتے ہیں، یہ سب باغ دیکھتے دیکھتے پارٹی اس حال کو آن پہنچی ہے۔ مشورے دینے والے تو اب بھی کہہ رہے ہیں کہ خیبر اسمبلی کو تحلیل نہ کرو، اس فیصلے پر کوئی نیا فیصلہ آگیا تو کوئی حیرانی کی بات نہ ہوگی، تحریک انصاف کے مرکزی قائدین کے آس پاس کچھ غیر سیاسی عناصر گھیرا ڈالے ہوئے ہیں جو انہیں نت نئے سرپرائز دینے کی راہ پر لگاکر ووٹرز کا دل جیتنے کے چکر میں ڈالے ہوئے ہیں، سیاست میں کوئی ایک بار سرپرائز ہوتا ہے روز روز نہیں، یوں بھی نظام حکومت اور پارٹی کو چلانے کے اصول مختلف ہیں، یہ رومانی یا جاسوسی فلم کے انداز پر نہیں چلائی جاسکتی، جس میں قدم قدم پر سرپرائز دیئے جاتے ہیں۔
کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے مایوس کن نتائج پر بحث ہورہی تھی ایک صاحب جوش میں کہنے لگے، فکر کی کوئی بات نہیں خان چند روز میں ایک بڑا سرپرائز دے گا، دوسری طرف سے جواب آیا اب تو ایک ہی سرپرائز باقی ہے کہ لبرٹی چوک میں آئے اور منہ سے آگ کے گولے نکال کر دکھائے، تنے ہوئے رسے پر تو چلنے سے رہا کہ ایک ٹانگ پر پٹی بندھی ہے ایسی ہی کسی کوشش میں دوسری ٹانگ پر بھی پٹی بندھ جائے گی لہٰذا مزید کسی سرپرائز سے پرہیز ضروری ہے لیکن سب سے زیادہ توجہ ایک اور طرف دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ جن چیزوں سے دین اسلام نے پرہیز کرنے کا حکم دیا ہے ان سے پرہیز کیا جائے ورنہ صرف تسبیح ہاتھ میں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں، یوں بھی سیانے کہتے ہیں پرہیز علاج سے زیادہ بہتر ضروری ہے مگر میری دانست میں مرض لاعلاج ہوچکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button