Editorial

سیاسی اور عسکری قیادت کی اہم ملاقات !

سیاسی اور عسکری قیادت کی اہم ملاقات !

وزیراعظم محمد شہباز شریف سے آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر کی ملاقات میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس اور امن وامان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیاگیاہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق آرمی چیف نےلاءاینڈ آرڈر کی صورتحال پر بریفنگ دی اور دونوں رہنمائوں نے دہشت گردی کے ناسور سے پوری قوت سے نمٹنے پر اتفاق کیااور اپنے عزم کا اعادہ کو دہراتے ہوئے کہا کہ عوام کی جان و مال کے تحفظ کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا، سیاسی اور عسکری قیادت کی اِس اہم ملاقات میں قومی سلامتی کمیٹی کے گذشتہ روز ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ ایک روز قبل ہی دنیا کے بہترین سپاہ کی کانفرنس کی تفصیلات سامنے آئیں اور اِس اہم کانفرنس کے اعلامیہ میں واضح طور پر پاکستانی عوام کی امنگوں کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی اور اس لعنت کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ۔ بلاشبہ پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف یہ بیانیہ ایسے وقت میں آیا ہے، جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے سیزفائر کے خاتمے کے اعلان کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر سے متعلق سیاسی و عسکری قیادت کی سنجیدگی کا اندازہ اِس تسلسل کو دیکھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی، اگلے ہی روز سربراہ پاک فوج نے وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف سے ملاقات کی اور تیسرے ہی روز قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔ لہٰذا دہشت گردوں کی حالیہ کارروائیاں تشویش ناک ہیں تو پاک فوج کے نئے سپہ سالار جنرل عاصم منیر اِس نئے چیلنج سے نمٹنے کا بخوبی تجربہ رکھتے ہیں ،کیونکہ پاک فوج کے وہ واحد سپہ سالار ہیں جنہوں نے ایم آئی اور آئی ایس آئی کی سربراہی بھی کر رکھی ہے اور ہمارا روایتی دشمن بھارت بھی اُن کے سپہ سالار بننے پر شدید پریشانی میں مبتلا ہے اور سرحد پار ابھی تک صف ماتم بچھی ہوئی ہے وہ اپنے کام کے ساتھ انتہائی مخلص ہو کر انہیں انجام دیتے ہیں اور پیشہ وارانہ امور پر انتہائی ذمہ داری سے کام کرتے ہیں،جس ذمہ داری پر بھی وہ تعینات رہے وہاں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے ضرور گاڑے ہیں، اِس لیے ہم مکمل اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وطن عزیز کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش والے دہشت گردوں کو ہر نئے دن کے ساتھ منہ توڑ جواب ملے گا جیسا کہ سپہ سالار جنرل عاصم منیر خود بھی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ اب جنگ دشمن کے علاقے میں ہوگی، چونکہ وہ خود انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ رہ چکے ہیں لہٰذا
وہ پاکستان دشمنوں کی ہر چال کو سمجھتے بھی ہیں اور ہر چال کا منہ توڑ جواب دینے کا بھی ملکہ رکھتے ہیں۔ وطن عزیز میں دہشت گردی ایک بار پھر کیوں سر اُٹھارہی ہے، وجہ صاف ظاہر ہے کہ نیٹو کی مکمل مدد اور وسائل دستیاب ہونے کے باوجود امریکہ بیس سال افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر اُلجھارہا ہے اور اپنی معیشت کی تباہی کے خوف سے بالآخر وہ تمام مقاصد حاصل کئے بغیر واپس چلاگیا جن مقاصد کے لیے نائن الیون کو بنیاد بناکر جنگ چھیڑی گئی تھی، صرف امریکہ ہی نہیں نیٹو میں شامل دیگر ممالک کے بھی بلاشبہ جنوبی ایشیا سے مفادات وابستہ تھے اسی لیے سبھی ایک چھتری تلے جمع تھے، پھر ہمسایہ ملک بھارت، جو اپنے توسیع پسندانہ مفادات کے حصول کے لیے امریکہ کی مدد کے نام پر افغانستان میں موجود تھا اور جو جنگ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر شروع کی گئی تھی اِسی جنگ کے دوران امریکہ اور نیٹو کی موجودگی میں بھارت دنیا بھر سے دہشت گرد تنظیمیں افغانستان میں منظم کررہا تھا، لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو دہشت گرد پاکستان میں بیس سال تک دہشت گردی کا ارتکاب کرتے رہے، اور اسی ہزار سے زائد شہدا کی قربانیوں کے بعد ہم نے اِس جنگ میں کامیابی حاصل کی، وہ دہشت گرد افغانستان سے ہی کیوں پاکستان بھیجے جارہے تھے، انہیں دنیا کے کونے کونے سے کون سی طاقت افغانستان میں منظم کرکے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کررہی تھی اور کیا وہ دہشت گردی تنظیمیں اور دہشت گرد صرف اسی لیے دہشت گرد نہیں تھے کہ وہ صرف بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہا رہے تھے؟ امریکہ اور اِس کے اتحادی نیٹو ممالک بشمول بھارت نے افغان جنگ سے اگر کچھ حاصل کیا ہے تو وہ ہے صرف’’سبق‘‘ ، جن مقاصد کے حصول کے لیے افغانستان پر یلغار بولی گئی تھی وہ جنگ طویل بلکہ طویل تر ہونے کے باوجود حاصل نہیں ہوسکے اور یہی بھارت کے ساتھ ہوا ہے لہٰذا اپنی معیشتوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والے اب کہاں چین سے بیٹھیں گے، یقیناً اُن کے زخم تازہ ہیں اور آئندہ بھی تازہ رہیں گے کیونکہ پاک فوج دہشت گردی کی طویل ترین جنگ لڑ بھی چکی ہے اور کم ترین وسائل کے ساتھ مشکل ترین تجربہ بھی حاصل کرچکی ہے۔دہشت گردوں کے پیچھے کوئی بھی ہو اُن کے مقاصد پوری پاکستانی قوم جانتی ہے اور بخوبی سمجھتی بھی ہے کہ اربوں ؍کھربوں ڈالر افغانستان میں خرچ کرنے کے باوجود نامراد رہنے والے کس حد تک جاسکتے ہیں مگر ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پاک فوج اور سکیورٹی فورسز اپنی عوام کی بھرپور حمایت اور طاقت کے ساتھ ہمہ وقت موجود ہے کیونکہ ہمارا عزم ہے کہ ہم اپنے اسی ہزار سے زائد شہدا کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button