Editorial

پنجاب حکومت کی تبدیلی کی نئی کوشش

 

گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 130(7) کے تحت وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی سے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا ہے اور اِس کے ساتھ ہی پنجاب اسمبلی میںحزب اختلاف کی بڑی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی نے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی، سپیکرپنجاب اسمبلی محمد سبطین خان اور ڈپٹی سپیکر واثق قیوم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے۔ ایوان کی تینوں اہم شخصیات کے خلاف الگ الگ تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف جمع کرائی گئی درخواست میں موقف اختیار کیاگیا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی پر اس ایوان کی اکثریت کا اعتماد نہیں رہا ہے اور صوبہ پنجاب کے معاملات آئین کے تابع نہیں چلائے جارہے ہیں نیز ملکی صورتحال کے زیر اثر انہوں نے صوبہ پنجاب میں جمہوری روایات کا قلع قمع کیا ہے لہٰذا یہ ایوان چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔ گورنرپنجاب کی طرف سے اُن کے پرنسپل سیکرٹری نبیل اعوان کے دستخطوں سے جاری ایڈوائس میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 130(7) کا حوالہ دے کر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کا اجلاس بدھ ، یعنی آج شام چار بجے طلب کرکے وزیراعلیٰ پنجاب کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے کہاگیا ہے۔ مراسلےکا متن کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالہٰی پارٹی صدر چودھری شجاعت کا اعتماد کھوچکے ہیں۔حکمران اتحاد کے اندر دراڑ کا تازہ ترین مظہر وزیراعلیٰ سےتلخ کلامی کے بعد سردار حسنین بہادر دریشک کا کابینہ سےاستعفیٰ دیناہے، وزیراعلیٰ چودھری پرویز الہٰی نے 4 دسمبر کو ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ وہ آئندہ مارچ تک اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے، وزیراعلیٰ کا یہ بیان پی ٹی آئی کی پارٹی پالیسی کےخلاف تھا جس پر 2 اراکین مستعفی بھی ہوگئے پھر 17 دسمبرکو وزیراعلیٰ نےسابق آرمی چیف کے خلاف بات کرنے پر عمران خان کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا، پنجاب اسمبلی کے ایوان میں حکومتی اتحاد اور اپوزیشن اتحاد میں بہت کم عددی فرق ہے۔گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن نے وزیراعلیٰ پنجاب کو آج بروز بدھ ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے کہا ہے لیکن دوسری طرف سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے گورنر کے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے آج 21 دسمبر کو اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکار کردیا ہے۔ گورنرپنجاب کے طلب کردہ اجلاس کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے سپیکر پنجاب اسمبلی محمد سبطین خان نے موقف اختیار کیا ہے کہ اجلاس پہلے ہی جاری ہے لہٰذاگورنر کے طلب کردہ اجلاس کو درست نہیں سمجھتا۔ ایک وقت میں اجلاس چل رہا ہو تو نیا اجلاس نہیں طلب کیا جاسکتا۔موجودہ اجلاس سپیکر کا طلب کردہ ہے، جسے گورنر ختم نہیں کر سکتااوراسمبلی  سیکرٹریٹ گورنر کے طلب کردہ اجلاس کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری نہیں کرے گاپھر سپیکر پنجاب اسمبلی نے، اسمبلی کا جاری اجلاس منگل 23دسمبر تک ملتوی کردیا ہے، یعنی ایک طرف گورنر پنجاب کے احکامات کو سپیکر پنجاب اسمبلی نے غیر آئینی قرار دیا ہے تو دوسری طرف اجلاس دو روز کے لیے ملتوی کردیا ہے یوں گورنر کے احکامات کے برعکس آج اجلاس نہیں ہورہا۔ پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی، سپیکر محمد سبطین خان اور ڈپٹی سپیکر واثق قیوم کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد سے متعلق ابھی صورتحال سامنے نہیں آئی کہ سپیکر اِس پر کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ بظاہر گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن کی طرف سے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے پیچھے اور اسمبلی سیکرٹریٹ میں تینوں اہم شخصیات کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کامقصد جمعہ 23 دسمبر کو عمران خان کے اعلان کے مطابق خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچانا ہے، لہٰذا اب پنجاب اسمبلی کے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی قیادت مکمل طور پر جوڑ توڑ میں مصروف ہے مگر سپریم کورٹ کے واضح احکامات کی روشنی میں اب اراکین کی وفاداریاں تبدیلی کرانے والا فارمولا موثر نہیں رہا کیونکہ جو بھی رکن پارٹی کی حکمت عملی کے برعکس چلے گا اس کو اپنی نشست سے ہاتھ دھونا پڑے گا جیسا کہ قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف کے منحرف اراکین اسمبلی کے ساتھ ہوا، جنہوں نے پارٹی قیادت کے فیصلے کے برعکس پی ڈی ایم کے امیدوار میاں حمزہ شہبازشریف کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے ووٹ دیا اور پھر اپنی نشستوں سے نااہل قرار پائے۔ اسمبلی امور کے ماہرین کی بات کریں تو انکا کہنا ہے کہ گورنر پنجاب کے احکامات پر سپیکر اسمبلی کی رولنگ بالکل آئینی ہے اور جاری اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے نہیں کہا جاسکتا اور بلاشبہ پی ڈی ایم کی قیادت اِس امر سے بخوبی واقف ہوگی لیکن مختلف ذرائع سے متفرق دعوے سامنے آنے سے ابہام بھی پیدا ہوتا ہے۔ قصہ مختصر عمران خان جمعۃ المبارک کے روز خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کرچکے ہیں اور بلاشبہ دونوں اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں پانچ سال کے لیے ان اسمبلیوں کے لیے انتخابات ہوں گے اور عمران خان موجودہ معاشی صورت حال کا فائدہ اٹھانا چاہیں گے جبکہ پی ڈی ایم کی قیادت ایسا نہیں چاہتی، اسی لیے دونوں جانب سے ہر دائو پیچ لڑایا جارہا ہے مگر اِس دوران شاید اِس امر پر غور نہیںکیا جارہا کہ صوبے میں ہر سطح پر غیر یقینی کی صورت حال ہے، کاروباری طبقہ اپنی جگہ پریشان ہے جبکہ بیوروکریسی کو بھی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کس کے تابع رہیں اور کس کاکہا نہ مانیں ، صوبائی وزرا بھی بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہیں لہٰذا مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی بے یقینی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، آنے والے دنوں میں سیاسی عدم استحکام کم یا ختم ہوگا،قطعی ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پوری طرح کوشاں ہیں اور اِس سارے سیاسی منظر نامے میں معیشت کی زبوں حالی، زرمبادلہ کے ذخائر، داخلی اور خارجی چیلنجز خصوصاً عوام اور اِس کے مسائل پرے رکھ دیئے گئے ہیں، چونکہ ہمیشہ سے سیاسی عدم استحکام داخلی حالات کی خرابی میں بڑھوتری کا سبب رہا ہےلہٰذا موجودہ سیاسی کشمکش کے نتائج بھی ماضی کی طرح کسی نئی بحران کی آمد کی صورت میں ملیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button