ColumnKashif Bashir Khan

کپتان کا کامیاب سیاسی باؤنسر! .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

گزشتہ اپریل میں پاکستان میں جوق حکومت کی تبدیلی ہوئی، اس نے بہت سے چھپے ہوئے چہرے بے نقاب کر دیئے۔آج بھی عمران خان کے خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلیوں کو توڑنے کے اعلان کے بعد جس طرح سے اپوزیشن نے بیک وقت عدم اعتماد اور گورنر پنجاب کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کو آج کے دن یعنی 21 دسمبر کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے اسمبلی کے اجلاس کو طلب کیا وہ ماہرین قانون و آئین کیلئے حیران کن ہے۔ ماہرین آئین کے مطابق اسمبلی کا جاری اجلاس سپیکر صوبائی اسمبلی نے طلب کیا تھا اور اسے ختم بھی سپیکر اسمبلی ہی ختم کر سکتا ہے، جس کے بعد گورنر وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔ ماہرین آئین کے مطابق گورنر نے پنجاب اسمبلی کے جاری اجلاس کے ختم ہوئے بغیر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئےاسمبلی کا اجلاس بلا کر آئین پاکستان کی سنگین خلاف ورزی کی ہے اور اسمبلی اجلاس بلاکر اس اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے حکم نامے میں درج تمام وجوہات ایک سیاسی جماعت کا ایجنڈا تو ہے لیکن ان وجوہات میں سے کوئی بھی وجہ ٹھوس نہیں ہے اور ان وجوہات کی بنا پر بھی ان کا حکم نامہ مسترد ہو سکتا ہے۔قومی اسمبلی سمیت تمام اسمبلیوں میں اراکین پر جو پابندیسپریم کورٹ جولائی کے ضمنی انتخابات کے بعد لگا چکی ہے، اس کے مطابق تو تمام جماعتوں کے اراکین اپنی سیاسی جماعت کی ہدایات کے برعکس اپنا ووٹ استعمال کریں گے تو اول تو ان کا ووٹ گنتی میں شمار نہیں کیا جائے گا دوسرا ان کو اپنی سیٹ سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے۔
گورنر پنجاب نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے حکم نامے میں جو بڑی وجہ بیان کی ہے وہ وزیر اعلیٰ کا اپنی سیاسی جماعت کے صدر کا اعتماد سے محروم ہو جانا بھی لکھا ہے لیکن سپریم کورٹ اپنے جولائی کے فیصلے میں واضع طور پر لکھ چکی ہے کہ اراکین اسمبلی پارلیمانی لیڈر کی ہدایات پر اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔پاکستانی عوام کیلئے وفاقی اتحادی حکومت کا رویہ نہ صرف حیران کن ہے بلکہ پچھلے ایک سال کے ان کے اپنے سیاسی نظریات و بیانات کی بار بار نفی بھی ہے۔قارئین کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ پچھلے قریباً دو سال سے متحدہ اپوزیشن کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ ملک میں فوری نئے انتخابات کرائے جائیں لیکن 10 اپریل کے اگلے ہی دن ان کوانتخابات کے نام سے چڑ ہو گئی۔ یہ چڑ بلاوجہ نہیں بلکہ اپریل 2022 سے آج تک ہونے والے تمام ضمنی انتخابات میں عمران خان کی جیت اور
حکمران اتحاد کی تمام تر حکومتی و خفیہ سپورٹ کے باوجود بدترین ہار چھپی ہوئی ہے۔ اقتدار کا آنا جانا تو سیاست دانوں کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن جس طریقے سے اتحادی جماعتیں اقتدار میں لائی گئی ہیں اور بدترین طرز حکمرانی،بدترین مہنگائی اور اپنے کھربوں کے کرپشن کیس ختم کروائے گئے ہیں۔اس نے عوام کی اکثریت کو اتحادی جماعتوں کے دلوں و دماغ کو غم و غصے سے بھر دیا ہے اور اتحادی جماعتوں کو آنے والی انتخابات میں اپنی بدترین ہار صاف دکھائی دے رہی ہے۔ایسے میں نیب ترامیم کے طفیل کرپشن سے ڈرائی کلین ہونے والے تمام سیاسی رہنماؤں کیلئے انتخابات میں جانا سیاسی موت ہو گی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اپنے مفادات کیلئے کی گئی ترمیم اور اقدامات واپس ہونے کے سو فیصد امکانات ہیں اور اگر اب عمران خان حکومت میں واپس آ گیا تو مجھے یقین ہے کہ وہ کسی بھی کرپٹ عناصر کو معاف نہیں کرنے والا۔ سپیکر پنجاب اسمبلی نے گورنر کے بلائے اجلاس کو رد کر دیا ہے۔
معروف قانون دان علی ظفر نے بتایا ہے کہ گو گورنر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے اسمبلی اجلاس طلب کر سکتا ہے لیکن سپیکر کے بلائے اجلاس کے ختم ہو ئے کے بعد اور جس اجلاس کو سپیکر نے بلایا ہو اسے ختم بھی سپیکر ہی کر سکتا ہے،لیکن میری لیے حیران کن بات تو یہ ہے کہ جو اتحاد پچھلے دو ماہ سے عمران خان کو خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی توڑنے کی دھمکیاں دے دی رہا تھا اور اسمبلیاں ٹوٹتے ہی ان دو صوبوں میں انتخابات کروانے کی بڑھکیں مار رہا تھا۔ وہ عمران خان کا دونوں اسمبلیوں کو 23 دسمبر تو توڑنے کے اعلان کے بعد اتنا بوکھلا کیوں گئے ہیں کہ بوکھلاہٹ میں پہلے تحریک عدم اعتماد جمع کروائی اور پھر گورنر سے پنجاب اسمبلی کے جاری اجلاس کے دوران اعتماد کا ووٹ لینے کا آئینی مگر رولز کے منافی حکم جاری کروا دیا گیا جس کے بارے میں معروف قانون دان اظہر صدیق کا کہنا ہے کہ گورنر پنجاب کے اس خلاف رولز حکم نامے جس کی وجوہات بھی ناکافی ہیں، جاری کرنے پر قانونی کارروائی بنتی ہے اور ان کے مطابق وہ قانونی کارروائی کیلئے عدالت کا رخ بھی کر رہئے ہیں۔سیاسی حالات دونوں اسمبلیاں ٹوٹنے کی طرف جا رہے ہیں اور جمعرات کو تحریک انصاف کے تمام مستعفی اراکین قومی اسمبلی بھی سپیکر قومی اسمبلی کے سامنے پیش ہو کر اپنے استعفے منظور کروانے جا رہے ہیں۔ اگر سپیکر قومی اسمبلی نے استعفے منظور نہ کئے تو پھر عدالت میں تمام اراکین قومی اسمبلی استدعا کریں گے اور لگتا یہ ہے کہ چند دنوں کے بعد قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے استعفوں کا فیصلہ تو ہو ہی جائے گا اس کے ساتھ تحریک انصاف کے 20 سے زائد منحرف اراکین قومی اسمبلی بھی اپنی نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔عمران خان کی کامیاب حکمت عملی نے اتحادی حکومت جسے عوام کی بہت بڑی تعداد امپورٹڈ کہتی ہے، کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے اور دکھائی یوں دے رہا ہے کہ مطلوبہ اراکین کی تعداد نہ ہونے کے باوجود پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کروانے کا واحد مقصد اسمبلیاں ٹوٹنے میں تاخیر اور قاف لیگ اور تحریک انصاف میں بد گمانیاں پیدا کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ اگر تحریک انصاف کےکسی رکن صوبائی اسمبلی کو کیسوں کے عوض خرید بھی کیا جاتا تو اس کا ووٹ گنتی میں شمار نہیں کیا جائے گا۔اگر سپیکر پنجاب اسمبلی گورنر کے اعتماد کا ووٹ لینے کے حکم نامے کو خلاف ضابطہ اور رولزقرار دے دیتے ہیں تو پھر تحریک عدم اعتماد کیلئے اراکین صوبائی اسمبلی کی مطلوبہ تعداد 186 پنجاب اسمبلی میں سامنے لانا متحدہ اپوزیشن کی ذمہ داری ہو گی جو وہ چودھری پرویز الٰہی کے بغیر کبھی بھی پوری نہیں کرسکتے۔پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں اب ٹوٹ کر ہی رہیں گی اور پی ڈی ایم کے عوام کش اتحاد کی حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں اور پنجاب اسمبلی میں جس قسم کی ناکام مہم جوئی انہوں نے کی اس نے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ اور اتحادی سیاسی جماعتوں کو عوام کی نظروں میں اقتدار سے چمٹے رہنے کیلئے ہر قسم کے جھوٹ بولنے والے اور سیاسی روایت سے عاری سیاسی گروہ کے طور پر برہنہ کر دیا ہے۔عمران خان کی اسمبلیاں توڑنے کے اعلان نے اسے سیاسی کامیابی کے در پر پہنچا دیا ہے اور حکومتی اتحاد کی عوام میں رہی سہی عزت بھی ختم کر ڈالی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button