Ahmad NaveedColumn

اپنی باتوں کے سارے اگر مگر .. احمد نوید

احمد نوید

 

’’ہندوستان کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی سیاسی پارٹی سے منسلک رہیں۔ کیونکہ یہ ہندوستان میں سیاسی منظر نامے کو نئی شکل دے رہی ہے ‘‘
بھارت کی عام آدمی پارٹی کی ویب سائٹ پریہ الفاظ رقم ہیں۔عام آدمی پارٹی نے کیجر یوال کی سرپرستی میں 2011میں جنم لیا تھا۔ عام آدمی پارٹی کا بنیادی نظریہ کرپشن ختم کرنا تھا اور کیجریوال کا ماننا تھا کہ وہ خطیر رقم جو کرپشن کی نظر ہو جاتی ہے اگر اُسے بچا لیا جائے تو عوام کو بہت سی سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں اور عوام کی خدمت کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
2013میں دہلی اسمبلی کے انتخابات سے اپنی انتخابی سیاست کا آغاز کرنے والی عام آدمی پارٹی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے بعد یہاں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے اور دہلی اسمبلی میں کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی مگر دہلی کا وزیراعلیٰ بننے کے بعد کیجریوال نے صرف 49دنوں بعد ہی ایک بل منظور کروانے پرکانگریس کی حمایت حاصل نہ ہونے پر استعفیٰ دے دیا تھا۔ دہلی میں صدر راج لگادیا گیا اور جب 2015میںدہلی اسمبلی کے انتخابات دوبارہ منعقد ہوئے تو عام آدمی پارٹی نے اسمبلی کی 70 میں سے 67سیٹیں جیت لیں اور بی جے پی کو صرف 3نشستیںملیں۔
کیجریوال دہلی کے دوبارہ وزیراعلیٰ بن گئے۔ 2020میں دہلی قانون ساز اسمبلی کا نیا الیکشن ہوا تو بھی عام آدمی پارٹی کم و بیش اتنی ہی نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ 2022میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات جیتنے اور صوبہ پنجاب میںحکومت بنانے کے بعد عام آدمی پارٹی بہت تیزی کے ساتھ بھارت میں مقبول ہو رہی ہے۔ بھارت میں آدمی پارٹی کی مقبولیت کی وجہ کیا ہے۔ عام آدمی پارٹی کی اپنی سٹڈی اور تحقیق ہے کہ بھارت میں لوگوں کی کثیر تعداد بھارتی سیاست کے جمود ، اقربا پروری ، بدعنوانی ، مجرمانہ ، فرقہ وارانہ اور نفرت کی سیاست سے اُکتا چکے تھے۔ لہٰذا اس پس منظر میں عام آدمی پارٹی کو تازہ ہوا کا جھونکا سمجھا گیا۔ اس لیے عام آدمی پارٹی کو ہندوستان میں ایماندار اور کرپٹ سیاست کے متبادل طو ر پر دیکھا اور قبول کیا گیا۔
عام آدمی پارٹی کی طرح کم و بیش پاکستان تحریک انصاف بھی اسی طرح کی سوچ ، نظر یہ اور ایجنڈا لے کر بنائی گئی تھی۔ کچھ دیر کیلئے اس بات کو ایک طرف رکھ بھی دیں کہ پی ٹی آئی کو کچھ مخصوص قوتوں کی مدد و معاونت حاصل رہی ، تب بھی یہ بات تو صاف اور عیاں ہے کہ پی ٹی آئی کو اقربا پروری ، بدعنوانی اورسیاست میںجمود کے خلاف تازہ ہوا کا جھونکا سمجھا اور پاکستان میں کرپٹ سیاست کے متبادل کے طورپر دیکھا گیا۔
ایک جیسی ابتداکے بعد دونوں سیاسی جماعتوں کی کارگردگی میں نمایاں فرق موجود ہے۔ پہلا فرق یہ تھا کہ عام آدمی پارٹی نے سیاست میں قدم رکھتے ہی عملی منصوبہ بندی اختیار کی۔ اُن کے ہاں خیالی اور تصور اتی نعروں کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ عام آدمی پارٹی نے دہلی میں دو سو یونٹ تک مفت بجلی دو سو لیٹر تک مفت پانی ، سرکاری دفاتر سے 81فیصد تک کرپشن کا خاتمہ ، محلوں کی سطح پر صحت کلینکس اور سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی بہترین سہولیات ، خواتین کیلئے مفت بس سروس جس میں کیمرے نصب ہیں اور سیکورٹی کنٹرول روم کے ساتھ منسلک ہیں۔ کویڈ 19میں بہترین اقدامات ، گذشتہ 7سالوں میں بجلی کی قیمتوں میں زیرو اضافہ ، دہلی کے تیس لاکھ سے زائد گھرانوں کو مفت بجلی کی فراہمی ، دہلی کے کسانوں کیلئے انقلابی اقدامات ، دہلی کے سرکاری سکولوں کا بورڈ ز کے امتحانات میں 98فیصد کامیا بی کا تناسب ، انفراسٹرکچر کے پراجیکٹس میں 500کروڑ سے زائد کی بچت ، لاکھوں نوکریاں اور نئے روزگار اور بے شمار اقدامات کی وجہ سے دہلی شہر کو 2021میں دنیا کے بہترین شہروں میں شامل کیا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس کے مقابلے میں عام آدمی پارٹی واحد سیاسی پارٹی ہے ، جو ہندوستان میں سیاسی فنڈنگ میں شفافیت کے لحاظ سے سب سے اوپر ہے۔ عام آدمی پارٹی ہندوستان کی واحد پارٹی ہے جو اپنے تمام عطیہ دہندگان کی شناخت الیکشن کمیشن اور محکمہ انکم ٹیکس کو رپورٹ کرتی ہے۔ جبکہ کانگریس کو موصول ہونے والے فنڈز میں صرف 17فیصد اور بی جے پی کو ملنے والے سیاسی فنڈز میں صرف 35فیصد ذرائع ریکارڈ پر موجود ہیں۔
پاکستان میں بھی عوام کی پی ٹی آئی سے کچھ ایسی ہی توقعات وابستہ تھیں۔ عوام پاکستان کو بدلتا اور ترقی کرتا دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف عملی طور پر ڈلیور کرنے میں ناکام رہی۔ پاکستان تحریک انصاف نے عام آدمی پارٹی کی طرح عام آدمی کی نہ خدمت کی نہ نعرہ لگایا اور نہ ہی عملی کارکردگی دکھائی۔ پاکستان تحریک انصاف کے ہاں حکمت عملی کا فقدان رہا اور نہ ہی وہ وی آئی پی کلچر سے باہر نکل سکی۔ اصلاحات لائی جا سکیں نہ ہی گڈ گورننس کی کوئی مثال دکھائی دی۔ اوپر جن جن شعبوں میں عام آدمی پارٹی کی خدمات کا تذکرہ ہے۔
کیا پی ٹی آئی کو بھی اُنہی شعبوں میں کام اور ڈلیور کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اشد ضرورت تھی ! مگر افسوس کہ ہم پاکستان کو بدلتا نہ دیکھ سکے۔ عمران خان کی شخصیت میں بے انتہا اضطراب ہے ، اگر انہوں نے مستقل مزاجی دکھائی تو صرف ایک نعرے کی حد تک کہ دوسرے سب چور ہیں۔ افسوس کہ عمران خان صاحب نے اس نعرے کو اپنی اور پارٹی کی لائف لائن بنا دیا۔
ماضی بیت گیا۔
میری چیئر مین پی ٹی آئی عمران خان سے درخواست ہے کہ جلدی الیکشن کروانے کی تاریخ مانگنے کی بجائے وہ دو صوبوں میں جو اُن کے پاس حکومتیں موجودہیں ، اُن کے وزراء اعلیٰ سے مل کر دونوں صوبوں میں عوامی خدمات کی نہ صرف پلاننگ کریں بلکہ عملی اقدامات کر کے بھی دکھائیں اور مستقبل میں اگر اُن کو دوبارہ حکومت ملتی ہے تو کس ایجنڈے کے تحت انہوں نے دوبارہ حکومت کرنی ہے ، اُس ایجنڈے اور حکمت عملی کو تشکیل دیں ،کیونکہ اگر وہ عوام کی خدمت کے ذریعے پاکستان کو بدلنے میں کامیاب ہوگئے اور عوام نے پاکستان کو بدلتا ہوا دیکھ بھی لیا تو خان صاحب کو کسی کو چور کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ورنہ۔۔۔۔
الجھتی جاتی ہیں گر ہیں ادھورے لفظوں کی
ہم اپنی باتوں کے سارے اگر مگر کھو لیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button