ColumnImtiaz Ahmad Shad

عام معافی کا اعلان کریں .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

انسان کی جب پیدائش ہوتی ہے تو وہ ہر چیز سے انجان ہوتا ہے، وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کس قوم اور کس مذہب سے ہے، یہ دنیا کیا ہے، اس کو بنانے والا کون ہے، سچ کیا ہے، جھوٹ کیا ہے، اچھا کیا ہے بُرا کیا ہے،غیبت کیا ہے، حسد کیا ہوتا، کسی کا مذاق اڑانا کیا ہوتا ہے، کسی کا دل دکھانا کیا ہوتا ہے، وہ ہر چیز سے انجان ہی ہوتا ہے اس لیے وہ کسی بھی گناہ اور سزا کا مرتکب نہیں ہوتا لیکن جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا جاتا ہے اُسے ہر چیز کے بارے میں معلوم ہونے لگتا ہے کہ وہ کس قوم و مذہب کا ہے، سچ کسے کہتے ہیں جھوٹ کسے کہتے ہیں پھر جب وہ غلطی کرتا ہے تو اُس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے دنیا میں نہ سہی آخرت میں اُس کو غلطیوں کی سزا ضرورملتی ہے۔ جب انسان جوانی کی طرف بڑھتاہے تو گھر کے بڑے اسے وہ راستہ بتاتے ہیں جن پر وہ خود چل رہے ہوتے ہیں۔یہی تربیتی عمل اسے معاشرے کا بہترین یا بد ترین فرد بننے میں معاونت کرتا ہے۔ اسلام ہمیں ہمیشہ سچی بات کہنے اور دوسروں کو حق بات پہنچانے کی تلقین کرتا ہے، نماز، روزہ، زکوۃ، حج یہ تمام چیزیں ہمیں دوسرے مذہب سے الگ کرکے ہماری پہچان بناتی ہیں کہ ہم مسلمان ہیں لیکن یہ صرف ہم پر انحصار کرتا ہے کہ ہم اسلام کو کتنا سمجھتے اور اُس پر عمل کرتے ہیں۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم کسی کی غیبت نہ کریں، جھوٹ نہ بولیں، کسی کا مذاق نہ اڑائیں، چوری و زنا سے دور رہیں، سچی بات کہنے سے پیچھے نہ ہٹیں چاہے ہمیں کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے، کسی کا دل نہ دکھائیں۔انسان کو جب
اپنے دین کے بارے میں پتا نہیں ہوتا تو وہ اپنے دین کے بارے میں جاننے کیلئے علم حاصل کرتا ہے، تاکہ وہ اچھے بُرے کی تمیز کر سکے اور یہ جان سکے کہ اُس کیلئے کیا صحیح اورکیا غلط ہے۔ علم اللہ تعالی کی دین ہے، جسے چاہتاہے، زیادہ دیتا ہے اور جسے چاہے کم دے دیتا ہے، لیکن زیادہ علم حاصل کرنے میں گھمنڈ اور غرور نہیں آنا چاہیے کہ اُس کے پاس علم ہے اور وہ کسی کو کچھ بھی کہہ دے۔ علم حاصل کرنا بڑی بات نہیں اُس پر عمل کرنا بڑی بات ہے۔ہمارا دین کہتا ہے کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں سے زیادہ دیر تک ناراض نہ رہو اور کوشش کرو کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے قصور معاف کر دو، اُن کیلئے دل میں بغض نہ رکھو، اُن کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آئو، اگر کوئی غلط کر رہا ہے تو اُس کو سمجھائو نا کہ اُس سے بدلہ لو اور اُسے جگہ جگہ ذلیل کرو۔ وہ کیسا مسلمان ہے جس کے ہاتھ و زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ نہ رہے۔ کہنے کی اور سننے کی حد تک ہمیں یہ باتیں بہت اثر کرتی ہیں لیکن جب ہم پر ایسا وقت آتا ہے کہ اپنے
مسلمان بہن یا بھائی کی غلطی کو درگزر کریں تو ایسا کرنے میں ہمیں بہت قباحت ہوتی ہے۔سیدنا ابو ایوب انصاریؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی (مسلمان) کیلئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق کرے دونوں آپس میں ملیں تو یہ اس سے منہ موڑے اور وہ اس سے منہ موڑے اور ان دونوں میں سے بہتر وہ آدمی ہے کہ جو سلام کرنے میں ابتدا کرے۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : جو لوگ آسانی میں سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے (134)سورۃ آل عمران)اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی معاملے میں آپ حق پر ہیں اور آپ کا مسلمان بھائی غلطی پر ہے پھر بھی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جھگڑا چھوڑ دیں۔ رسول اللہ ﷺنے ایسے شخص کو جنت میں گھر کی ضمانت دی ہے۔سیدنا ابوامامہ ؓعنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جنت کے اطراف میں ایک گھر کا ضامن ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے اور اس شخص کیلئے جو مذاق ومزاح میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دے۔ جنت کے وسط میں ایک گھر کا ضامن ہوں، اور اس شخص کیلئے جو اعلیٰ اخلاق کا مالک ہو ،اعلیٰ جنت میں ایک مکان کا ضامن ہوں۔
ایک بات یاد رکھیں انسان کے حقوق انسان ہی معاف کرے گا نا کہ اللہ تعالی، اگر ہم نے کسی کا دل دُکھایا ہے یا کسی کے ساتھ بُرا کیا ہے تو جب تک ہمیں وہ انسان معاف نہ کرے گا جس کے ساتھ ہم نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ بھی ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ دنیا کا سب سے مشکل کام اپنی اصلاح کرنا ہے۔ہم انسان ہیں اور انسان غلطیوں کا پُتلا ہے کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں غلطی ضرور کر بیٹھتا ہے۔ ہم فرشتے نہیں جو ہر گناہ سے پاک ہیں۔ ایک انسان غلطی کرتا ہے تو وہی غلطی سے دوسرے سے بھی ہو سکتی ہے۔ دوسروں کی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی بھی اصلاح کرنی ہو گی۔ ہمیشہ ایک انسان غلطی کرتا رہے اور دوسرا نہ کرے ایسا نہیں ہوتا۔ کسی کے پاس علم زیادہ ہے اور کسی کے پاس کم لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ زیادہ علم بہتر ہے تو یہ کہنا غلط ہو گا۔ اگر زیادہ علم والے کا عمل کم ہے اور کم علم والے کا عمل زیادہ ہے تو کم علم والابہترین انسان ہے جو علم کم ہونے کے باوجود زیادہ عمل کی طرف توجہ رکھے ہوئے ہے۔ اسلام ہمیشہ ہمیں پیار سے بات کرنے اور آپس میں ہو کررہنے کا درس دیتا ہے نا کہ مختلف حصوں میں بٹ کر رہنے کا۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ نے جب کافروں کو طائف پر اسلام کی دعوت دینی چاہی تو کافروں نے آپ نبی اکرم ﷺکوپتھر مار کر لہولہان کر دیا اور مبارک جوتے خون سے بھر گئے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ اے نبی اگر آپ کہیں تو ان کی بستی کو اُلٹا دیں یا ان کو دو پہاڑوں کے درمیان دے
ماریں تو تب نبی اکرم ﷺنے غصے اور جذبات کا اظہار نہ کیا تھا بلکہ اُن کافروں کیلئے ہدایت کی دُعا کی۔ بد قسمتی سے پاکستان میں موجودہ غم و غصے کی فضا ہمارے سیاستدانوں نے قا ئم کر رکھی ہے۔ دوسرے پر بہتان بازی اور الزام تراشی اس حد تک عروج پکڑ چکی کہ عام آدمی کو وہی سچ لگتا ہے جو ان کے لیڈران کہہ رہے ہوتے ہیں۔اگر ہم مسلمان ہیں اور وطن عزیز کو اسلام کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں تو دوسرے کو معاف کرنا ہو گا، رنج و الم کی فضا کو محبت اور بھائی چارے سے معطر کرنا ہوگا۔ یقیناً ایسے عمل سے ملک و قوم ترقی کریں گے۔بہت ہو گیا اب عام معافی کا اعلان کریں، دوسرے سے درگزر کریں۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو خود کو مسلمان کہنے کی زحمت بھی مت کریں، کیونکہ اسلام تو امن اور خیر خواہی کا دین ہے نا کہ ضد اور انا کا مرکز۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button