CM RizwanColumn

سیاسی انتقام کی دو مثالیں .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

بالآخر وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو لاہور کی خصوصی عدالت نے 2019 میں بنائے گئے منشیات سمگلنگ کیس میں بری کر دیا۔ رانا ثناء اللہ کو یکم جولائی 2019 کو اینٹی نارکوٹکس فورس لاہور کی ٹیم نے مبینہ طور پر موٹر وے پر راوی ٹول پلازہ کے قریب سے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ اپنی گاڑی پر فیصل آباد سے لاہور جا رہے تھے۔ اے این ایف نے ان کی گاڑی سے 15 کلو گرام ہیروئن برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ اے این ایف نے رانا ثناء کے ڈرائیور اور سکیورٹی گارڈز سمیت پانچ دیگر افراد کو گرفتار کیا۔ اس مقدمے کی بنا پر عدالت نے انہیں اگلے روز جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا۔ رانا ثناء چھ ماہ تک جیل میں رہے جب تک کہ لاہور ہائی کورٹ نے 24 دسمبر 2019 کو ان کی ضمانت منظور نہیں کی۔ اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت پر لیگی قائدین کی طرف سے شدید تنقید اور سیاسی حریفوں کے خلاف سیاسی انتقام کا الزام لگایا گیا۔ تاہم عمران خان کی قیادت والی حکومت نے رانا ثناء کی گرفتاری میں ہاتھ ہونے کی تردید بھی کی اور ساتھ ہی ساتھ اس وقت کے وزیر مملکت شہریار آفریدی کی جانب سے مقدمہ کی سچائی کے حق میں قسمیں اٹھانے اور مقدمے کی بنیاد پر لیگی قائدین کو دنیا کے سب سے بڑے راشی ثابت کرنے کا زبانی کلامی سلسلہ بھی جاری رہا۔
تاہم رانا ثناء نے اپنی بریت کیلئے عدالت موصوف میں درخواست دائر کرتے ہوئے جلد سماعت کی استدعا کی تھی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ رانا ثنا کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا تھا پھر یہ کہ عینی شاہدین بھی مقدمہ کی سچائی سے انحراف کر رہے ہیں، جس پر عدالت نے سماعت اسی روز دوپہر 2 بجے کیلئے مقرر کی۔ رانا ثناء کے وکیل ایڈووکیٹ فرہاد شاہ نے عدالت کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس کے دو گواہ اپنے بیانات سے مکر گئے ہیں۔وہ ریکوری میمو کے گواہ تھے،دفاع نے عدالت کو آگاہ کیا کہ استغاثہ کے پاس ثابت کرنے کیلئے کوئی کیس نہیں ہے۔ اس کے بعد عدالت نے رانا ثناء اور شریک ملزمان سبطین، عثمان، عامر اور اکرم کو منشیات سمگلنگ کیس سے بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔ کیس کے گواہ انسپکٹر احسان اعظم نے کہاکہ انہیں واقعات کے بارے میں کوئی علم نہیں اور نہ ہی ان کی موجودگی میں بازیابی کی گئی۔ میں نے ریکوری کا گواہ نہیں بنایا، مجھے گواہ بنایا گیا لیکن مجھے حقائق کا علم نہیں اور نہ ہی میں کسی بھی طرح استغاثہ کے کیس کی حمایت کرتا ہوں۔ اور گواہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر امتیاز احمد نے عدالت کو بتایا کہ انہیں رانا ثناء کے کیس کا علم نہیں تھا اور ان کی موجودگی میں منشیات برآمد نہیں کی گئیں۔ انہوں نے کہا مجھے کیس میں گواہ بنایا گیا،میں استغاثہ کے مقدمے کی حمایت نہیں کرتا، میں نے منشیات کی کوئی برآمدگی نہیں دیکھی۔جس پر عدالت نے رانا ثناء اللہ کو اس مقدمہ میں باعزت بری کر دیا۔
پی ٹی آئی دور حکومت میں خود وزیراعظم عمران خان اور ان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر کی فراہم کردہ اطلاعات کی بنیاد پر برطانوی اخبار ڈیلی میل
نے خبر شائع کی تھی کہ موجودہ وزیراعظم اور سابقہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے برطانیہ سے ملنے والی پاکستانی سیلاب زدگان کیلئے امداد کی رقم خود ہڑپ کر لی، جس پر برطانوی عدالت میں مقدمہ ہارنے کے بعد مذکورہ برطانوی اخبار نے وزیراعظم شہباز شریف کے بارے میں اس خبر کی اشاعت پر معافی مانگ لی۔ جس پر کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق پاکستان تحریک انصاف اسے مک مکا قرار دے رہی ہے، حالانکہ خود شہباز شریف نے دو سال قبل ڈیلی میل کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں انہیں بے گناہ قرار دیا گیا تھا۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل نے اپنی ویب سائٹ پر خبر شائع کی جس میں انہوں نے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ شہباز شریف پر نیب یا برطانوی ادارے ڈی ایف آئی ڈی نے کبھی برطانوی فنڈز کی خرد برد کیلئے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا۔ شہباز شریف نے بیان میں کہا کہ انہوں نے بے بنیاد الزامات لگا کر میرا اور میرے خاندان کا مذاق اڑایا لیکن مجھے اللہ پر یقینِ کامل تھا۔ انہوں نے ٹویٹر پر لکھا کہ فیک نیوز کی عمر مختصر ہوتی ہے، این سی اے کے بعد ڈیلی میل کی خبر نے یہ بات ثابت کر دی ہے۔ دوسرے لفظوں میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ڈیلی میل کے ذریعے شہبازشریف کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ ثابت ہوا کہ وزیراعظم کا اختیار جھوٹ پھیلانے کیلئے استعمال ہوا تھا کیونکہ اس خبر کے پیچھے عمران خان کا ہاتھ تھا اور یہ کہ ڈیلی میل کی سٹوری کے ماسٹر مائنڈ عمران خان تھے۔
ڈیلی میل نے 14 جولائی 2019 کو جو خبر شائع کی تھی اس کا عنوان تھا۔’’کیا پاکستانی سیاست دان جو بیرونِ ملک پاکستانیوں کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں، کے خاندان نے زلزلے کے متاثرین کیلئے دی جانے والی امداد چوری کی؟‘‘یہ خبر ڈیلی میل کے صحافی ڈیوڈ روز نے لکھی تھی اور اس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہباز شریف نے 2005 کے زلزلے کے بعد برطانیہ کے ادارے ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ سے ملنے والے امدادی رقم خورد برد کی تھی۔ تحقیقات میں پتا چلا ہے کہ برطانیہ کی جانب سے پاکستان میں آنے والے زلزلے کے متاثرین کیلئے 500 پاؤنڈ سے زائد کی رقم بطور امداد فراہم کی گئی اور یہ امداد ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ، جو کہ برطانیہ کا سرکاری ادارہ ہے، کے ذریعے دی گئی۔ ڈیوڈ روز کے مطابق اس امدادی رقم سے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے دس لاکھ پاؤنڈ کی رقم اپنے فرنٹ مین پاکستانی نژاد برطانوی شہری آفتاب محمود کو منی لانڈرنگ کے ذریعے بھجوائی اور انہوں نے یہ رقم شہباز شریف کی فیملی کو فراہم کر دی۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ شہباز شریف اور ان کے خاندان نے برطانوی شہریوں کے ٹیکسوں سے دی گئی امدادی رقم میں غبن کیا، بعد میں ڈی ایف آئی ڈی کے ترجمان اور شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز نے اس خبر کی تردید کر دی۔ ڈی ایف آئی ڈی کے ترجمان کی جانب سے آفیشل ویب سائٹ پر اس خبر کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دے کر مسترد کر دیا گیا، جب کہ شہباز شریف نے جنوری 2020 میں لندن کی رائل کورٹ آف جسٹس میں ڈیلی میل اور اس کے رپورٹر ڈیوڈ روز کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا تھا۔ ڈیوڈ روز برطانوی صحافی ہیں جو ڈیلی میل کے علاوہ دوسرے مشہور اخباروں کیلئے بھی لکھتے رہے ہیں جن میں وینٹی فیئر اور گارڈین بھی شامل ہیں۔ ڈیوڈ روز کی شائع کردہ خبروں کے خلاف متعدد مقدمات قائم ہو چکے ہیں۔ 63 سالہ روز تحقیقاتی صحافی ہیں اور انہیں 2013 میں یوکے پریس گزٹ کی جانب سے برطانیہ کے چوٹی کے دس تحقیقاتی صحافیوں میں سے قرار دیا گیا تھا۔ ڈیوڈ روز پہلے بھی تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ 2016 میں انہوں نے ساشا واس کے خلاف خبر دی تھی جس کے بعد عدالت نے ان پر اور اخبار ڈیلی میل پر جرمانہ عائد کیا تھا۔ اس کے علاوہ 2017 میں انہوں نے پاکستانی نژاد برطانوی ٹیکسی ڈرائیور واجد اقبال کے خلاف خبر دی تھی کہ وہ بچوں کو سیکس کیلئے استعمال کرنے کا دھندا چلا رہے ہیں مگر جب واجد اقبال نے ان پر کیس کیا تو ڈیلی میل نے عدالت سے باہر تصفیہ کر لیا تھا۔ڈیوڈ روز ماحولیاتی تبدیلی کے بھی قائل نہیں اور اس سلسلے میں انہیں برطانیہ کے قومی موسمیاتی ادارے کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جبکہ ڈیلی میل برطانیہ کا قدیم اخبار ہے جو 1896 میں لندن سے شائع ہونا شروع ہوا تھا۔ اسے ٹیبلوئڈ اخبار کہا جاتا ہے۔ برطانیہ میں اخباروں کی دو بڑی اقسام ہیں، جن میں براڈ شیٹ اور ٹیبلوئڈ شامل ہیں۔ براڈ شیٹ اخباروں کو نسبتاً سنجیدہ اور مدبر اخبار سمجھا جاتا ہے اور یہ بڑے سائز میں چھپتے ہیں، جبکہ ٹیبلوئڈ کا سائز چھوٹا ہوتا ہے اور یہ عام طور پر سنسنی خیز خبروں، سکینڈلوں اور مشاہیر کے بارے میں افواہوں پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ اپنی اسی شکار کرنے کی عادت کے تحت ڈیلی میل نے شہباز شریف کے خلاف خبر لگادی جبکہ خبر دینے والے اس وقت کے وزیراعظم پاکستان نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ اس سے پاکستان کی شہرت کو کتنا نقصان پہنچے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button