ColumnZameer Afaqi

کیا یہ کتاب کی آخری صدی ہے ؟ .. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

دنیا میں انسانی ذہن پر نقش صرف لکھے ہوئے الفاظ ہوتے ہیں جو انسانی ذہنوں کو بھی تبدیل کرتے ہیں اور معاشرے کو بھی۔ ایک زمانہ تھا کہ ملک بھر میں پبلک لائبریریوں کی تعداد زیادہ تھی اور لوگ لائبریریوں اور ریڈنگ رومز میں بیٹھ کر مطالعہ کرتے تھے، لیکن اب لائبریریوںکے ساتھ کتابوں کی دکانیں بند ہوتی جارہی ہیں اور ہوٹلز اور دیگر کھانے پینے کی اشیا کی دکانیں کھلتی جارہی ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمیں کتابیں پڑھنے سے زیادہ پیٹ کی فکر لاحق ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں فی کس اوسطاً صرف 6 پیسے سالانہ کتاب کیلئے خرچ کیے جاتے ہیں۔
جب ہمارے ہاں تواتر سے ایسا لکھا بولا اور بتایا جا رہا ہو کہ معاشرے میں کتب بینی کے رجحان میں کمی کی اہم وجہ جدید ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا رجحان ہے،یہ کتاب کی آخری صدی ہے اس کے بعد دنیا میں کتاب نہیں ہوگی، ساری دنیا ای بکس پرمنتقل ہو جائے گی، لیکن یہ صرف مفروضے ہیں کہ کتابی صنعت ڈوب رہی یا تباہ ہو رہی ہے۔ یہ بھی ایک مفروضہ ہی ہے کہ لوگوں نے ڈیجیٹل اور ای بک کے باعث روایتی کتابیں خریدنا اور پڑھنا چھوڑ دی ہیں۔ ایسی کوئی بات دراصل ہے ہی نہیں بلکہ یہ صنعت ترقی کر رہی ہے، کیونکہ لوگ کتابیں لکھ رہے ہیں اور نہ صرف یہ کتابیں چھپ رہی ہیں بلکہ دھڑا دھڑ بک بھی رہی ہیں۔
گو کہ پاکستان کی بْک انڈسٹری سے متعلق بین الاقوامی اعداد و شمار کے لحاظ سے ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ جنوب ایشیائی ملک میں کسی بھی کتاب کے ایک ایڈیشن کا اوسط حجم ایک ہزار سے لے کر دو ہزار کاپیوں تک ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کتابوں کی مقابلتاً کم فروخت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں شائع ہونے والی اکثر کتابیں درسی کتب، شاعری، کھانا پکانے، سیاست، بچوں یا پھر مذہب سے متعلق ہوتی ہیں لیکن کتاب کی فروخت پبلشنگ اور پڑھنے کے حوالے سے دنیا کے دیگر ممالک کا رویہ بھی ہمارے جیسا ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں ہر سال قریباً تین لاکھ سے زیادہ کتابیں لکھی جاتی ہیں اور ملین میں ان کا ایک ایک ایڈیشن شائع ہوتا ہے۔ انڈیا میں قریباً 83 ہزار کتابیں لکھی جاتی ہیںاور چند سال پہلے کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں قریباً 45 ہزار کتابیں چھاپی گئیں۔ترقی یافتہ ممالک میں اخبار اور کتابیں خریدنے اور ان کو پڑھنے کی شرح ترقی پزیر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اگر لوگ پڑھ نہیں سکتے توجو پڑھ سکتے ہیں وہ ان کو پڑھ کر سنا تے ہیں، اب تو جدید ٹیکنالوجی نے اور بھی آسان کر دیا ہے، کمپیوٹر آپ کو کتاب پڑھ کر سناتا ہے کتاب لوگوں کا اوڑھنا بچھونا ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں اس کے برعکس ہے ہمارے فاسٹ فوڈ آباد ہیں ہم برگر کھلانا سٹیٹس سمجھتے ہیں لیکن اپنے بچوں کو یا خود کتاب خریدنا معیوب سمجھتے ہیں اسی لیے ہمارے ہسپتال بھی آباد ہیں اور میڈیکل سٹور پر بھی رش ختم نہیں ہوتا۔ہمارے سکول لائبریریوں سے محروم ہیں جبکہ ہمارے گھروں سے کتابوں کی الماریاں غائب ہو چکی ہیں اور پھرہم شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ برباد کیوں ہے ہمارے بچے بد تمیز اور بد تہذیب کیوں ہیں ، ہم ترقی کیوں نہیں کرتے۔ہمارے ہاں اب کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے کچھ بہتری کے آثار نظر آنے شروع ہوئے ہیں اس کی ایک وجہ تو دنیا کے مشہور و معروف ادیبوں کے تراجم کے ساتھ نئے لکھنے والے میدان میں آرہے ہیں،اس کے ساتھ ہی کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے اگر کسی صاحب اختیار کی کوئی کتاب جب شائع ہوتی ہے تو اسے کافی پزیرائی ملتی ہے
ایک چینی کہاوتہے کہ جب آدمی 10 کتابیں پڑھتا ہے تووہ 10 ہزار میل کا سفر کرلیتا ہے۔
گورچ فوک کہتے ہیں کہ اچھی کتابیں وہ نہیں جو ہماری بھوک کو ختم کردیں بلکہ اچھی کتابیں وہ ہیں جو ہماری بھوک بڑھائیں۔ زندگی کو جاننے کی بھوک۔
ائولس گیلیوس کہتے ہیںکہ کتابیں خاموش استاد ہیں۔
فرانس کافکاکہتے ہیں کہ ایک کمرہ بغیر کتاب کے ایسا ہی ہے جیسے ایک جسم بغیر روح کے۔
گوئٹے :کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ نہیں معلوم ہے کہ مطالعہ سیکھنا کتنا مشکل اور وقت طلب کام ہے، میں نے اپنے 80 سال لگا دیے لیکن پھر بھی یہ نہیں کہہ سکتا ہوں کہ میں صحیح سمت کی جانب ہوں۔
نووالیس کہتے ہیں کہ کتابوں سے بھری لائبریری ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہم ماضی اور حال کے دیوتاؤں سے آزادی کے ساتھ گفتگو کرسکتے ہیں۔
یہاںسوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جدید ٹیکنالوجی نے ہر کام آسان کر دیا ہے ، ہم ہزارں لاکھوں کتابوں کا ذخیرہ اپنے موبائل لیپ ٹاپ میں رکھ سکتے ہیں ان کو کھولنا، سرچ کرنا اور اپنے مطلوبہ مواد تک پہنچنا نہایت ہی آسان ہو چکا ہے تو پھرلائبریری کی ضرورت کیوں؟تو یاد رہے کہ تعلیم و تعلم کیلئے جہاں کتاب استاد اور تعلیمی ادارے کی سخت ضرورت ہے وہیں لائبریری کا ہونا بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کی ٹیکنالوجی تک پہنچ ہم سے زیادہ ہے مگر اْن کے ہاں ابھی بھی پبلک لائبریریز کھْلی رہتی ہیں، کیونکہ ٹیبلٹ یا موبائل سے پڑھنے کی نسبت کتاب سے پڑھی گئی تحریر جلد سمجھ آ جاتی ہے اور یاد بھی رہتی ہے۔
لائبریری کا ایک سب سے اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ ہر طالب علم ہر کتاب کو نہیں خرید سکتا، مگر لائبریری میں اْنہیں کئی بہترین کتابیں دستیاب ہوتی ہیں۔ لائبریری صرف کتابیں یا کتب بینی کیلئے ایک ماحول مہیانہیں کرتی بلکہ یہ معاشرے کا وہ حصہ ہے جہاں باقاعدہ ذہن کی نشوونما ہو رہی ہوتی ہے۔ یہیں پر طلبا اپنی سوچ کے مطابق دوسرے ا فراد سے ملتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ معلومات بانٹتے ہیں، کتابوں کے اوپر اپنی رائے پیش کرتے ہیں، تجزیے کرتے ہیں، جس سے ان کی معلومات میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
آج کے طلبا و طالبات اور نوجوان طبقہ کتابیں پڑھنے کی بجائے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اپنا قیمتی وقت ضائع کررہا ہے وہ شاید نہیں جانتا کہ وہ وقت کو نہیں خود کو ضائع کر رہا ہے۔ کتب بینی کے فروغ کیلئے ضروری ہے کہ سکول کی سطح پر بچوں میں کتابیں پڑھنے کے شوق پر توجہ دی جائے ، جب تک ہر محلے کی سطح پر عوامی کتب خانوں کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا اس وقت تک کتب بینی کا فروغ مشکل ہے۔ یہ کام صرف حکومت کا نہیں بلکہ لوگوں، سیاسی جماعتوں اور دیگر تنظیموں کو مل کر اس کیلئے سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button