Ali HassanColumn

سر چھپانے کے خیمے پائوں میں .. علی حسن

علی حسن

 

ارے یہ تو سر کے اوپر ہوتا ہے، یہاں پائوں میں ہے۔ کیا ہوا ہے۔ یہ تو بہت حیران کن، افسوس ناک اور تکلیف دہ بات ہے۔جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے کنونشن میں خیموں کو قالین کی جگہ زمین پر بچھایا گیا تھا، جس پر کرسیاں رکھی ہوئی تھیں جن پر لوگ جوتوں سمیت بیٹھے ہوئے تھے۔ ان خیموں پر یونائٹیڈ نیشن ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی مہر لگی ہوئی تھی۔ یو این ایچ سی آر نے یقیناً یہ خیمے پاکستان میں گزشتہ اگست کے مہینے میں آنے والے سیلاب اور بارشوں بھیجے ہوں گے تاکہ متاثرین ان خیموں میں سر چھپا سکیں۔ بلوچستان میں خطر ناک سیلاب اور بارشوں نے تباہی پھیلائی تھی۔ سینکڑوں لوگ سیلابی ریلوں میں بہہ گئے تھے ۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔ ان کے کچے پکے گھر بہہ گئے تھے۔ ان کے سروں سے ان کی چھت چھن گئی تھی۔ وہ کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے ۔ سردی بھی پناہ کی تھی۔ دنیا متاثرین کی مدد کرنے پر کمر بستہ تھی لیکن خود پاکستانی ذمہ داران جن میں سیاسی رہنماء اور افسران شامل تھے، گہری غنودگی میں مبتلا تھے۔ جب یو این ایچ سے حکام نے ان کے خیموں کا غیر ذمہ دارانہ استعمال دیکھا ہوگا تو سر پیٹ لیا ہوگا کہ خیمے دیئے کس لیے گئے تھے اور استعمال کس لیے ہو رہے ہیں۔ کیا بڑے افسران یا حکمرانوں نے نہیں دیکھا ہوگا۔ کیا انہوں نے کسی سے پوچھا ہوگا کہ یہ کیا ہوا ہے؟ پاکستانی حکمران طبقہ بتائے تو سہی کہ انہوں نے متاثرین کی امداد کیلئے کتنی کتنی رقم امداد میں دی ہے۔ عمران خان اور ان کی کابینہ کے افراد، شہباز شریف کی کابینہ کے لوگ، تمام صوبائی حکومتوں میں اقتدار پر براجمان لوگ بتائیں کہ انہوں نے اپنی جیبوں سے کیا امداد کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے متاثرین کی مدد کیلئے کیا دیا ہے؟آئندہ کوئی عالمی ادارہ ہمیں کسی آفت میں کیوں امداد دے گا ؟کبھی یہ لوگ سیلاب متاثرین کے پیسے غبن کر لیتے ہیں، کبھی مشل اوبامہ کی دی امدادی رقم سرجریوں میں خرچ کر دی جاتی ہے، کبھی اردگان کی اہلیہ کا قیمتی ہار ڈکار جاتے ہیں اور کبھی سیلاب سے بے گھر ہوئے مساکین کو ملنے والے امدادی خیموں سے اپنے جلسے سجائے جاتے ہیں ۔ جب احساس ہی ختم ہو جائے تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔
ویسے بھی ماضی میں سیلابوں، بارشوں ، زلزلہ وغیرہ کے دوران پاکستان آنے والی امداد کا حالیہ سیلاب اور بارش میں آنے والے امدادی سامان کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تومحسوس ہوگا کہ دنیا نے ماضی کے مقابلہ میں اس مرتبہ برائے نام امدادی سامان بھیجا ہے اور اسی طرح امدادی رقم بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر دی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے دورے میں انہوں نے نقصانات کا جائزہ لیا لیکن اقوام عالم نے وہ ہمدردی نہیں دکھائی جس کی ہمیں ضرورت تھی۔ ایسا کیوں ہوا ہوگا، کیا دنیا ہمارے حکمران طبقہ کے رویہ سے مایوسی کا اظہار کر رہی ہے یا اسے ہم پر اعتماد نہیں ہے۔ ویسے بھی ماضی میں جو کچھ ہوا ہے اس کی روشنی میں تو ایسا ہی لگتا ہے کہ اعتماد کا شدید فقدان ہے ۔ دنیا ہم پر یقین کرنے پر تیار نہیں اور کیوں تیار ہو۔ ان کے دیئے ہوئے خیموں کی جو ’’ قدر‘‘ ہم نے کی ہے۔ ضرورت مند دھکے کھاتے رہے۔ ہاتھ پھیلاتے رہے کہ انہیں کوئی خیمہ مل جائے، لیکن علاقے کے منتخب نمائندوں، سرکاری افسران نے کوئی دھیان ہی نہ دیا۔ ان کا احساس زیاں ہی جاتا رہا۔ امدادی سامان کی مقدار اور تعداد کو دیکھ کر بھی ہمیں احساس نہیں ہوتا ہے کہ دنیا نے ہماری مدد کرنے سے کئی وجہ سے منہ موڑ لیا ہے۔ وجہ ہم خود بھی سمجھتے ہیں۔ ہمیں بچہ نہیں بننا چاہیے۔ انجیلینا جولی نے حالیہ دورے کے بارے میں جو رپورٹ لکھی ہے اس میں انہوں نے تباہ کاریوں کو تاریخی قرار دیا ہے۔ اپنی رپورٹ میں ہمارے بارے میں جو کچھ لکھا ہوگا وہ ہمیں سمجھنا چاہیے۔انہوں نے 2010 والے سیلاب کے دوران اپنے دورے کے تاثرات میں لکھا تھا کہ اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کی فیملی کس طرح ان کے ساتھ تصاویر بنوانے کیلئے بے چین تھے۔ ان تک پہنچنے کیلئے سرکاری جہاز اور وسائل استعمال کیا گیا تھا حالانکہ اس وقت متاثرین کو وسائل کی زیادہ ضرورت تھی۔
ہمارے حکمرانوں اور سیاست کرنے والے لوگوں کے معاملات ہی مختلف ہیں۔ جب زلزلہ آیا تو مانسہرہ میں اس وقت کے ضلع ناظم کے مکان کی وہ دیوار ٹوٹ گئی تھی جس میں امدادی ترپالیں رکھے ہوئے تھے۔ ان کا پردہ ہی اٹھ گیا تھا۔ باہر سڑک سے وہ ترپالیں نظر آ رہی تھیں۔ یہ ترپالیں زلزلہ سے قبل آنے والی بارشوں میں آئے تھے جو ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے کی بجائے اس وقت کے ناظم نے اپنے گھر میں جمع کر لیے تھے۔ سندھ میں ضلع گھوٹکی کے سابق رکن قومی اسمبلی میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو نے بتایا تھا کہ 2010 میں سیلاب کے متاثرین کیلئے صوبائی حکومت نے متاثرین کی امداد کیلئے گندم کا آٹا بھیجا تھا جو اس وقت کے صوبائی وزیر نے اپنے ذاتی گودام میں رکھ لیا تھا۔ جب آٹے میں کیڑے پڑ گئے تو اس آٹے کو نہر میں بہادیا۔ کیسے سخت دل ہیں ہمارے سیاسی رہنما۔
عجیب معاملہ ہے۔ بااثر افراد کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور ان کی نیت ہے جو بھرتی ہی نہیں۔ عمران خان تنقید کا شکار ہیں کہ تحفہ میں ملی ہوئی گھڑی بازار میں فروخت کردی۔ انہیں ایسا کیوں کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے تو برسراقتدار آتے ہی وزیر اعظم ہائوس کی بھینسوں کو نیلام کر دیا تھا۔ سرکاری گاڑیوں کو نیلام کر دیا تھا۔ گھڑی کو نیلام کیوں نہیں کیا گیا۔ سارے ہی حکمرانوں نے غیر ممالک کے دوروں کے موقع پر ملے ہوئے تحائف کے ساتھ لوٹ مار کا سلوک کیا ہے۔ انہیں تو علم ہی نہیں ہوگا کہ بیت المال میں آئی ہوئے تحائف کے بارے میں خلفائے راشدین اور اکابرین کس انداز میں نہایت احتیاط برتتے تھے۔ ہمارے حکمرانوں کی طرح نہیں ہوتا کہ اپنے اپنے گھر لیے گئے۔ ایک وزیر اعظم شوکت عزیز تو موزے تک لے گئے۔ نواز شریف مہنگی کاریں کوڑیوں میں لے گئے۔پر ویز مشرف نے بھی خوب ہاتھ صاف کئے۔ بد نیت حکمرانوں نے ایسا کیوں نہیں کیا کہ ان تحائف کو نیلام عام کر دیا جاتا۔ اس سے ہونے والی آمدنی معذور بچوں کے اداروں یا خواتین کی بھلائی کے اداروں کو پیش کر دی جاتی۔ حکومت کو چاہیے کہ قانون بنادے کہ غیر ملکی تحائف خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے، نیلام عام کئے جائیں گے اور کسی بھی حکمران کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ تحائف کو اپنے گھر لے جائے ، بے شک وہ خزانہ میں اس کی کوڑیوں جیسی قیمت ہی کیوں نہ ادا کرے۔ یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ تحائف جو قومی ملکیت ہوتے ہیں، وہ اپنے ساتھ لے جائیں۔ اس ملک کے حکمرانوں کو بہت سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ انہیں ہر ہر سطح پر اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہوگی۔ پانی سر سے اونچا ہو گیا تو سب کچھ بہہ جائے گا۔ شاعرہ نوشی گیلانی نے خوب کہا ہے
تیری گفتار پر حیرت، ترے کردار پر خاک
قاضی عصر، ترے عدل کے دربار پہ خاک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button