سیاسیات

جنھیں محکوم ہونا چاہیے تھا وہ آقا ہیں، مولانا فضل الرحمان

پاکستان کی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جو نتائج ہمیں مرتب کر کے دے، یہاں (پارلیمنٹ میں) بیٹھنے کے لیے جو نام مرتب کر کے دے اس پر کب تک سمجھوتہ کرتے رہیں گے، ہم نے ہر معاملے پر سمجھوتے کیے اور جو ہمارے محکوم ہونے چاہیے تھے وہ ہمارے آقا بن گئے ہیں۔ کب تک ان سے بھیک مانگتے رہے گے۔

پیر کو سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت جاری قومی اسمبلی کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمٰن نے خطاب کرتے ہوئے سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عوامی پارلیمنٹ ہے یا اسٹیبلشمنٹ کی ترتیب دی ہوئی پارلیمنٹ ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ حکومت میں موجود جماعتوں کے سینئر لوگ مینڈیٹ پر سوال اٹھا رہے ہیں، ہم نے سودے کیے اور جمہوریت بیچ دی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پاکستان ایک غیر محفوظ ریاست ہے۔‘

انھوں نے الیکشن کی شفافیت پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ مجھے سنہ 2018 کے الیکشن کے نتائج پر اعتراض تھا اور اب بھی اعتراض ہے۔ سیاست دان معلومات کی بنیاد پر بات کرتے ہیں اور اس بار اسمبلیاں بیچی اور خریدی گئی ہیں۔ کیسے یہ ایوان عوامی نمائندوں کا ایوان کہلائے گا؟ کیا آپ لاہور کے نتائج سے مطمئن ہیں؟۔

انھوں نے کہا کہ اس ملک کی آزادی میں نہ بیوروکریسی اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے لیکن جمہوریت آج کہا کھڑی ہے، ہم آج اس لیے کمزور ہیں کیونکہ ہم نے ہر معاملے پر سمجھوتا کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا ہم اس ایوان میں ایک قانون پاس کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ انھوں نے کہا کہ پس پردہ جو قوتیں ہمیں کنٹرول کرتی ہیں فیصلے وہ کریں اور عوام ہمیں ذمہ دار ٹھہرائیں، ہم آج دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے بھیک مانگ رہے ہیں اور اس کا ذمہ دار کون ہے، ذمہ دار سیاست دان کو قرار دیا جاتا ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کے احتجاج کے سیاسی و آئینی مطالبے کو درست سمجھتا ہو۔ انھوں نے کہا کہ میں آج بھی ہمدردری کی بنیاد پر میاں نواز شریف، شہباز شریف بلاول بھٹو سے یہ کہتا ہوں کہ آپ عوامی لوگ ہیں، چلیں اکھٹیں عوام میں جاتے ہیں، چھوڑو اس اقتدار کو، آئیں، ادھر بیٹھیں، اور اگر واقعی اکثریتی جماعت پی ٹی آئی ہے تو ان کو حکومت دے دو لیکن شاید میری بات احمقوں والی سی لگ رہی ہو گی کہ کیا کہہ رہا ہوں، آج بھی وقت ہے سنبھلنے کا، لیکن ہم سنبھلنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ہم نوکری کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عزم کر رکھا ہے کہ اس غلامی کے خلاف جنگ لڑیں گے، میدان عمل میں آکر جنگ لڑیں گے ، عوام میں جا کر لڑیں گے، آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر لڑیں گے اور ملک کو اس غلامی سے نجات دلائیں گے، ہم پر یا توعالمی قوتیں حکومت کر رہی ہیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ حکومت کر رہی ہے، یہ نظام ہمیں قبول نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button