Editorial

نتیجہ خیز مذاکرات کا آغاز کیاجائے

 

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان حقیقی آزادی مارچ کی قیادت کررہے ہیں، جمعہ کے روز شروع ہونے والے مارچ کا آج تیسرا دن ہے، پہلے دن تو لاہور میں ہی پڑائو ڈالا گیااور گذشتہ روز شاہدرہ سے مارچ کا آغاز کیا۔ جس رفتار سے مارچ اسلام آباد کی طرف گامزن ہے اور درمیان میں پڑائو ڈالے جانے ہیں اِن سے بخوبی تصور کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان زیادہ سے زیادہ وقت سڑکوں پر رہ کر اپنے مطالبے کی منظوری کے لیے وقت دے رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وفاقی وزرا نے عمران خان سے مذاکرات کے تاثر کو یکسر مسترد کردیا ہے اور وفاقی وزیراطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے اِس تاثر کی نفی سخت بیان کے ذریعے کی ہے۔ دوسری طرف سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے حکومت کو مذاکرات کی مشروط پیش کش کی ہے اور شرط انتخابات کا اعلان ہے۔ تاہم وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی جو پی ٹی آئی کے اتحادی بھی ہیں، انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ عمران خان وہاں بات کریں گے جہاں بات طے ہونی ہے۔ پس نظر آرہا ہے کہ حکومت اگر وزرا پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے بھی دیتی ہے تو عمران خان اُن سے مذاکرات نہیں کریں گے اور اُن کا واحد مطالبہ ویسے ہی حکومت کو قبول نہیں ہے۔ پس چودھری پرویز الٰہی کی متذکرہ گفتگو کو سامنے رکھا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ عمران خان سڑکوں پر تاوقت موجود رہیں گے جب تک اُن کاانتخابات کی تاریخ سے متعلق مطالبہ منظور نہیں کرلیا جاتا یہی نہیں عمران خان یقین دہانی سے زیادہ بااثر شخصیات کی بھی اُس یقین دہانی پر ضمانت چاہتے ہیں۔ دوسری طرف اتحادی حکومت متفق ہے کہ قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور اِس ضمن میں کسی دبائو کا شکار نہیں ہوا جائے گا اور وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف خود بھی چند روز قبل واضح طور پر یہ بات کہہ چکے ہیںکہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔حزب اقتدار اور حزب اختلاف اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں ایک طرف پیش قدمی ہورہی ہے تو دوسری طرف اسی تناظر میں اپنا دفاع مضبوط کیا جارہا ہے ، یوں صورتحال جوں کی توں برقرار رہنے میں کوئی شبہ نہیں ۔ عمران خان روزشہ سرخیوں میں جگہ پانے کا طریقہ بخوبی جانتے ہیں اِس لیے وہ اپنے بیانات کے ذریعے جگہ پارہے ہیں۔ وزیر داخلہ مارچ کے شرکا کو روکنے کے لیے اپنے ماتحت سکیورٹی اداروں کی تیاریوں سے مطمئن ہیں لیکن بلاشبہ عمران خان اِس بار پوری تیاری کے ساتھ اسلام آباد جانے کی حکمت عملی پر پیرا ہے اور دوسری طرف سے بھی پچیس مئی کے مارچ کو روکنے کے لیے کئے گئے انتظامات سے کہیں زیادہ انتظامات کئے گئے ہیں اوریقیناً شرکا کی تعداد اور مزاج کو مدنظر رکھ کر اِس میں ردوبدل بھی ہوگا اگر خدانخواستہ متفقہ طور پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جاتا تو اِس کے نتائج بلاشبہ پوری قوم کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے ، اور اِس خدشے کو لازماً مدنظر رکھا جائے کہ کوئی تیسری طاقت ہماری داخلی صورت حال کو بگاڑ کر اِس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی جیسا کہ ماضی میں ہوتا بھی آیا ہے، اِس لیے کسی کو طیش دلانے کی بجائے ملکی حالات کی نزاکت اور سنگینی کا ادراک ہمہ وقت مدنظر رہنا چاہیے کہ ہمارا پالا بیک وقت کتنے پاکستان دشمنوں سے ہے جو ہمارے سیاسی نفاق کا بروقت فائدہ اٹھانے کے لیے تیاررہتے ہیں۔ پچیس مئی کے لانگ مارچ کوروکنے کے لیے گھروں کی دیواریں پھلانگنے سے لیکر گاڑیاں توڑنے اور آنسو گیس اور لاٹھی چارج تک، ہم ان سبھی اقدامات کو ناپسند کرتے ہیں کہ احتجاج سبھی کا جمہوری حق ہے اور تاوقتیکہ کوئی اِس کے ذریعے ریاستی مقاصد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تب تک ایسا کیا جانا قطعی مناسب نہیں تھا اور اب پھر آنسو گیس کے گولے اور ربڑ کی گولیاں گن کر تعداد بتائی جارہی ہے جو میرے خیال میں مناسب نہیں مارچ کرنے والے بھی پاکستانی ہیں اور ان کا مارچ روکنے کے لیے تیار کھڑے بھی ریاستی اداروں کے ملازم لیکن پاکستانی ہیں اِس لیے ہر معاملے میں اُبال اور اشتعال سے گریز کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے یہی دانائی ہے، ہمارے نزدیک اِس وقت سنجیدہ سیاسی قیادت کو سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے فوری طور پر سامنے آنا چاہیے تاکہ حالات خرابی کی طرف نہ جائیں ۔ لانگ مارچ سے قبل بھی ہم سیاسی عدم استحکام کی بارہا نشاندہی کرتے رہے ہیں کیونکہ ہمارا مقصد سیاسی قیادت کویہ باور کرانا ہے کہ سیاسی عدم استحکام میں معاشی استحکام کبھی نہیں ہوتا بلکہ سبھی سیاست دان بخوبی جانتے ہیں جبھی وہ قومی سطح پر ملک کی قیادت کررہے ہیں، پس مزید انتظار اور انتشار کی بجائے فی الفور سیاسی معاملات کا سیاسی حل تلاش کرنا چاہیے کیونکہ داخلی طور پر ہم کم و بیش ہر معاملے پر انتشار کاشکار ہیں۔ ملکی معیشت کی صورت حال تسلی بخش نہیں۔ عوام مشکل ترین حالات سے گذر رہے ہیں اور جنہوں نے عوام کو آزمائش میں مبتلا کیا ہے وہ فی الحال انہیں نکالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کیونکہ معیشت اجازت نہیں دیتی۔ عوام میں پیدا ہونےوالے اِس تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی قیادت باہمی انتشار کے باعث اُن کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں بلکہ اُن کی ترجیحات درحقیقت اپنے مفادات ہوتے ہیں، لہٰذا ایک بار پھر عرض کرنا ضروری ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے فوری خاتمے کے لیے فوری اور سنجیدہ کوششیں کی جائیں اورآئندہ سیاسی اختلافات اِس نہج تک نہیں جائیں اِس کے لیے بھی اتفاق رائے ضروری ہے، عوام کا جمہوریت اور جمہوری اداروں پر بہرصورت اعتماد برقرار رہنا ہی سیاست دانوں کے مفاد میں ہے ، اِس لیے بدلتے حالات اور اِس کے تقاضوں کو ہمیشہ مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button