ColumnKashif Bashir Khan

مزاحمتی سیاست کا آغاز! ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

پاکستان کی سیاست میں جمعہ کے دن سے شدید ارتعاش آ چکا ہے اور میڈیا پر سخت ترین سنسر کے باوجود عمران خان نے جو لانگ مارچ لاہور سے شروع کیا اس نے عوام کی ناقابل یقین حد تک پرجوش شمولیت نے اقتدار کے ایوانوں اور مقتدر حلقوں میں پریشانی ڈال دی ہے اور حکومت جو پہلے ہی کمزور گراؤنڈ پر کھڑی ہے، کی حالت خراب ہی نظر آرہی ہے اور وفاقی وزیر داخلہ کابار بار میڈیا پر آ کر عمران خان کو للکارنا غماز ہے کہ حکومت کو دیوار پر لکھا نظر آنا شروع ہو چکا ہے۔احتجاج ہر سیاسی جماعت کا جمہوری حق ہے لیکن جس طریقے سے وفاقی حکومت کی جماعتیں اقلیت میں ہونے کے باوجود بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہوئے اقتدار میں آئے اور اس کے بعد بری طرح ناکام ہوتے ہوئے بیرونی آقاؤں کے حکم پر عوام کا معاشی قتل عام کیا گیا اس نے عوام میں شدید مایوسی اور غم و غصہ پیدا کر دیا جس کا فائدہ بہر حال عمران خان نے خوب اٹھایا۔میں آج بھی عمران خان کے ساڑھے تین سال کے دور حکومت کی تمام ناکامیوں کے باوجود اس بات پر قائم ہوں کہ وفاقی حکومت کی تمام تر انتقامی کارروائیوں اور مقدمات درج کروانے کے باوجود عمران خان کے خلاف کوئی کرپشن نہیں مل سکی کہ وہ کرپٹ ہے ہی نہیں۔عوام کا جوک در جوک عمران خان کے ساتھ دشوار گزار لانگ مارچ میں نکلنا پاکستان کی مستقبل قریب کی سیاست کے رخ کا تعین کرتا دکھائی دے رہا ہے۔لانگ مارچ سے ایک دن قبل عسکری ادارے کے ارباب اختیار کی ناقابل مثال پریس کانفرنس نے بھی عوام کو موجودہ نظام کے خلاف باہر نکل کر احتجاج کرنے کی تحریک دی اور عوام کو اب مکمل یقین ہو چکاہے کہ اس نظام کے تمام ہی ارباب اختیار کا عمران خان جو اب نظام بدلنے کی بات کررہا ہے، کے خلاف گٹھ جوڑ ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اپریل میں بظاہر تحریک عدم اعتماد لیکن حقیقت میں رجیم چینج کے تحت ختم کی جانے والی کارروائی نے عوام کو جتنا سیاسی شعور دیا ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کی مقبول ترین حکومت ختم کرنے نے بھی نہیں دیاتھا۔ارباب اختیار کو جانے کیوں اس حقیقت کا ادراک نہیں ہو پا رہا کہ عوام نے موجودہ مرکزی حکومت کو پہلے دن سے قبول ہی نہیں کیا اور عوام کی اکثریت کا خیال بلکہ یقین ہے کہ ماضی میں پاکستان کے وسائل کو لوٹنے والے قریباً تمام سیاستدانوں کو ان کے سروں پر بٹھانے میں امریکہ اور ارباب اختیار برابر کے شریک ہیں۔ گو میرے پاس عسکری قوت کے اس بیانیہ کی نفی کی گنجائش نہیں کہ پاک فوج پاکستان کے سیاسی معاملات میں بالکل نیوٹرل ہے لیکن ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی وغیرہ کے اراکین کے بیانات اور ان کی سیاسی قلابازیاں دنیا کے سب سے طاقتور اور ماہر ادارے کے اس بیانئے کو نقصان پہنچاتے نظر آتے ہیں۔پاکستان آرمی اور اس کے ذیلی اداروں کو جتنی عزت و احترام پاکستان کے عوام دیتے ہیں اس کا اندازہ دنیا بھر کو ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے سب سے طاقتور ادارے آئی ایس آئی کے چیف کا پریس کانفرنس میں شرکت کرنا اور پھر ایک سیاسی جماعت کے بارے بات کرنے، نے عوام میں مداخلت اور سازش کی تھیوری بارے شکوک کو مزید پختہ کر ڈالا۔اس پریس کانفرنس کے وقت پر بھی عوام
سوال اٹھا رہے ہیں کہ یہ اس وقت میں کی گئی جب صحافی ارشد شریف کا جنازہ اٹھایا جا رہا تھا اور اسلام آباد میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر قوم کے اس سپوت کی میت کو کندھا دینے کیلئے گھروں سے باہر تھا۔ آئی ایس پی آر فوج کا ترجمان ہے لیکن اس پریس کانفرنس میں جو جو صحافی جس قسم کے سوالات کر رہے تھے، اس نے بھی اس عظیم ادارے کی توقیر میں اضافہ نہیں کیا جس کا بہر حال مجھے بہت دکھ ہے کہ میں اپنی افواج کا مداح ہوں اور برسہا برس سے ففتھ جنریشن وار لڑتا چلا آرہا ہوں۔کاش کے اس پریس کانفرنس میں سرعام فوج کی متقدر شخصیات اور سپہ سالار اعظم کے خلاف موجودہ حکومت کے زعماء کے ماضی میںسرعام اول فول بکنے کے خلاف بھی کوئی پالیسی بیانیہ آتا تو یقین جانیے کہ عوام خوش ہوتی۔ عوام میں اکثریت کہتی پائی جا رہی ہے کہ اس پریس کانفرنس میں ویسے ہی سوال کرنے والے صحافی موجود تھے جیسے آج کل وفاقی وزراء کی پریس کانفرنسوں میں موجود ہوتے ہیں۔
اگر سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو عمران خان جوچاہتے تھے وہ اس میں کامیاب رہے ہیں اور عوام کو باور کروانے میں سو فیصد کامیاب ہو چکے ہیں کہ ان کو اقتدار سے الگ کرنے میں جو سازش کی گئی تھی اس کے زمہ دار تمام ہی حلقے تھے اور گزشتہ چھ ماہ میں عوام پر معاشی قتل عام کے جو پہاڑ شہباز شریف کی حکومت نےڈھائے اس نے عوام میں ان کے خلاف جو نفرت پیدا کی اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی اور مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ شہباز حکومت کی کابینہ میں موجود 60 فیصد وزراء کا ضمانتوں پر ہونا اور کرپشن کیسوں میں عدالتوں کو مطلوب ہونا پاکستان کے عوام کو ہضم نہیں ہوا اور عمران خان کی بہترین سیاسی حکمت عملی نے اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کو عوام میں جانے کے قابل نہیں چھوڑا(تمام ضمنی انتخابات مثال ہیں)۔پاک فوج بارہا کہہ چکی کہ وہ سیاست میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہتی تو پھر یہ سوچنا اور ڈھونڈنا دانشور طبقے اور سیاست دانوں کا کام ہے کہ جن پر ملکی دولت لوٹنے کے بڑے بڑے الزامات اور مقدمات تھے وہ مسند اقتدار پر کیسے بیٹھے؟ پاکستان کے تمام ہی ادارے اس وقت کرپشن سے زنگ آلود ہو چکے ہیں اور نظام مرمت نہیں مانگتا بلکہ تبدیلی مانگتا ہے۔نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے باہمی مفادات پر مبنی اٹھارویں ترمیم نے وفاق کو نہایت کمزور کیا ہے اور اس کی مثال سندھ میں عوام کی حالت زار اور حکمرانوں کی بدترین کرپشن ہے۔ریاست کے اندر چار ریاستیں اٹھارویں ترمیم نے ہی دی ہیں اور وفاق کو بے بس کر کے جانے پاکستان کے عوام کو کس جرم کی سزا دی گئی ہے۔عمران خان نے بہرحال اس سوئی ہوئی قوم میں جو مزاحمت پیدا کی وہ اس کیلئے قابل احترام ہیں اور ان کا اس قوم پر یہ بہت بڑا احسان اگلی آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی۔آج یقیناً اتحادی وزیر اعظم جنہیں عمران خان امپورٹڈ بھی کہتے ہیں سوچ رہے ہوں گے کہ عمران خان کی حکومت ختم کرنے کے بعد اگر انتخابات کا اعلان کر دیتے تو اچھا تھا لیکن سیاست میں ٹائمنگ بہت اہمیت رکھتی ہے ویسے بھی برسہابرس سے شہباز شریف کی وزارت اعظمی کی کرسی پر بیٹھنے کی خواہش تھی اور وزیر اعظم بن کر اسے چھوڑنا کسی کو بھی نہیں اچھا لگتا ۔لیکن اب شہباز شریف ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ’’ سب کچھ لٹا کے ہوش میں آے تو کیا ہوا‘‘ سننے میں آیا ہے کہ اب آصف علی زرداری نے شہباز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ اسمبلیاں توڑ دی جائیں۔
موجودہ ملکی صورتحال متقاضی ہے کہ وفاقی حکومت سمیت تمام مقتدر حلقے اور پاکستان کی عدلیہ باور کرے کہ عوام کی طاقت اور رائے کو جبر سے دبانے کے وقت اب لد چکے اور موجودہ اتحادی حکومت کے خلاف عوام کااب سڑکوں پر دکھائی دینا شروع ہو چکا۔ بادی النظر میں عمران خان کے ساتھ عوام کی بے پناہ طاقت ہے اور وہ کمزور وفاقی حکومت کو عوام کی طاقت سے روندتا دکھائی دے رہا ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے اور اسلام آباد پولیس وغیرہ کو استعمال کر کے جبر سے اس عوامی سیلاب کو روکنے کی باتوں کا وقت بھی اب گزر چکا۔دنیا صدام حسین کے آخری وزیر اطلاعات محمد سعید علی صحاف(کومیکل علی)کو آج بھی نہیں بھولی ہو گی جو عراق پر امریکہ کے حملے کے وقت روزانہ امریکہ کے خلاف سخت بیانات دیتے تھی کہ ہم امریکہ کی فوج کو تباہ کر دیں گے اور امریکی فوج کا قبرستان عراق میں بنے گالیکن جب امریکہ کی فوج عراق میں داخل ہوئی تو ایک سپاہی نے بھی مزاحمت نہیں دکھائی تھی اور پھر بعد میں محمد سعید علی صحاف نے امریکہ کے ساتھ ہاتھ ملا لیا تھا آج بھی وہ دبئی میں85 سال کی عمر میں سکون سے رہائش پذیر ہے، کچھ ایسا ہی حال وفاقی وزیر داخلہ کاہوتانظر آرہا ہے جو عوام کی طاقت کودرے مارنے اور عمران خان کوالٹا لٹکانے کے غیر اخلاقی بیانات دیتے نظر آتے ہیں۔پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں عقلمندی یہی ہے کہ وفاقی حکومت فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کر کے عوامی بیداری کے تحت مزاحمت پر تیار عوام سے ٹکراؤ کا بھیانک کھیل کھیلنے سے باز رہے کہ حکومت اقتصادی اور سفارتی سطح پر مکمل طور پر ناکام ہو چکی اتحادی جماعتوں کا سیاسی میدان بھی اجڑ چکااور عوام میں اس کی پزیرائی صفر ہے۔عوام کی منشا پر نہ چلنے کا نتیجہ رضا شاہ پہلوی جیسے طاقتور بادشاہ کے انجام جیسا بھی ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button