ColumnMazhar Ch

تھر کول توسیعی منصوبہ .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

 

چند روز قبل وزیراعظم شہباز شریف نے وزیراعلیٰ سندھ اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ تھرکول بلاک ٹوکے توسیعی منصوبے کا افتتاح کیا ، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ارباب اختیار کا ملک کے وسیع ترمفاد میں مل جل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار یاسیت اور ناامیدی کے ماحول میں ہواکے خوش گوار جھونکے کی طرح لگا۔ گزشتہ چند مہینوں میں ملکی سیاست کے’’طور واطوارــ‘‘ اور سیاسی رہنمائوں کی’’سیاست‘‘ کو دیکھتے ہوئے سیاست پر لکھنے سے دل اچاٹ سا ہو گیا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے قائدین میثاق جمہوریت، اٹھارویں ترمیم ، این ایف سی ایوارڈزاور تھرکول پراجیکٹ لانچ کرنے کی صورت میں مل کر کام کا عملی مظاہرہ کر تے رہے تھے لیکن سیاسی منظر نامے پر عمران خان جیسے نرگسیت زدہ سیاسی رہنما کے وارد ہونے سے سیاسی جماعتوں یا سیاسی رہنمائوں کا ملک کے وسیع تر مفاد میں پھر سے مل بیٹھ کر کام کرنا خواب ہی لگنے لگا تھا۔خوش آئند بات یہ ہے کہ 2018سے 2022 سال کے بعدملک کی حکمران سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنماپھر سے مل جل کر ملک کو درپیش مشکلات سے نکالتے ہوئے آگے کی سمت میں لے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ تھرکول پراجیکٹ کے حوالے سے حوصلہ افزا خبر یہ ملی ہے کہ وفاق اور سندھ حکومت نے تھرکول مائنز کو ریلوے لائن سے منسلک کرنے کا منصوبہ باہمی اشتراک سے 23 مارچ2023تک مکمل کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ تھر میں سنگل لائن ریل منصوبے کی تکمیل سے تھر کا کوئلہ ملک کے چاروں کونوں تک پہنچنا ممکن ہوگا اوراس کے نتیجے میں ملک بھر میں درآمدی کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کے علاوہ دیگر پیداواری یونٹس کو بھی مقامی کوئلے سے چلایا جاسکے گا۔ درآمدی کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس تھر کے کوئلے سے چلنے کی صورت میں ڈیڑھ ارب ڈالر جب کہ سیمنٹ کے کارخانے تھر کے کوئلے سے چلانے سے مزیددو ارب ڈالر کا زرمبادلہ بچایا جا سکے گا۔اسی طرح تھر کے کوئلے سے کھاد کی پیداوار کیلئے سائن گیس تیار کرنے کی صورت میںتین ارب ڈالر کا زرمبادلہ بچایا جا سکے گا۔اس کے علاوہ تھر کا کوئلہ اگر 70 میٹرک ٹن سالانہ کے حساب سے برآمد کیا جائے تو زرمبادلہ کی مد میں چار ارب ڈالر کا فائدہ حاصل کیا جا سکے گا۔واضح رہے کہ تھر کول پراجیکٹ پاکستان میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا سب سے بڑا اور مہنگا منصوبہ ہے۔سندھ اینگرو کول پراجیکٹ میں سندھ حکومت کے55فیصد جب کہ اینگرو کے شیئرز 45 فیصدہیں۔ تھر میں کوئلے کے مجموعی ذخائر 175 ارب ٹن ہیں جس سے 300سالوں تک سالانہ ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے ۔
تھر کول بلاک ٹو توسیعی منصوبے پر مزید بات کرنے سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ اگرچہ تھر کے
کوئلے سے پورے پاکستان کو روشن کرنے اور صنعت کے پہیے کو توانائی بخشنے کی بنیاد شہید جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو نے ڈالی تھی لیکن عملی طور پر اس منصوبے کا سنگ بنیاد وزیراعظم نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری نے جنوری 2014کو رکھا تھا۔ویسے توتھر پارکر میں کوئلے کے وسیع ذخائر کی موجودگی کا انکشاف 1992 میں امریکی کمپنی کے سروے میں ہی ہو گیا تھا لیکن فنڈز کی کمی اور کچھ دیگر اہم مسائل کی وجہ سے وسیع و عریض صحرائے تھر میں چھپے کھربوں ڈالر مالیت کے بہت بڑے ذخیرے کی کھدائی کا کام آنے والی دو دہائیوں میں بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور (2008)میں محدود پیمانے پر کم از کم دو بارتھر میں کول گیسی فیکشن کے منصوبے پر کام شروع ہوا لیکن انتظامی، سیاسی اور معاشی مشکلات کی وجہ سے یہ منصوبہ کامیابی سے ہم کنار نہ ہو سکا۔تھر میںوسیع پیمانے پر کوئلہ نکالنے اور پاور پلانٹ لگانے کے حالیہ منصوبے پر عملی کام کا آغاز 2015میں شروع ہوا اور2019میں 330 میگاواٹ کے دو پاور پلانٹس نے کام شروع کیا۔ 2022کے آخر تک تھرمیں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 2640 میگا واٹ تک پہنچ جائے گی جس سے قومی خزانہ کو دو ارب ڈالر کا فائدہ ہوگا۔ تھر کے کوئلے سے اب تک ساڑھے بارہ ہزار گیگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہوچکی ہے۔ سی پیک کے تحت تھر
میںاب تک ساڑھے سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ تھرکول سے بجلی کی پیداواری قیمت 17روپے کلوواٹ فی گھنٹہ بنتی ہے جب کہ ایل این جی سے بجلی کی پیداواری قیمت 24 روپے کلوواٹ فی گھنٹہ اور درآمدی کوئلے سے لاگت 37روپے کلو واٹ فی گھنٹہ پڑتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی ترقی کے حوالے سے سندھ کے سب سے پسماندہ ترین ضلع تھر میں اربوں ڈالر مالیت کے کوئلے کے ذخائر کی کھدائی اور پاور پلانٹس کی تعمیر سے مقامی آبادی کو روزگار کی سہولیات کی فراہمی کے علاوہ علاقے میں انفراسٹرکچر کے حوالے سے نمایاں پیش رفت ہو ئی ہے تاہم اس منصوبے کی تکمیل سے ماحولیاتی آلودگی بڑھنے کے خدشات موجود ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ انرجی کے بحران خاص طور پر مہنگی بجلی پیدا کرنے کے چیلنج سے نبردآزما پاکستان کیلئے یہ منصوبہ کئی لحاظ سے سستا اور مقامی و قومی ترقی کا حامل ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک ایسے وقت میں کوئلے سے سستی بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس دھڑا دھڑ لگا نے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جب دیگر ممالک نے کوئلے سے چلنے والے پاور پلا نٹس کے نتیجے میں ہونے والی شدیدآلودگی کے بھیانک اثرات کو دیکھتے ہوئے بتدریج کول پاور پلانٹس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔بھارت نے تقسیم کے فوری بعد 1948میں تھر پارکر کے ساتھ منسلک علاقے راجستھان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا کام شروع کر دیا تھا جبکہ ہم نے آزادی کے 70سال بعد تھر سے کوئلہ نکالنا شروع کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں ابھی بھی سب سے زیادہ بجلی (34 فیصد)کوئلے سے ہی پیدا کی جا رہی ہے لیکن آنے والی دو دہائیوں میں چین اور بھارت سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے رجحان میں نمایاں کمی جبکہ قابل تجدید (سولر، ونڈ، نیوکلیئر)ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی شرح میں اضافہ ہوتا جائیگا۔ ایک اندازے کے مطابق 2040میں عالمی سطح پر سب سے زیادہ بجلی (40 فیصد) قابل تجدید ذرائع سے حاصل ہو گی جس میں سب سے بڑا حصہ سولر انرجی کا ہوگا۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے شدید خدشے سے دوچار ہمارے ملک کیلئے دھڑا دھڑ لگائے جانے والے کول پاور پلانٹس اور صنعتوں کو کوئلے سے چلانے کے منصوبے سنجیدہ خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ہمیں تھر سے نکالے جانے والے زیادہ تر کوئلے کو برآمد کرنے کے آپشن پر جانا چاہیے جب کہ مستقبل کی توانائی کی ضروریات پورا کرنے کیلئے متبادل(قابل تجدید )ذرائع پر سرمایہ کاری بڑھانی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button