ColumnNasir Naqvi

انجانے راستے .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

کوئی نہیںجانتا کہ ملک میں سیاسی استحکام کب اور کیسے آئے گا ؟صوبے وفاق پر حملہ آورہونے کی تیاری کررہے ہیں اور وفاق اپنی رٹ کیلئے صوبوں کونتھ ڈالنے کی کوشش میں ہے، ستمبر نے کچھ ستم ڈھائے لیکن پھر بھی وہ ستمگر ثابت نہ ہوسکا، حکومت اور خان اعظم کی جانب سے بہت سی چالیں چلی گئیں۔پھر بھی واضح نتائج نہیں نکلے،اب اکتوبر کے خونخوار ہونے کی خبریں زبان زد عام ہیں لیکن محسوس یہ ہورہا ہے کہ سیاسی میدان کے کھلاڑی ابھی تک اناڑی ہیں انکا دعویٰ ہے کہ کسی کوچ کی ضرورت نہیں جبکہ سلیکٹرز بھی ان کی بدزبانی پر نیوٹرل ہوچکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ریاست اور مملکت کی بھلائی کیلئے ہر ممکن کردار ادا کیا تاہم سب کے سب اپنے اپنے مفادات میں انجانے راستوں کے مسافر بنے ہوئے ہیں۔اس لیے غیرجانبدار رہنے کا حتمی فیصلہ اٹل ہے۔سپہ سالارکو جابے جا تنقیدکے بعد یہ کہنا پڑا کہ کوئی بھول میں نہ رہے۔سیاسی اور معاشی کھلواڑ کی اجازت کسی کو نہیں ملے گی۔فیک نیوز پرکان نہ دھریں، صرف اور صرف مملکت کے استحکام ،ترقی اور عدم استحکام کی خواہش رکھنے والے اپنے ہوں کہ پرائے ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔پھر بھی پنجاب حکومت کوسمجھ نہیں آئی ۔وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی لندن میںمصروف رہنے کے بعد واپس آگئے اور ان کے وزیرداخلہ ہاشم ڈوگر نے وفاق کوللکارتے ہوئے اینٹی کرپشن سے وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنا کے نہ صرف وارنٹ گرفتاری جاری کروادیئے بلکہ پولیس پارٹی بھی تھانہ کوہسار اسلام آباد بھیج دی، تاکہ وہ اپنی حدودسے رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کیلئے مدد کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ تھانہ کوہسار کے ذمہ داروں نے صاف جواب دے دیاکہ مطلوبہ ملزم کی رہائش فیصل آباد میں ہے لہٰذا آپ وہاں سے رابطہ کریں۔پولیس اہلکار حکومت پنجاب کی خواہش پوری کرے بغیر واپس آگیا،اوراب صورتحال یہ ہے کہ ہاشم ڈوگر اس ناکامی پر استعفیٰ بھی دے چکے ہیں لیکن یہ کون پوچھے گا کہ کیا حکومت پنجاب کے ذمہ داروں اور پولیس اہلکاروں کو یہ پتا نہیں تھا کہ وارنٹ پر بھی فیصل آباد کا پتا درج ہے۔اگر پتا تھا تو پھر اس ٹوپی ڈرامے کیا ضرورت تھی، مطلب صاف ظاہر ہے کہ یہ محض رنگ بازی تھی۔اپنے ٹورٹپے کیلئے ورنہ ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ راناثنا اللہ وزیرداخلہ بھی ہیں اور قانون دان بھی۔تاہم راناثنا اللہ کی گرفتاری کیلئے دوبارہ بھی تھانہ سیکرٹری ایٹ اسلام آباد پولیس گئی اور بے عزت ہوکرواپس لوٹی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس شوبازی اور ٹوپی ڈرامے پر جو بلاوجہ اخراجات کئے گئے اس کا حساب کون دے گا؟یقیناً یہ اخراجات سرکاری خزانے سے ہی ادا کئے گئے ہیں کسی نے اپنی جیب سے نہیں دئیے۔لہٰذا اصولی بات یہی ہے کہ اس غلط منصوبہ بندی کے اخراجات فیصلہ کرنے اور اسلام آباد ٹیم بھیجنے کا حکم دینے والوں سے وصول کئے جائیں بلکہ انہیں کم از کم غلط منصوبہ بندی پر معطل ہی کردیا جائے، تاکہ کوئی آئندہ ایسی غلطی نہ دہرائے،لیکن ایسا تو جب ہی ہوسکتا ہے جب کسی کو اپنا حقیقی ٹارگٹ پتا ہوگا۔ اس وقت سیاسی بحران میں سب کے سب بلاتفریق
آنکھیں بند کرکے وقت گزاری چاہتے ہیں۔اس لیے سب انجانے راستوں کے مسافر ہیں۔منزل سب کی اقتدار ہی ہے،لیکن خواہشات ان گنت ہیں نام جدوجہد ،جمہوریت،انسانی حقوق اور جمہوری اقتدار کا ہے لیکن بالکل الٹ۔
پنجاب اور وفاق کی لڑائی میں پنجاب نے راناثنا اللہ کے وارنٹ گرفتاری جاری کرکے افتتاح کردی۔اب وفاق کا جوابی وار بھی متوقع ہے لیکن حکیم ثنا اللہ صبرواستقامت سے خاموش نماشائی بن کر وقت کا انتظار کرنے کے عادی ہیں۔وہ شریف برادران کے لشکر میں ہیں لہٰذانہیں پتا ہے کہ سوسنار کی ایک لوہار کی کا فارمولا کب اور کیسے استعمال کرنا ہے۔تحریک انصاف کے نادان دوستوں کی جانب سے ہردوسرے روز عمران خان کی گرفتاری کی افواہ پھیلا کرکارکنوں کو جذباتی انداز میں بنی گالا اکٹھا کیا جاتا ہے،لیکن ابھی تک یہ افواہ خبر نہیں بن سکی۔اس لیے کہ راناثنا اللہ کا دعویٰ ہے کہ ہم اپنی قیادت کی رہنمائی میں انجانے راستوں پر گامزن نہیں ہم نے تمام بحرانوں کو دیکھتے ہوئے سیاست نہیں ریاست بچانے کا مشن اپنایا ہے،لہٰذا کون کیا کہتا ہے ہمیں اس کی بالکل فکر نہیں،ہم اجتماعی مفادات کیلئے کام کر رہے ہیں اور جب تک آئین وقانون ساتھ دے گا کرتے رہیں گے۔ہمیں کسی کی دھونس دھمکی ڈرا نہیں سکتی۔گھبرائیں وہ جو اپنی من مرضی میں ناکام ہوئے۔جنہوں نے ریاست کو بحرانوں کی دلدل میں پھنسایا،ہم جانتے ہیں کہ وفا ق کو غیر مستحکم کرنے والوں کی سزا کیا ہوتی ہے۔ابھی تو ہم صرف اور صرف قومی مفاد و اور ملکی استحکام کیلئے صبر کا امتحان دے رہے ہیں ۔یقیناً حالات مشکل ہیں اور
ان سے نکلنا بھی آسان کام نہیں۔ پھر بھی اتحادیوں کی باہمی مشاورت سے ابھی سب اچھا نہیں ہو سکا۔لیکن ہمیں بحرانوں سے نکلنے کے راستے مل گئے ہیں۔زیادہ وقت نہیں لگے گا۔نتائج مثبت انداز میں سامنے آجائیں گے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اب بھی عمران خان غلط فہمی میں ہیں کہ وہ پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیںاور جو بیانیہ وہ کھلے عام جلوسوں اختیار کیے ہوئے ہیں ان کا بھانڈا بھی آڈیولیکس میں چوراہے میں پھوڑدیاصرف پاکستانیوں نے نہیں پوری دنیا نے آڈیو سن لی اور ویڈیو کے انتظار میں ہے۔ان کا سائفر خود ساختہ ہے، اسے عمران خان کی خواہش پر سازش کا روپ بخشا گیا اور ہارس ٹریڈنگ میں بھی مخالفین کی بجائے وہ خو دملوث پائے گئے۔پھر بھی دعویٰ ہے پارسائی کا۔اب صدر مملکت نے بھی زبان کھول دی ہے تو باقی کیا بچا ہے۔
معاشی جادوگر وفاقی وزیرخزانہ اسحا ق ڈار کا دعویٰ ہے کہ میں نے حکومت کو بیل آئوٹ کرنے کیلئے وزارت خزانہ کا چیلنج قبول کیا ہے اگر مجھے پانچ ماہ سیاسی استحکام مل گیا تو ڈالر دوسو روپے سے نیچے آجائے گا۔مجھ پر کوئی کچھ بھی الزام لگائے میں اجتماعی مفادات اور سوچ کی پالیسی رکھتا ہوں اور سخت فیصلے نہ صرف کرتا ہوں بلکہ اس کے عملدرآمد کے انتظامات بھی آئینی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے کرتا ہوں۔لہٰذا ذمہ داری میری ہی ہے۔بات بھی درست ہے کہ جب مثبت نتائج کی ضرورت ہو۔قوم مشکلات اوربحرانوں میں گھری ہو تو رعایت کی گنجائش بالکل نہیں ہوتی۔میں ابھی زبانی کلامی بات چیت کررہا ہوں۔جلد ڈنڈا بھی پھیروں گا۔امید ہے معاملات سدھرجائیں گے۔معاشی بحرا ن ملک کیلئے انتہائی پریشان کن ہے لیکن معیشت کی درستگی میرے لیے کوئی انجانا راستہ نہیں البتہ تھوڑا ساوقت ضرور
چاہیے۔ان کا دعویٰ ہے کہ میرے سابقہ ادوار میں بھی صنعت کاروں کے علاوہ تاجر برادری نے قومی جذبے سے تعاون کیا تھا اب بھی ہم مشاورت سے ایسا ہی کام کرنا چاہتے ہیںکہ معاملات درست سمت اختیار کرلیں۔امید ہی بڑا حوصلہ ہوتی ہے۔اس پر دنیا قائم ہے۔بحران آتے ہی جانے کیلئے ہیں،لیکن اس سے نجات کیلئے پالیسی بنیاد بنتی ہے۔مستقبل میں توقعات یہی ہیں کہ ہم بحران سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔جبکہ سیاسی بحران کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ ،عدالت عالیہ اور ایوان صدر حالات کا اندازہ کرتے ہوئے رواداری ،برداشت اور پارلیمنٹ سے رجوع کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن سابق وزیراعظم عمران خان حقیقی آزادی ،جمہوری آزادی مارچ کو ہی جہاد کا اسلامی ٹچ دے کر آخری جنگ کی ٹھان بیٹھے ہیں وہ جلد از جلد الیکشن اور الیکشن کمشنر کی تبدیلی چاہتے ہیں جو فی الحال مستقبل قریب میں ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔تاہم لانگ مارچ اور جیل بھروتحریک کی دھمکی تصادم کی فضا کو پروان چڑھا رہی ہے۔ایسے میں مریم نواز نے حکومتی سیاست دانوں کے نت نئے نام رکھنے والے عمران خان کا نیانام ٹریپل ایف متعارف کروادیاہے۔جس کا ترجمہ ہے، فارن،فنڈڈ،فتنہ یعنی عمران خان۔سمجھ نہیں آرہی کہ ایسے حالات میں جادوگرسیاں اسحاق ڈار کو سیاسی استحکام کیسے ملے گا؟کہ وہ معیشت بحال کرسکیں گے۔ میری جمع و تفریق تو ابھی بھی یہی بتارہی ہے کہ چند سمجھ داروں کے علاوہ ہمارے اکثر سیاست دان انجانے راستے پر گامزن ہیں۔انہیں خود پتا نہیں کہ حقیقی منزل کہاں ہے وہ حالات کے سیلاب میں تیر رہے ہیں ۔اور ان کے رحم و کرم پر ہی اپنا سیاسی مستقبل بنانے کے خواہش مند ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button