ColumnQadir Khan

کرائے کے عسکریت پسند ! .. قادر خان یوسف زئی

قادر خان یوسف زئی

 

سوات مسلسل امن کی بھیک مانگ رہا ہے ، ہاں یہ بھیک ہی تو ہے کیونکہ ان کی آہ و زاری، لاچاری، مجبوریوں اور حکمرانوں کی بے حسی نے انہیں اس نہج پر لا کھڑا کیاجہاں ان کے پاس ماسوائے پرامن احتجاج سے اپنی آواز ارباب اختیار تک پہنچانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔ اہل سوات نے اس بار کمر کس لی ہے کہ کچھ بھی ہوجائے ، کالعدم تنظیموں کی وجہ سے اپنے گھر ، اپنا وطن نہیں چھوڑیں گے ، مر جائیں گے ، لیکن آئی ڈی پیز بن کر کسی کے دروازے، یہاں تک کہ رشتے داروں کے گھر بھی نہیں جائیں گے۔ روٹی کے دو نوالوں کیلئے کسی سرکاری اہلکار کی جھڑکیاں نہیں سننا چاہتے ، این جی اوز کے چند ٹکڑوں کیلئے اپنی عزت نفس کو مجروح نہیں کریں گے ۔ ان پر پہلے بھی قیامت گذر چکی ہے ، دوبارہ عذاب میںمبتلا ہونے سے بہتر ہے کہ یا تو کالعدم تنظیمیں انہیں مار دیں یا احتجاج کرتے ہوئے بے حس حکمراں انہیں ان کی آبائی زمین میںدفنادیں ۔ یقین کیجئے کہ دل خوں کے آنسو رو رہا ہے۔ الفاظ نہیں ہیں کہ اس کو بیاں کیا جاسکے ۔
ملاکنڈ ڈویژن میں جب کالعدم ٹی ٹی پی نے قبضہ کیا تو ریاست کی رٹ کو قائم کرنے کیلئے دیر زیریں،دیر بالا، سوات،بونیر،شانگلہ اور مالاکنڈ کے پختونوں نے قربانی دی اور بے سرو سامانی میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نکل گئے تاکہ حکومت پاکستان کا جھنڈا لہرایا جاسکے ۔ ریاست نے آپریشن کیا اور تاریخی کامیابی حاصل کرکے آئی ڈی پیز کی مکمل واپسی کو یقینی بنایا اور مکینوں کے تحفظ کیلئے سیکورٹی فورسز نے امن کو مستحکم کرنے کی ٹھانی۔ملاکنڈ ڈویژن کو پر امن علاقہ واپس کیا ۔ تاریخی سیاحتی سرگرمیاں بحال ہوئیں لیکن یہ سب ایک ایسا خواب ثابت ہوا کہ اس کی تعبیر سے اہل سوات پریشان او ر خوف زدہ ہوچکے ہیں ، ٹی ٹی پی کی مبینہ سرگرمیوں ، صوبائی حکومت کے وزراء کی جانب سے مبینہ طور پر بھتے دینے اور اغوا کے واقعات سمیت افغانستان سے کالعدم تنظیموں کے جنگجوئوں کی پہاڑوں میں مبینہ واپسی نے ان خطرات کو بڑھا دیا جس سے دنیا کا ہر ایک شخص محفوظ رہنا چاہتا ہے۔
کسی سیاسی وابستگی یا جھنڈوں کی سیاست کے بغیر اہل سوات مسلسل احتجاج کررہے ہیں اور ان کے پر امن احتجاج کا دائرہ بڑھتے جا رہا ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ سلسلہ سوات سے پھیلتا ہوا
خیبر پختونخوا کے ہر علاقے میں داخل ہوگا اور اس کے بعد پوری مملکت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ ریاست ، پر امن مظاہرین کے مطالبات کیلئے کیا اقدامات کررہی ہے ، اس سے عام شہری مطمئن نہیں ، اس لئے ہر نئے احتجاج میں شرکا ء کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ صوبائی حکومت اور بلدیاتی نمائندوں پر عوام کا اعتماد اٹھ چکا ، اس امر کا اندازہ با آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ دنوں نشاط چوک سوات کے تاریخی احتجاج میں صوبائی حکمراں حکومت کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا، مئیر سوات شاہد علی جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے ، انہیں عوام نے سننے سے انکار کردیا کہ ان کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کا تعلق بھی مٹہ سوات سے ہے ، پی ٹی آئی کو کراچی کی طرح سوات سے بھی بڑا مینڈیٹ دلوایا گیا، ان کے جلسوں میں عوام بڑی تعداد نے شرکت کرتے رہے ، لیکن جب بات سلامتی و بقا کی آئی تو واضح طور پر نظر آیا کہ صوبائی وزرا ء ، ایم پی ایزجب دہشت گردوں کو مبینہ طور پر بھتہ دے کر علاقے میں رہ رہے ہیں تو تاجر طبقہ اور عوام کس طرح دہشت گردوں کی شر انگیزیوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ جب طاقت رکھنے والے وزرا ء ہی مبینہ طور پر بھتہ
دیتے اور ان پر حملے ہوتے ہوں کہ پرچی پر بھتہ کیوں نہیں پہنچایا اور عوام کا سکون چھننے والوں سے مذاکرات کرکے انہیں دوبارہ علاقوں میں آباد کئے جانے کے مبینہ خفیہ منصوبے سامنے آئیں اور عوام کی پارلیمنٹ میں بیٹھے نمائندے جانتے ہی نہ ہوں کہ یہ مذاکرات دہشت گردوں سے کون کررہا ہے تو کیا اس سے بے یقینی اور بد اعتمادی کی فضا پیدا نہیں ہوگی۔ اہل سوات ماضی میں گہرے زخم کھا چکے ہیں، اسنیپ چیکنگ، آپریشن اور چیک پوسٹوں میں رینڈم سکیورٹی سیکورٹی چیکنگ نے انہیں نفسیاتی طور پر الجھا کر رکھ دیا ہے ، انہیں اپنے علاقے مقبوضہ لگنے لگے ہیں ۔ ان کا اعتماد حکومت سے اٹھ چکا ہے ، ریاست سے پکارا جارہا ہے کہ انہیں امن دیں ، انہیں دہشت گردوں کے ساتھ گلے نہیں ملنا ، کیونکہ انہوں نے ان کے پیاروں کی گردنیں کاٹیں تھی ، بھلا وہ انہیں کس طرح گلے لگا سکتے ہیں ، ان کے ساتھ اٹھ بیٹھ سکتے ہیں ۔
کالعدم ٹی ٹی پی اور دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ خفیہ مذاکرات کو پختون عوام مسترد کرچکے ہیں ، ان کے نمائندے حالیہ احتجاجوں میں ان کے ساتھ نہیں کھڑے ،ان کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ، وفاق پر چڑھائی کررہے ہیں، اپنے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے، اسے بجھانے کے بجائے ریاست سے براہ راست ٹکرائو کیلئے اشتعال انگیز تقاریر ، بیانات ، جلسے جلوس ، ریلیاں نکلوا رہے ہیں ، عوام کو ریاست کے خلاف کھڑا کرنا چاہتے ہیں ، لیکن اپنے گھر کو درست نہیں کرنا چاہتے، بھلا سوچئے کہ کون چاہے گا کہ اپنی اہل و عیال کو دہشت گردو ں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر وفاق پر چڑھائی کریں ۔ پہلے بھی کالعدم ٹی ٹی پی کو موقع دے کر انہیں مضبوط کیا اور اب دوبارہ انہیں مزید طاقت ور بنانا چاہتے ہیں ، پختون عوام افغانستان کے طالبان سے بھی سخت ناراض ہیں کہ اپنے مفادات کیلئے انہوں نے کالعدم تنظیموں کا بھرپور استعمال کیا ، اب انہیں کامیابی ملی تو انہوں نے اپنے ساتھ ملکی سیاست میں داخل کرنے کے بجائے پاکستان واپس بھیج دیا ۔ افغانستان میں امریکہ اور سوویت یونین کے ساتھ جہاد ایک الگ معاملہ تھا کہ قابض غیر ملکی افواج تھیں۔ یہی سوات کے مکین تھے جب افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تھا تو جوق در جوق ملا صوفی محمد کی آواز پر افغانستان گئے اور امریکی طیاروں کی بمباریوں کا بے رحمانہ نشانہ بنے ۔ انہیں یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ یہ پاکستان کا ہی نہیں ان کا معاملہ بھی ہے ، انہوں نے اپنی گود میں انہیں بڑا کیا ، محفوظ پناہ گاہیں ، افغانستان کی سر زمین بنی ۔ کرائے کے مجاہدین کو قابو میں رکھنا چاہیے تھا ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔تاہم سوات میں اب دوبارہ کوئی نیا ڈرامہ عوام کو منظور نہیں یہی ایک عزم اور عہد ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button