ColumnRoshan Lal

روس پر جنگ کے اثرات .. روشن لعل

روشن لعل

 

روس اور یوکرین کے درمیان جنگ قریباً آٹھ ماہ سے جاری ہے۔ 24 فروری کو شروع ہونے والی اس جنگ میں لوگوں کی دلچسپی بتدریج کم ہونا شروع ہو گئی تھی مگر ستمبرمیںکچھ ایسی خبریں سامنے آئیں کہ پھر سے یہ جنگ دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ اس جنگ کی ابتدامیں روس نے اس تیزی سے پیش قدمی کی کہ چند دنوں میں اس کی فوجیں یوکرینی دارالحکومت کیو کے قریب پہنچ گئیں۔ اس وقت عام خیال یہی تھا کہ ولادیمیر پوتن کی خواہشوںکے مطابق روسی فوجیں بہت جلد تمام تر یوکرین فتح کر لیں گی اور اس کے بعد روس میں پناہ گزین سابق یوکرینی صدر وکٹریانکو وچ کو وہاں کا اقتدار سونپ دیا جائے گا۔ ان دنوں یہ خبر بھی عام تھی کہ روسی فوجیں خود کو سکھائے ہوئے اس سبق پر یقین کر کے یوکرین میں داخل ہوئیں کہ وہاںا نہیں جنگ نہیں کرنی پڑے گی بلکہ یوکرینی عوام پھولوں سے ان کا استقبال کریں گے۔روسی فوجیوںکے اس یقین کے برعکس نہ صرف یوکرینی فوج نے سخت مزاحمت کی بلکہ وہاں کے عوام نے بھی اپنے فوجیوں کا ساتھ دیتے ہوئے زبردست نیشنلزم کا مظاہرہ کیا۔ اس فوجی اور عوامی مزاحمت کا یہ اثر ہوا کہ روس نے ابتدا میں یوکرین کے جن مشرقی علاقوں پر قبضہ کیا تھا وہاں سے آہستہ آہستہ اپنی فوجیں پیچھے ہٹانا شروع کردیں۔ امریکی اور یورپی یونین میں شامل ملکوں نے روسی حملے کی مخالفت تو کی مگر جنگ کے آغاز میںیوکرین کو ضروری امداد فراہم نہ کرسکے۔ بعدازں، جب یوکرین کو امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے جدید ہتھیاروں کی امداد دستیاب ہوئی تو جنگ کا نقشہ تبدیل ہونا شروع گیا۔ یوکرین کے جنگ زدہ علاقوں کی تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ مشرقی یوکرین کے مفتوحہ علاقوں سے خود دستبردار ہونے کے بعد روس نے یوکرین کے جن جنوبی علاقوں پر قبضہ برقرار رکھا تھا انہیں بھی حیران کن طور پر یوکرینی فوج نے واگزار کرانا شروع کر دیا ہے ۔ امریکہ کے فراہم کردہ جدید ہتھیاروں کی بدولت یوکرین کی تعداد میں بہت چھوٹی فوج نے روس کی بہت بڑی فوج کو اپنے مقبوضہ علاقوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ۔روس اور یوکرین کی جنگ کے دوران رونما ہونیوالی اس تبدیلی کے بعد بیرونی دنیا پریہ حیران کن انکشاف ہواکہ امریکہ اورناٹو میں شامل دیگر ملکوں کے مقابلے میں روس کی عسکری طاقت ، جنگی ہتھیار اور مشینری کافی کم تر معیار کی ہے۔روسی فوجوں کی اس پسپائی کے متعلق نہ صرف امریکی اور یورپی میڈیا بلکہ الجزیرہ جیسا ٹی وی چینل بھی یہ خبریں نشر کررہا ہے کہ یوکرینی فوجیں اب تک اپنا 2400 مربع کلومیٹر تک کا علاقہ روسی قبضہ سے واگزار کراچکی ہیں۔
یوکرین میں ہونے والی اس پسپائی کے بعد روس میں یہ اہم تبدیلی رونما ہوئی کہ صدر ولادیمیر پوتن نے 21 ستمبر کو ملک بھر سے 3 لاکھ نئے فوجیوں کی جبری بھرتی کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان سے یورپ میں یہ
اخذ کیا گیا کہ وہ پوتن جس نے فروری میں چند دنوں کے اندر پورے یوکرین پر قبضے کا خواب دیکھا تھا اب اسے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا ہے۔امریکی امداد اور جدید ہتھیاروں سے لیس یوکرینی فوج اپنے مقبوضہ علاقے واگزار کرانے کے بعد کہیں روس کی بین الاقوامی سرحدوں سے بھی آگے نہ بڑھنا شروع ہوجائے۔ عالمی مبصرین یوکرینی فوجوں کی اس حد تک پیش قدمی کے امکان کو رد رکر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس جنگ میں اب روس اور ولادیمیر پوتن کی نفسیاتی برتری ختم ہو چکی ہے ۔ ان کے ایسا سوچنے کی ایک وجہ ولادیمیر پوتن کی طرف سے ایٹمی اسلحہ کے استعمال کی دھمکی بھی ہے ۔ اب یہ جنگ اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ روس جارحانہ کی بجائے دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے کی طرف مائل دکھائی دے رہا ہے۔ لگ ایسا رہا ہے کہ روس کی عسکری طاقت کا بھرم اب پہلے کی طرح قائم نہیں رہا۔
فوج میں جبری بھرتی کے اعلان کے بعد روسی نوجوانوں نے ولادیمیر پوتن کے خلاف مظاہرے شروع کر دیئے ہیں۔ اپنے نوجوانوں کا اس قسم کا رویہ دیکھنے کے بعد ہی شاید ولادیمیر پوتن نے جنوبی یوکرین کے مفتوحہ علاقوں کے روس میں ضم کرنے کیلئے ریفرنڈم کرایا تاکہ یہ انضمام روس میں نئے سرے سے نیشنلزم ابھرنے کا محرک بنے۔ اقوام متحدہ میں اس ریفرنڈم کیخلاف آنے والی قرارداد کو روس ویٹو کر چکا ہے ۔ روس نے ویٹو کی طاقت کی استعمال کرتے ہوئے ریفرنڈم کے خلاف قرارداد کو مسترد تو کر دیا لیکن اس سے یوکرین پر حملے کے خلاف دنیا بھر میں ابھرنے والا عمومی تاثر ختم نہ ہو سکا۔ دنیا کے دیگر ممالک کی بات کیا کی جائے ،یوکرین پر روسی حملے کے حوالے سے تو بھارت اور چین نے بھی سمرقند میں منعقدہ شنگھائی تعاون کانفرنس میں
پوتن پر اپنے تحفظات ظاہر کر دیئے تھے۔
اس جنگ کیلئے صرف بھارت اور چین جیسے ملکوں کے ہی تحفظات نہیں ہیں بلکہ روس کے اندر بھی سخت مایوسی اور تشویش کا احساس پیدا ہو چکاہے کہ جاری جنگ کے نتائج ان خوابوں کے برعکس برآمد ہورہے ہیں جو روسی عوام کو دکھائے گئے تھے۔ اس جنگ نے روسی معیشت کو کس حد تک متاثر کیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مفتوحہ علاقوں سے دستبرداری سے قبل روس کو ایک اندازے کے مطابق کئی بلین ڈالر روزانہ خرچ کرنا پڑرہے تھے۔ جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد 33ممالک نے اپنی فضائی حدود میں روسی جہازوں کا داخلہ ممنوع قراردے دیا تھا جس کی وجہ سے سیاحت کی غرض سے بیرون ملک گئے ہوئے ہزاروں روسیوں کی فوری وطن واپسی ناممکن ہو گئی ۔ اس کے علاوہ یہ ہوا کہ جنگ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ائیر بس اور بوئنگ کمپنیوں نے روسی ائیر لائنز کو پرزوں کی فراہمی پر فوری پابندی عائد کردی ،جوتوں اور کپڑوں کی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنی فیکٹریاں اور سیل پوائنٹ بند کردیئے ،بی ایم ڈبلیو، فوکس ویگن، مرسیڈیز، جیگوار، ٹویوٹا اور ہونڈا جیسی کمپنیوں نے نہ صرف روس کے لیے اپنی برآمدات روک دیں بلکہ فاضل پرزوں کی فراہمی اور ہاں گاڑیوں کی پیداوار کیلئے لگائے گئے کارخانوں میں کام بھی معطل کردیا، نیٹ فلیکس نے روسیوں کیلئے نئے اکائونٹ کھولنا ناممکن بنا دیا، کورین کمپنی سام سنگ نے روس میں اپنا آپریشن بند کردیا، ماسٹر کارڈ اور ویزا نے فوری طور پر روسی بینکوں کو بلیک لسٹ قرار دے دیااور کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے روس سے اپنی سرمایہ کاری واپس لانے کا عمل شروع کردیا۔ علاوہ ازیں فٹبال تنظیموں فیفا اور یوایفا نے روس کی فٹ بال ٹیم کے یورپ اور عالمی مقابلوں میں حصہ لینے پر فوری پابندی عائد کر دی۔
یورپ اور امریکہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں اور دنیا کی بیشتر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے اپنے کاروبار بند کرنے کی وجہ سے روس اس وقت جس قسم کے معاشی مسائل کا شکار ہے اس کی پیشگوئی عالمی ماہرین معاشیات نے جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد کردی تھی۔ جب اس قسم کی پیش گوئیاں کی جارہی تھیں اس وقت عمران خان حیران کن طور پر پاکستانیوں کو یہ خواب دکھا رہے تھے کہ وہ روس کے تعاون سے پاکستان کے تمام معاشی مسائل ختم کردیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button