ColumnImtiaz Ahmad Shad

ویلکم ٹو 90ء ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

عمران خان حکومت سے نکالے جانے کے بعد بڑے بڑے جلسے کر کے عوامی طاقت دکھا چکے، اور اب وہ اپنے ساتھیوں سے حلف بھی لے چکے۔یوں لگتا ہے کہ اب کی بار اسلام آباد میں عمران خان 2014کے دھرنے اور گذشتہ لانگ مارچ سے بالکل مختلف پالیسی اور منصوبہ بندی سے داخل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حالات اور ارادے یہ واضح کر رہے ہیں کہ عمران خان فیصلہ کر چکے ہیں کہ اس دفعہ تخت یا تختہ ،واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔جب سے حکمرانوں کے کیسز ختم کرنے اور معاف کرنے کے عمل میں تیزی آئی ہے، عمران خان کے موقف کو مزید تقویت ملی ہے۔ کیا لانگ مارچ اور دھرنے سے عمران خان مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ اس بات کو سمجھنے کیلئے پاکستانی سیاست اوربالخصوص دھرنا سیاست پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ پاکستانی سیاست میں ہمیشہ عوامی جذبات کو مقاصد کیلئے استعمال کیا گیاہے اور اس نے کئی برے موڑ لیے ہیں۔ منفی اور اقتدار کی بھوکی سیاست، عام آدمی کے بنیادی مسائل کو نظر انداز کرکے قوم کی تقدیر سے کھیلتی آئی ہے۔ سیاسی نظام کا اصل مفہوم گڈ گورننس، عام آدمی کو بنیادی ضروریات کی فراہمی اور ان کے جان و مال کی حفاظت کے ساتھ آرام دہ زندگی فراہم کر کے حیاتِ انسانی کو آسان بنانا ہے۔مگر اس عمل میںہماری سیاست مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ گلیوں بازاروں میں لوگ موجودہ سیاسی نظام کی ناکامی کے بارے میں بات کرتے ہیں جو نظام نہ صرف کرپٹ ہو چکا ہے بلکہ ملک کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔
سیاسی نظام کا مطلب ایسا نظام ہے جہاں لوگ اپنے عوامی نمائندوں سے ترقی پسند اور عوامی فلاحی ریاست کی توقع رکھتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ووٹروں سے کیے گئے وعدوں اور ارادوں کو بھول جاتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور خاص طور پر ان کے عہدیداران اور رہنما اپنے بنیادی مقاصد اور غریب عوام کو بھول کر پیسہ کمانے کے کاموں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ لیڈر بدعنوانی کا کھیل کھیلنے لگتے ہیں۔ غیر منصفانہ طریقوں سے دولت اکٹھی کرتے ہیں۔پھر وہ دولت بیرون ممالک منتقل کر دیتے ہیں۔جب ان پر کوئی سختی آتی ہے تو راہ فرار اختیار کرتے ہوئے پیا دیس سدھار جاتے ہیں ۔ حالات کے چہرے سے جب گرد ہٹتی ہے تو این آر او لے کر واپس آجاتے ہیں اور دوبارہ عوام کے ہمدرد ہونے کے دعوے کرتے ہیں۔ شاید ہمارا نظام اور مزاج ہی ایسا ہے۔اس سارے عمل کو لوٹا کریسی تقویت بخشتی ہے جو ہما ری سیاست پر سیاہ دھبہ ہے ۔ جمہوریت کے نام پر لوٹا کریسی اب ہماری سیاست کا ایک شرمناک حصہ بن چکی ہے۔ لوٹا کریسی کے ماہر سیاست دان پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں اور اقتدار اور پیسے کی ہوس میں اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے ریاست کو کمزور کرنے والے ہمیشہ بچ کر نکل جاتے ہیں۔اس پس منظر کے ساتھ جب ہم پاکستان کی سیاست کا کوئی باب کھولتے ہیں تو سوائے شرمندگی اور رسوائی کے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔عوامی غیظ و غضب کا درست استعمال کرنے کیلئے دھرنوں اور لانگ مارچ ایسے طریقہ کار کو ترجیح دی جاتی ہے۔پاکستان میں دھرنا حربہ پہلی بار 1958ء میں صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کے پہلے وزیر اعلیٰ عبدالقیوم خان نے اپنے صدر اسکندر مرزا کو ہٹانے کیلئے وزیر اعظم فیروز خان کی انتظامیہ کے خلاف استعمال کیا۔ 1977ء کے انتخابات میں پی پی پی کی کامیابی کے بعد پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کے رہنماوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف ایک اہم دھرنا تحریک شروع کی۔ انہوں نے مظاہرے کیے، دھرنے دیئے اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں وغیرہ کا بائیکاٹ کیا۔
بالآخر جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جیل میں ڈال دیا گیا اور ضیاء الحق جولائی 1977ء میں اقتدار میں آئے۔بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ پی این اے کو ذوالفقار علی بھٹوکے خلاف جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کیلئے استعمال کیا گیا اور یوں دھرنا جیت گیا اور جمہوریت ہار گئی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 90ء کی دہائی کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اسے سڑکوں کی سیاست، تشدد اور دھرنوں کی دہائی بھی کہا جاتا ہے۔ 1992ء میں پیپلز پارٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں عام انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر نواز شریف کی پہلی حکومت کے خلاف مارچ کیا جس کے ذریعے دبائو ڈالا گیا اور حکومت کو تحلیل کر دیا گیا۔ تاہم اسے عدالت نے 1993ء میں بحال کر دیا اور نتیجہ صفر رہا۔ اگلے سال پھر پی پی پی نے اسلام آباد تک ایک اور مارچ کیا،نوازشریف کی حکومت تحلیل ہو گئی کیونکہ نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا تھا۔ بعد ازاں، قاضی حسین احمد کی سربراہی میں جماعت اسلامی نے 1993ء میں اپنا مشہور دھرنا دیا اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو گھر بھیج دیا گیا۔2008 میں جنرل مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ساٹھ دیگر ججوں کے ساتھ معزول کر دیا اور عدلیہ کو تحلیل کر دیا جس کے نتیجے میں ملک گیر وکلاء کا لانگ مارچ شروع ہوا جو اپنی نوعیت کا پہلا لانگ مارچ تھا جس میں عدلیہ کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔ ججوں کو کچھ دیر کیلئے بحال کیا گیا یہاں تک کہ مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی اور چیف جسٹس کو دوبارہ گھر بھیج دیا۔ بعد ازاں، 2009ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں نواز شریف ، عمران خان اور قاضی حسین احمد نے مل کر پیپلز پارٹی کے خلاف دھرنے کا منصوبہ بنایا،جسے اسلام آباد میں داخل ہونے سے پہلے ہی مینج کر لیا گیا۔یوں عدلیہ بحالی کا اعلان کر دیا گیا۔ 2014میں عمران خان نے 126 دن کا دھرنا دے کر ایک ریکارڈ تو قائم کر دیا مگر نتیجہ اس کا بھی دیگر دھرنوں سے مختلف نہ تھا۔اب ایک دفعہ پھر عمران خان قریباً ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کیخلاف دھرنے اور لانگ مارچ کا اعلان کر چکے۔اس دفعہ عمران خان پہلے سے زیادہ مقبول اور عوامی حمایت کے لحاظ سے مضبوط بھی دکھائی دیتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ اس دھرنے سے برآمد کیا ہو گا؟ماضی کو مدنظر رکھا جائے تو پھریہ واضح ہے کہ میڈیا پر چند دن عوام کو اچھی تفریح دیکھنے کو ملے گی۔ایک طرف عمران خان مسل چڑھاتے ہوئے اور للکارتے ہوئے دکھائی دیں گے تو دوسری جانب رانا ثنا ء اللہ موچھوں کو تائو دیتے ہوئے تڑیاں لگاتے دکھائی دیں گے۔چند دن عوام اس شعلے فلم سے محظوظ ہوں گے۔اس دوران سیلاب اور مہنگائی سے ماری عوام چیخ چلا کر خاموشی کی لمبی چادر اوڑھ لے گی اور دوٹکے کی معیشت مزید ٹکے ٹوکری ہو جائے گی۔جس کا الزام عمران خان پر لگے گا اور اسی دوران میاں نواز شریف بھی صحت یاب ہو کر وطن واپس تشریف لے آئیں گے۔پھر وہی پرانی تاریخ،پرانے نعرے اور الیکشن الیکشن کھیلا جائے گا۔کھیل ایک بار پھر 90 کی دہائی میں داخل ہو چکا۔آخر میں ،کیاعمران خان کامیاب ہو پائیں گے؟اس کا جواب بڑا سیدھا سا ہے کہ اگر پی ٹی آئی پنجاب بالخصو ص لاہور کے رہنمائوں نے وہی ماحول بنا لیا جو عمران خان کے تصور میں ہے ،جس کیلئے وہ حلف لیتے پھر رہے ہیں تو نتیجہ وہی نکل سکتا ہے جو عمران خان چاہ رہے ہیں۔اگر ایسا نہ ہو سکا تو عمران خان بند گلی میں داخل ہو جائیں گے اور اس کے اپنے ساتھی ہی اس کے ساتھ ہاتھ کر جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button