ColumnZameer Afaqi

خواتین پولیس آفیسرز مردوں سے کم نہیں ۔۔ ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

پولیس میں خواتین یا نفاذ قانون میں خواتین کی ضرورت دنیا بھر میں محسوس کی گئی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اولًا کہ ہر پیشے میں مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ موجودگی کا جنسی مساوات کے اصول اور عورتوں کی نمائندگی کی وجہ سے ضروری سمجھا جاتا ہے، کیونکہ خواتین خود کسی جرم کا شکار ہو سکتی ہیں یہ گھریلو تشدد بھی ہو سکتا ہے اور اس کے آگے جنسی ہراسانی، جنسی بد اخلاقی اور آبرو ریزی کی حد تک سنگین ہو سکتا ہے۔ اس میں وہ شدید جسمانی تشدد کا بھی شکار ہو سکتی ہیں۔ ایسے میں وہ بہ طور خاص خاتون پولیس اہل کار اور خواتین کے پولیس اسٹیشن پر اپنی شکایت بے جھجک سنا سکتی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر ان کا جسمانی معائنہ اور طبی معائنہ بھی خاتون افسروں کی موجودگی میں کیا جا سکتا ہے۔ تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ کبھی کبھار جرائم میں خود عورتیں ملوث پائی جاتی ہیں۔ وہ حراست یا قید میں رکھی جا سکتی ہیں۔ ایسے میں اگر وہ خاتون پولیس اہل کاروں کی نگرانی میں رہیں تو ان خواتین کی جنسی یا کوئی طرح کی غیر ضروری ہراسانی سے بچایا جا سکتا ہے۔
وقت کے ساتھ خواتین کی پولیس میں موجودگی کو ضروری سمجھا جانے لگا اور اس ضمن میںخواتین کے پولیس اسٹیشن وہ پولیس اسٹیشن ہیں جو خواتین متاثرین کے ساتھ جرائم کیے جانے پر کارروائی کرتے ہیں۔ انہیں پہلی بار 1985 میں برازیل میں متعارف کرایا گیا تھا اور لاطینی امریکہ میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔لاطینی امریکی نقطہ نظر کے مطابق ، برازیل کے ساؤ پالو میں پہلا خواتین پولیس اسٹیشن کھولا گیا ۔پاکستان پولیس فورس میں خواتین کے کام کرنے اور ان کی کارکردگی کو مزید بڑھانے کے حوالے سے کاوشیں جاری ہیں، عوام الناس میں آگاہی کے حوالے اورپولیس ریفارم کیلئے کام کرنے والا ادارہ روزن اور پاکستان فورم برائے ڈیموکریٹک پولیسنگ، پاکستان میں محکمہ پولیس میں شفافیت بڑھانے اور دیگر اصلاحات کے نفاذ کے سلسلے میں کافی عرصہ سے کام کر رہا ہے۔ اس ضمن میں پولیس فورس کو جدید ٹریننگ کے ساتھ ساتھ جسمانی اور تعلیمی تربیت کے کئی پروگراموں کا اہتمام کیا جا چکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ خواتین پولیس اہلکاروں کی تربیت اور ان کے مورال کی بلندی پر بھی توجہ دی جارہی ہے ۔ اس کے ساتھ روزن میڈیا پرسن اور دیگر مکاتب فکر کے ساتھ بھی خصوصی نشست کا اہتمام کرتا ہے تاکہ معاشرے میں اس بات کا شعور اجاگر کیا جائے کہ خواتین کا پولیس میں جانا کیوں ضروری ہے۔ اسی حوالے سے روزن نے دو روزہ تربیتی سیشن کا اہتمام کیا جس کا مقصد صحافیوں ،کالم نگاروںا ور اینکرز کو اس اہم مسئلے بارے آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ان کو پیش آنے والی مشکلات سے آگاہ کرنا اور اس کا حل تلاش کرنا تھا ،اس طرح کے سیشن میں عامل صحافیوں کو جہاں نت نئی معلومات میسر آتی ہیں، وہیں انہیں مسئلے کی اہمیت ،نزاکت کو سمجھ کر اپنا بہتر کردار ادا کرنے میں معاونت ملتی ہے۔ روزن کی جانب سے سپوکس پرسن محمد علی نے متعلقہ موضوع پر سیر حاصل بحث کی اور اور خواتین کا محکمہ پولیس میں جانے کے بارے تجربات اور اپنی فائنڈگ سے بھی آگاہ کیا
ہم سمجھتے ہیں کہ قومی آبادی میں خواتین کی شرح 51 فیصد ہونے کی وجہ سے اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ خواتین کو پولیس فورس میں آنا چاہیے اور ان کیلئے سازگار ماحول پیدا کیا جانا چاہیے۔ اگر انہیں مزید مواقع میسر آئیں تو اپنے تجربے اور معاشرے کے تعاون سے بڑے اور خطرناک جرائم کی روک تھام سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گی۔پاکستان میں اب یہ شعور زور پکڑتا جارہا ہے کہ ریپ اور دیگر جنسی نوعیت کے جرائم کے مقدمات کی تفتیش کرنے والی ٹیم کے ارکان میں خواتین پولیس اہلکاروں کو بھی شامل کیا جائے ،تاہم اس مطالبے کے برعکس ابھی بھی ایسے بیشتر مقدمات کی تفتیش مرد پولیس اہلکار ہی کرتے ہیں،واضح رہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے 2017 میں مظفرگڑھ میں ہونے والے ایک واقعے سے متعلق مقدمے میں فیصلہ دیا تھا کہ ریپ اور دیگر جنسی جرائم کے مقدمات کی تفتیش مرد پولیس اہلکاروں کی بجائے خواتین پولیس افسران سے کروائی جائے اور اگروہاں پر خاتون پولیس افسر کو تفتیش کا تجربہ نہ ہو تو، یہ مقدمہ ایسے ضلع میں بھجوا دیا جائے جہاں کی خاتون افسر کو سنگین مقدمات کی تفتیش کا تجربہ ہو۔ عدالت عظمی کے اس فیصلے کے برعکس ابھی بھی پولیس کے اعلیٰ حکام سنگین جرائم کی تحقیقات خاتون پولیس افسر کے بجائے مردوں سے کروانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پولیس کے حکام ابھی تک اس خوش فہمی سے ہی نہیں نکل سکے کہ سنگین مقدمات کی تفتیش مرد پولیس افسر کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔
یہ خام خیالی ہے کہ خواتین پولیس آفیسر بہتر تفتیش نہیں کر سکتیں کچھ عرصہ پیشتر قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے کی تفتیش کرنے والی ٹیم کی سربراہی ایک خاتون پولیس افسر ہی کر رہی تھیں جنھوں نے اس مقدمے کی تفتیش میں ملزمان کو بے نقاب کیا تھا۔ اب خواتین پولیس افسر بھی مرد پولیس افسروں کے ساتھ ہی تفتیش میں مہارت حاصل کرنے کیلئے مختلف کورسز کرتی ہیں کیونکہ تفتیش میں مہارت حاصل کرنے کیلئے بعض کورس لازمی ہوتے ہیں ۔ سب انسپکٹر سے انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پانے کیلئے ہر پولیس افسر، چاہے وو مرد ہو یا خاتون، چار ماہ کا تفتیشی کورس مکمل کرنا ضروری ہے اور ایسا نہ کرنے والے یا والی کو اگلے رینک میں ترقی نہیں ملتی۔ اس کورس میں قتل، ڈکیتی، ریپ، اور اغوا برائے تاوان جیسے سنگین مقدمات کی تفتیش کرنے کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برسوں اقوام متحدہ کے امن مشن میں جو پولیس اہلکار خدمات سرانجام دینے کیلئے بیرون ممالک گئے ہیں ان میں پانچ خواتین پولیس افسران بھی شامل تھیں۔ پولیس میں سب انسپکٹر اور اسسٹنٹ سب انسپکٹرز کی آسامیوں پر بہت سی خواتین پبلک سروس کمیشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پولیس کا شعبہ اختیار کر رہی ہیں جبکہ اس کے برعکس ماضی میں خواتین کا پولیس میں جانا بڑا معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدل رہے ہیں اور اب تو مردوں کے تھانے کی انچارج بھی خاتون پولیس افسر کو لگایا جا رہا ہے۔ لاہو کے تھانہ لٹن روڈ،ملتان اور جنوبی پنجاب کے دیگر اضلاع میں کچھ تھانے ابھی ایسے ہیں، جہاں خاتون پولیس افسران کو تھانوں کا انچارج بنایا گیا ہے۔ انچارج پر بوجھ کم کرنے کیلئے قتل جیسے سنگین مقدمات کی تفتیش کیلئے تھانے میں الگ سے تفتیشی سیل بنائے جاتے تھے جو اب ختم کردیے گئے ہیں اور قتل اور گینگ ریپ جیسے سنگین مقدمات کی تفتیش کی ذمہ داری بھی تھانے کے انچارج کو سونپ دی گئی ہے۔ خواتین پولیس افسران جنھوں نے تفتیشی کورس کیے ہوئے ہیں اْنھیں تفتیشی ٹیم میں شامل نہ کرنا یا اْنھیں مبینہ طور پر نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے خواتین پولیس افسران میں احساس کمتری بڑھ رہا ہے جس پر اعلیٰ افسران کو غور کرنا چاہیے بلکہ اے آئی جی جینڈر کی پوسٹ جو خالی پڑی ہے اس فعال کرنا چاہیے۔رینکر پولیس افسران اور پولیس سروس آف پاکستان کے درمیان جنگ صرف مردوں تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کے اثرات خواتین پولیس اہلکاروں پر بھی پڑتے ہیں۔ یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ پورے صوبے میں پی ایس پی پولیس افسران کو سب ڈویژنل پولیس افسر تو تعینات کیا جاتا ہے لیکن کسی رینکر خاتون پولیس آفیسر کو ابھی تک حکام کی طرف سے یہ ذمہ داریاں نہیں دی جاتیں آخر کیوں؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button