Editorial

پاک امریکہ تعلقات کے 75سال

 

پاک امریکہ تعلقات کی 75ویں سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے، باہمی اعتماد، احترام اور ہم آہنگی کی بنیاد پر دوستانہ روابط کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں، امریکہ نے مشکل حالات میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ پاک،امریکہ تعلقات کو چین اور افغانستان کے تناظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں۔ ماضی کو بھلا کر سنجیدہ بات چیت کے ذریعے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ امریکہ پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ وزیراعظم پاکستان کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم کہنا چاہیں گے کہ بلاشبہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ طویل اور انتہائی اہم تعلقات ہیں اگرچہ اِس عرصے میں کبھی تعلقات بہت اچھے اور مثالی نظرآئے تو کبھی گلے اور شکوے کا بھی دور طویل ہوا،پھر بھی یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان اور امریکہ ہمیشہ ایک دوسرے کی ضرورت رہے ہیں اور پاکستان نے بڑے چیلنجز اور خطرات کے باوجود امریکہ کا ساتھ دیا ہے، جو بے لوث اور طویل دوستانہ تعلقات کی بہترین مثال ہے، اگرچہ پاکستان کو اسی ہزار سے زائد قیمتی جانی اور اربوں ڈالر کے مالی نقصان کی صورت میں اِس دوستی کی بڑی بھاری قیمت بھی چکانا پڑی ہے لیکن پھر بھی پاکستان نے ہمیشہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کا فروغ اور مزید وسعت کا ہی تقاضا کیا ہے۔ پہلے پہل پاکستان سرد جنگ کے دور میں امریکہ کا اتحادی بن کر میدان میں کھڑا رہا حالانکہ اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو متاثرہ افغانیوں کی ابتک طویل میزبانی کرنا پڑ رہی ہے ، کلاشنکوف اور منشیات بھی اسی میزبانی کے نتیجے میں ہمارے ملک میں متعارف ہوئے ، اس کے بعد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکہ کا اتحادی بنا اور نتیجے میں پاکستان کو بھی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا اور اسی ہزار سے زائد پاکستانی، جن میں سکیورٹی فورسزکے جوان اور سویلین شامل تھے، دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے شہیدہوئے، دہشت گردی کی وجہ سے ہی پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور بلاشبہ آج تک ہم معاشی لحاظ سے سنبھل نہیں سکے۔ پاکستان نے مخلص دوست کی طرح امریکہ کو افغانستان میں طاقت کے استعمال کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی تجویز دی لیکن بیس سالہ طویل جنگ کے بعد امریکی حکام کہنے پر مجبور ہوئے کہ اِس جنگ نے امریکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان نے نہ صرف امریکہ کا اِس جنگ میں بیس سال تک ساتھ دیا بلکہ دہشت گردوں کے انتقام کا بھی سامنا کیااور بلاشبہ ابھی تک پاکستان اِس دوستی کی قیمت دہشت گردوںکی کارروائیوں کی صورت میں ادا کررہا ہے۔ پاکستان نے نہ صرف امریکہ اور طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے میں کوشش کی بلکہ امریکہ کے پرامن انخلا کے لیے بھی
ہر ممکن تعاون کیا باوجود اِس کے کہ بعض طاقتیں امریکہ کو نقصان پہنچانے کے لیے امریکہ طالبان مذاکرات کی شدید مخالف تھیں اور انہوں نے مذاکرات کے عمل کے دوران ایسی کارروائیاں بھی کیں جومذاکراتی عمل کو متاثرکرسکتی تھیںلیکن اس کے باوجود پاکستان نے مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بھرپور کوشش کی اور امریکہ کا افغانستان سے محفوظ طریقے سے انخلا یقینی بنایا مگراتنی قربانیوں اور طویل تعلقات کے باوجود عام پاکستانی پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ 75سالہ طویل سفارتی تعلقات اور پاکستان کی بے شمار قربانیوں کے عوض امریکہ کا زیادہ جھکائو بھارت کی جانب کیوںنظر آتا ہے اور اسی ہزار سے زائد شہدا کی قربانیوں کا اعتراف تو امریکہ کرتا ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف اِس طویل جنگ کے نقصانات برداشت کرنے کے لیے پاکستان کو کیوں تنہا چھوڑ گیا ہے۔ اسی طرح ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں بھی امریکہ کو پاکستان کی مکمل حمایت کرنی چاہیے تھی کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی کی مخالفت کی ہے اور اِس کا واضح ثبوت اسی ہزار شہدا ہیں اِس کے برعکس بھارت کے معاملے میں امریکہ کا رویہ یکسر مختلف اورنرم نظر آتا ہے حالانکہ کشمیر پر غاصبانہ قبضے، پاکستان پر کئی بار جنگ مسلط کرنے اور پاکستان میں دو دہائیوں تک دہشت گردی پھیلانے کے واضح ثبوتوں کے باوجود امریکہ کی پاکستان کی بجائے بھارت سے قربت قابل فکر ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے اس میں قطعی دو رائے نہیں کہ ہر قوم اپنے مفادات کو ہمیشہ مقدم رکھتی ہے، مگر اِس دوران اپنے حقیقی دوست اور دشمن میں پہچان اور فرق رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کی دو دہائی طویل جنگ لڑی اور ناقابل تلافی نقصان اٹھایا، ابھی ہم سنبھلے نہیں تھے کہ کرونا وائرس نے معیشت کی کمر توڑ دی اور اس کے فوری بعد خطے کی صورت حال اور عالمی معاشی حالات نے پاکستان کو شدید معاشی بحران میں دھکیل دیا اور رہی سہی کسر حالیہ سیلاب سے نکل گئی ہے اس لیے اب امریکہ کو اِس معافی بحران سے نکالنے کے لیے پاکستان کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے تاکہ معیشت دوبارہ بحال ہو سکے جو دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ کی وجہ سے تباہ ہوچکی ہے، پاکستان اپنے موخر قرضوں سے نمٹنے کے راستے تلاش کررہا ہے لیکن پے درپے درپیش چیلنجز نے پاکستان کو اِس قابل نہیں چھوڑا بلکہ حالیہ سیلاب نے معاشی بحران کو مزید بڑھادیا ہے اِس لیے جس طرح ماضی میں امریکہ اور پاکستان مختلف چیلنجز کا مل کر سامنا کرتے آئے ہیں اسی طرح پاکستان کے موجودہ معاشی چیلنجز میں بھی امریکہ کو پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے کیونکہ 75سالہ طویل دوستی اور تعلقات کا یہی تقاضا ہے کہ پاکستان، امریکہ کا ہمیشہ فرنٹ لائن اتحادی رہا ہے امریکہ بھی موجودہ معاشی بحران میں پاکستان کا حقیقی دوست اور اتحادی ثابت ہو اور پاکستان کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے میں مدد کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button