ColumnImtiaz Aasi

سیاست دان کبھی مل بیٹھیں گئے؟ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

2013 کے انتخابات کے بعد سیاسی حلقوں کی طرف سے اعلیٰ عدلیہ اور قومی اداروں پر بے جا تنقید کا جو طوفان بدتمیزی شروع ہوا وہ رکنے میں نہیں آرہا۔ حکومت آئے سال ہی ہوا تھا عمران خان اور مولانا طاہر القادری نے نواز شریف حکومت کے خلاف اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایک طویل دھرنا دیا اور چارانتخابی حلقے کھولنے کا مطالبہ کر دیا۔ عمران خان نے اپنی شکست کا الزام مقتدر حلقوں پر لگایا تھا۔2018میں تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے انتخابی نتائج مسترد کر دیئے اورتحریک انصاف کی جیت کا الزام مقتدر حلقوں پر لگادیا۔ عمران خان کی حکومت کو سال ہی ہوا تھا کہ جے یو آئی نے اسلام آباد میں حکومت کے خلاف دھرنا دے دیا۔پی ڈی ایم کے قیام کے بعد ملکی اداروں پر تنقید کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ جو جماعت اقتدار میں آتی ہے، ہارنے والی جماعتیں دھاندلی کا الزام بعض اداروں پر لگا دیتے ہیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ سیاست باہم مل کر انتخابی اصلاحات کی طرف آئیں اور انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی روک تھام کیلئے متفقہ طور پر کوئی لائحہ عمل اختیار کریں تو الزام تراشی کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے بند ہو سکتا ہے۔ملک وقوم کی بدقسمتی ہے کہ کوئی جماعت انتخابی دھاندلی روکنے میں سنجیدہ نہیں۔عمران خان نے الیکٹرانک ووٹنگ متعارف کرانا چاہی تو اپوزیشن اور الیکشن کمیشن نے اتفاق نہ کیا۔پی ڈی ایم کی حکومت آنے کے بعدکہا جاتا تھا انتخابی اصلاحات کریں گے جو ابھی تک ہوا میں ہیں۔سب سے اہم بات یہ کہ سیاسی جماعتوں میں شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے ورنہ انتخابی اصلاحات کیا کچھ بھی ہو الزام تراشی کا سلسلہ کبھی بند نہیں ہو گا۔ایک عام خیال یہ ہے کہ عمران خان کو انتخابات میں بعض اداروں کی سرپرستی حاصل تھی جس سے وہ اقتدار میں آئے تھے۔عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کا الزام اداروں پر لگایا گیاجس کے نتیجہ میں پی ڈی ایم کی حکومت اقتدار میں آگئی۔ مسلم لیگ نون کے صدر میا ں شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا گیا۔سوال یہ ہے تحریک انصاف کو اقتدار
سے ہٹا کر پی ڈی ایم کی حکومت نے ملک و قوم کے کون سے مسائل حل کر دیئے جو عمران خان کی جماعت کرنے سے قاصر رہی؟ عمران خان اقتدار میں آئے تو کرونا وائرس کی وبانے ڈیرئے ڈال دیئے اب پی ڈی ایم کی حکومت ہے تو سیلابوں کی آفت آگئی ہے جو ہمارے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کی بجائے اپنے خلاف مقدمات سے نجات حاصل کرنے کی خاطر نیب قوانین میں ترامیم ترجیحی بنیادوں پر کیں۔معاشی حالات کی بہتری کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے عوام پر ٹیکسوںکاغیر ضروری بوجھ ڈال دیا۔

کہا جاتا ہے حکومت آئی ایم ایف کے کہنے پر عوام پرٹیکسوں کا بوجھ ڈالتی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے آئی ایم ایف پاکستان کو اپنے معاشی معاملات کوٹھیک کرنے کا کہتا ہے نہ کہ عوام پر ٹیکسوں کے نفاذ کا کہتا ہے۔سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر کرپشن کا الزام لگاتے نہیں تھکتی۔چلیں تحریک انصاف ملک سے کرپشن ختم کرنے میں ناکام رہی۔موجودہ حکومت نے کرپشن کا خاتمہ کرنے کیلئے کیا اقدامات کئے ہیں۔حکومت کرپشن ختم کرنے میں سنجیدہ ہے تو چین کی طرح کرپشن کرنے والوں کیلئے موت کی سزا مقرر کر دے ۔ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کسی ایک شخص کو کرپشن کی پاداش میں پھانسی دے دی گئی توملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔دراصل اس حمام میں سب ننگے ہیںایسے ماحول میں قانون کی عمل داری ناممکن ہے۔ہم پیسوں کیلئے بھکاریوں کی طرح ملکوں ملکوں پھرتے ہیں۔اپنی انا کی تسکین کیلئے سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف غداری کے مقدمات بنا رہے ہیں۔

کوئی اسلام آباد میں پناہ لئے ہوئے ہے اور کوئی پنجاب اور خیبر پختونخوامیں چھپ رہا ہے۔ ملک میں ایسی صورت حال کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ادارے غیر جانب دار ہو چکے ہیں اس کے باوجود سیاست دان تنقید کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔ حالات کا تقاضا ہے ملکی ادارے سیاست دانوں کو ایک میز پر جمع کریں او ر ملک کو معاشی مسائل کے گرداب سے نکالنے کی مل جل کر کوشش کریںتو امید کی جاسکتی ہے ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔سیاست دانوں میں کوئی ملک دشمن نہیں۔ کوئی مانے نہ مانے عمران خان نے کرپشن کے خلاف عوام میں بیداری کی جو شمع روشن کی ہے اسے بجھانا ممکن نہیں۔عوام اچھے اور برئے کی تمیز کئے بغیر انتخابات میںحق بالغ رائے دہی استعمال نہیں کریں گے۔موجودہ ملکی صورتحال سیاست دانوںکی پیدا کردہ ہے ہم کر پشن سے توبہ تائب ہوجائیںمنی لانڈرنگ چھوڑ دیں، بیرون ملک اثاثے بنانا ترک کر دیںتو کوئی وجہ نہیں ہم معاشی مشکلات سے نہ نکل سکیں۔ہمیں جس روز آخرت کی فکر ہوگی اور ہم اپنے اعمال ٹھیک کر لیں گے ہماری تمام دنیاوی مشکلات کا ختم ہو جائیں گی۔ مال و متاع دوزخ کاایندھن ہے۔ اقتدار کو زندگی اورموت کا مسئلہ مت بنائوقیصر وکسریٰ بڑے بڑے بادشاہ تھے کوئی ان کا نام لیوا نہیں۔ صرف حق تعالی اور اورآقائے نامدار ﷺ کا نام رہے گا۔سیاست دانوں اپنے اداروں کااحترام کرنا سیکھو۔عدلیہ پر اعتبار کرو۔کسی ایک فریق کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں صبرکا دامن مت چھوڑو۔ جج صاحبان کسی کی شکل دیکھ کر فیصلہ نہیںکرتے۔ عدلیہ کو بھی ایک روز حق تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہونا ہے۔صاف ستھری سیاست کرنا سیکھو۔یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد وجودمیں آیا تھا۔جب تک ہم مال ودولت کی ہوس نہیں چھوڑیں گے ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکے گا۔جو لوگ غلط راستے پر ہوں انہیں سیدھے راستے پر لگانے کی کوشش کروگے تو معاشرہ ٹھیک ہو سکتا ہے ورنہ تباہی ہمارا مقدر ہے لہٰذا اس نازک صورت حال میں سیاست دانوں کو اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک وقوم کی خاطریک جاں ہونا پڑے گا تو ہمارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button