Columnعبدالرشید مرزا

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ سے ملاقات (حصہ دوم) .. عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

 

اس کی اطاعت اور خیرخواہی اور اس کے ساتھ تعاون کرنا ہر فردِ جماعت کی طرح میرا بھی فرض ہوگا، تجدید عہد پر عجب سماں تھا۔ اکثر حضرات کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے بلکہ بعض لوگوں پر تو روتے وقت رقّت طاری ہوگئی تھی۔ہرشخص احساسِ ذمہ داری سے کانپ رہا تھا۔ اللہ کو اور حاضرین کو گواہ بنانے والے ان خوش نصیبوں کی تعداد 75 تھی اور یہی 28؍اگست 1941 کا وہ لمحہ تھا جب مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کی تشکیل کا باقاعدہ اعلان کیا۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ تاسیسی ارکان سے مخاطب ہوئے: ’’اب کہ آپ کی جماعتی زندگی کا آغاز ہورہا ہے۔ تنظیم جماعت کی راہ میں کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام میں جماعتی زندگی کے قواعد کیا ہیں؟ اس سلسلے میں چند اہم باتیں بیان کروں گا، پہلی چیز یہ ہے کہ جماعت کے ہرفرد کو نظامِ جماعت کا بحیثیت مجموعی اور جماعت کے افراد کا فرداً فرداً سچے دل سے خیرخواہ ہونا چاہیے۔ جماعت کی بدخواہی، یا افرادِ جماعت سے کینہ، بُغض، حسد، بدگمانی اور ایذا رسانی وہ بدترین جرائم ہیں، جن کو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ایمان کے منافی قرار دیا ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ آپ کی اس جماعت کی حیثیت دُنیوی پارٹیوں کی سی نہیں ، جن کا تکیہ کلام یہ ہوتا ہے کہ ’’میری پارٹی، خواہ حق پر ہو یا ناحق پر‘‘۔ نہیں، آپ کو جس رشتے نے ایک دوسرے سے جوڑا ہے، وہ دراصل اللہ پر ایمان کا رشتہ ہے، اور اللہ پر ایمان کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ آپ کی دوستی اور دشمنی، محبت اور نفرت، جو کچھ بھی ہو اللہ کے لیے ہو۔ آپ کو اللہ کی فرماں برداری میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہے نہ کہ اللہ کی نافرمانی میں۔ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں، ان میں سب سے تعاون کرو، اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں، ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ کی طرف سے جماعت کی خیرخواہی کا جو فرض آپ پر عائد ہوتا ہے اس کے معنی صرف یہی نہیں کہ بیرونی حملوں سے آپ اس کی حفاظت کریں، بلکہ یہ بھی ہیں کہ ان اندرونی امراض سے بھی اس کی حفاظت کے لیے ہروقت مستعد رہیں، جو نظامِ جماعت کو خراب کرنے والے ہیں۔جماعت کی سب سے بڑی خیرخواہی یہ ہے کہ اس کو راہِ راست سے نہ ہٹنے دیا جائے، اس میں غلط مقاصد اور غلط خیالات اور غلط طریقوں کے پھیلنے کو روکا جائے۔ اس میں نفسانی دھڑے بندیاں نہ پیدا ہونے دی جائیں۔ اس میں کسی کا استبداد نہ چلنے دیا جائے۔ اس میں کسی دُنیوی غرض یا کسی شخصیت کو بُت نہ بننے دیا جائے،اور اس کے دستور کو بگڑنے سے بچایا جائے، اسی طرح اپنے رفقاء جماعت کی خیرخواہی کا جو فرض آپ میں سے ہرشخص پر عائد ہوتا ہے، اس کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ آپ اپنی جماعت کے آدمیوں کی بے جا حمایت کریں اور ان کی غلطیوں میں ان کا ساتھ دیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ معروف میں ان کے ساتھ تعاون کریں اور منکر میں صرف عدمِ تعاون ہی پر اکتفا نہ کریں، عملاً ان کی اصلاح کی بھی کوشش کریں۔ ایک مومن، دوسرے مومن کے ساتھ سب سے بڑی خیرخواہی جو کرسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں اس کو راہِ راست سے بھٹکتے ہوئے دیکھے وہاں اسے سیدھا راستہ دکھائے، آپس کی اصلاح میں یہ ضرور پیش نظر رہنا چاہیے کہ نصیحت میں عیب چینی اور خُردہ گیری اور تشدد کا طریقہ نہ ہو بلکہ دوستانہ دردمندی و اخلاص کا طریقہ ہو۔ جس کی آپ اصلاح کرنا چاہتے ہیں، اس کو آپ کے طرزِ عمل سے یہ محسوس ہونا چاہیے کہ اس اخلاقی بیماری سے آپ کا دل دُکھتا ہے، نہ کہ اس کو اپنے سے فروتر دیکھ کر آپ کا نفسِ متکبر لذت لے رہا ہے۔جماعت کے اندر جماعت بنانے کی کوشش کبھی نہ ہونی چاہیے۔ غیبت اور تنابز بالالقاب اور بدظنی بھی جماعتی زندگی کے لیے سخت مہلک بیماریاں ہیں، جن سے بچنے کی ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے۔ باہمی مشاورت جماعتی زندگی کی جان ہے، اس کو کبھی نظرانداز نہ کرنا چاہیے۔ جس شخص کے سپرد کسی جماعتی
کام کی ذمہ داری ہو، اس کے لیے لازم ہے کہ اپنے کاموں میں دوسرے رفقا سے مشورہ لے، اور جس سے مشورہ لیا جائے اُس کا فرض ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ اپنی حقیقی رائے کا صاف صاف اظہار کرے۔ جو شخص اجتماعی مشاورت میں اپنی صواب دید کے مطابق رائے دینے سے پرہیز کرتا ہے، وہ جماعت پر ظلم کرتا ہے، اور جو کسی مصلحت سے اپنی صوابدید کے خلاف رائے دیتا ہے وہ جماعت کے ساتھ غدر کرتا ہے۔ اور جو مشاورت کے موقعے پر اپنی رائے چھپاتا ہے اور بعد میں جب اس کے منشا کے خلاف کوئی بات طے ہو جاتی ہے، تو جماعت میں بددلی پھیلانے کی کوشش کرتا ہے، وہ بدترین خیانت کا مجرم ہے۔ جماعتی مشورے میں کسی شخص کو اپنی رائے پر اتنا مُصر نہ ہونا چاہیے کہ یا تو اس کی بات مانی جائے، ورنہ جماعت سے تعاون نہ کرے گا یا اجماع کے خلاف عمل کرے گا۔بعض نادان لوگ بربنائے جہالت اس کو ’حق پرستی‘ سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ صریح اسلامی احکام اور صحابہ کرامؓ کے متفقہ تعامل کے خلاف ہے۔ خواہ کوئی مسئلہ کتاب و سنت کی تعبیر اور نصوص سے کسی حکم کے استنباط سے تعلق رکھتا ہو، یا دُنیوی تدابیر سے متعلق ہو، دونوں صورتوں میں صحابہ کرامؓ کا طرزِ عمل یہ تھا کہ جب تک مسئلہ زیر بحث رہتا۔ اُن میں ہرشخص اپنے علم اور اپنی صواب دید کے مطابق پوری صفائی سے اظہارِ خیال کرتا، اور اپنی تائید میں دلائل پیش کرتا تھا، مگر جب کسی شخص کی رائے کے خلاف فیصلہ ہوجاتا، تو وہ یا تو اپنی رائے واپس لے لیتا تھا، یا اپنی رائے کو درست سمجھنے کے باوجود فراخ دلی کے ساتھ جماعت کا ساتھ دیتا تھا۔ جماعتی زندگی کے لیے یہ طریقہ ناگزیر ہے۔ انتخاب کے بعد سید ابوالاعلی مودودیؒ کو امیر جماعت منتخب کیا گیا۔ بحیثیت امیر جماعت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا یہ اوّلین خطاب تھا، میں آپ کے درمیان نہ سب سے زیادہ علم رکھنے والا تھا، نہ سب سے زیادہ متقی، نہ کسی اور خصوصیت میں مجھے فضیلت حاصل تھی۔ بہرحال، جب آپ نے مجھ پر اعتماد کرکے اس کارِ عظیم کا بار میرے اُوپر رکھ دیا ہے تو
میں اب اللہ سے دُعا کرتا ہوں اور آپ لوگ بھی دُعا کریں کہ مجھے اس بار کو سنبھالنے کی قوت عطا فرمائے۔ میں اپنے علم کی حد تک کتاب اللہ و سنت ِ رسولؐ اللہ اور خلفائے راشدینؓ کے نقشِ قدم کی پیروی میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھوں گا۔ تاہم، اگر مجھ سے کوئی لغزش ہو، اور آپ میں سے کوئی محسوس کرے کہ میں راہِ راست سے ہٹ گیا ہوں، تو مجھ پر یہ بدگمانی نہ کرے کہ میں عمداً ایسا کررہا ہوں، بلکہ حُسنِ ظن سے کام لے اور نصیحت سے مجھے سیدھا کرنے کی کوشش کرے۔مولانا مودودیؒ نے امیر پر جماعت کا اور جماعت پر امیر کا حق ان لفظوں میں بیان کیا، آپ کا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں اپنے آرام و آسائش اور اپنے ذاتی فائدوں پر جماعت کے مفاد اور اس کے کام کی ذمہ داریوں کو ترجیح دوں۔ جماعت کے نظم کی حفاظت کروں۔ ارکانِ جماعت کے درمیان عدل اور دیانت کے ساتھ حکم کروں۔ جماعت کی طرف سے جو امانتیں میرے سپرد ہوں، ان کی حفاظت کروں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے دل و دماغ اور جسم کی تمام طاقتوں کو اس مقصد کی خدمت میں صرف کر دوں، جس کے لیے جماعت اُٹھی ہے۔ اور میرا آپ پر یہ حق ہے کہ جب تک میں راہِ راست پر چلوں آپ اس میں میرا ساتھ دیں، نیک مشوروں اور امکانی امداد و اعانت سے میری تائید کریں اور جماعت کے نظم کو بگاڑنے والے طریقوں سے پرہیز کریں۔ مجھے اس تحریک کی عظمت اور خود اپنے نقائص کا پورا احساس ہے، مجھے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بارے میں یہ غلط فہمی نہیں کہ اس عظیم الشان تحریک کی قیادت کا اہل ہوں بلکہ اس کو بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ اس وقت اس کارِ عظیم کے لیے آپ کو مجھ سے بہتر کوئی آدمی نہ ملا۔البتہ میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں کہ اگر کوئی دوسرا اس کام کو چلانے کے لیے نہ اُٹھے تو میں بھی نہ اُٹھوں۔ میرے لیے تو یہ تحریک عین مقصد ِ زندگی ہے۔ میرا مرنا اور جینا اس کے لیے ہے۔ کوئی اس پر چلنے کے لیے تیار ہو یا نہ ہو، بہرحال مجھے تو اسی راہ پر چلنا اور اسی راہ میں جان دینا ہے۔ کوئی آگے نہ بڑھے گا تو میں بڑھوں گا۔ کوئی ساتھ نہ دے گا تو میں اکیلا چلوں گا۔ ساری دُنیا متحد ہوکر مخالفت کرے گی تو مجھے تن تنہا اس سے لڑنے میں بھی باک نہیں ہے۔ جو شخص جماعت میں داخل ہو، اُس کو تحریک ِ اسلامی کے لٹریچر کا بیش تر حصہ پڑھوا دیا جائے، تاکہ وہ اس تحریک کے تمام پہلوئوں سے واقف ہوجائے اور تحریک کے ارکان میں ذہنی و عملی ہم آہنگی پیدا ہوسکے۔ اس معاملے میں کسی کے متعلق یہ فرض نہ کرلیا جائے کہ وہ پہلے ہی سب کچھ سمجھنا ہوگا۔ اگر اس مفروضے پر ایسے لوگوں کی بڑی تعداد جماعت میں داخل کرلی گئی، جو اس تحریک کے لٹریچر پر نظر نہ رکھتے ہوں، تو اندیشہ ہے کہ جماعت کے ارکان متضاد باتیں اور متضاد حرکات کریں گے۔ جماعت کے ارکان کو قرآن اور سیرت النبی ﷺ اور سیرتِ صحابہ رضوان اللہ اجمعین سے خاص شغف ہونا چاہیے۔ ان چیزوں کو بار بار، زیادہ سے زیادہ گہری نظرسے پڑھا جائے اور محض عقیدت کی پیاس بجھانے کے لیے نہیں بلکہ ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے پڑھا جائے۔جہاں ایسا کوئی آدمی موجود ہو، جو قرآن کا درس دینے کی اہلیت رکھتا ہو، وہاں درسِ قرآن شروع کر دیا جائے۔ اس تحریک کی جان دراصل تعلق باللہ ہے۔اگر اللہ سے آپ کا تعلق کمزور ہو تو آپ حکومت ِ الٰہیہ قائم کرنے اور کامیابی کے ساتھ چلانے کے اہل نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا، فرض عبادات کے ماسوا نفلی عبادات کا بھی التزام کیجیے۔ نفل نماز، نفل روزے، اور صدقات وہ چیزیں ہیں، جو انسان میں خلوص پیدا کرتی ہیں، اور ان چیزوں کو زیادہ سے زیادہ اخفا کےل ساتھ کرنا چاہیے، تاکہ ریا نہ پیدا ہو۔ نماز سمجھ کر پڑھیے، اس طرح نہیں کہ ایک یاد کی ہوئی چیز کو آپ زبان سے دُہرا رہے ہیں، بلکہ اس طرح کہ آپ خود اللہ سے کچھ عرض کررہے ہیں۔ نماز پڑھتے وقت اپنے نفس کا جائزہ لیجیے کہ جن باتوں کا اقرار آپ عالم الغیب کے سامنے کر رہے ہیں، اس محاسبۂ نفس میں اپنی جو کوتاہیاں آپ کو محسوس ہوں، ان پر استغفار کیجیے اور آیندہ ان خامیوں کو رفع کرنے کی کوشش کیجیے۔جماعت کے ارکان اور کارکنان کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ایک بہت بڑا دعویٰ لے کر، بہت بڑے کام کے لیے اُٹھ رہے ہیں۔ اس لیے ہرشخص کو جو اس جماعت میں شامل ہو اپنی دوہری ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ خدا کے سامنے تو وہ بہرحال ذمہ دار ہے، مگر خلقِ خدا کے سامنے بھی اس کی ذمہ داری بہت سخت ہے۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button