ColumnNasir Sherazi

سیاسی ٹکروں میں اضافہ ۔۔ ناصر شیرازی

سیاسی ٹکروں میں اضافہ
جنات کے بارے میں مشہور ہے، وہ کسی مکان دکان پر قبضہ کرلیتے ہیں، پھر وہاں کسی کو بسنے نہیں دیتے، کسی جسم، کسی ذہن پر سوار ہوجاتے ہیں لیکن بہ آسانی جان نہیں چھوڑتے، یہ سب کچھ انہوں نے مشہور کررکھا ہے جو جنات اپنے قبضے میں کرنے اور جنات سے گلوخلاصی کرنے کا کاروبار کرتے ہیں، اس تمام کاروبار میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جنات سے جان چھڑانے والے ماہرین اس کام کا بھاری معاوضہ اینٹھ لیتے ہیں، کبھی کبھار تو جن سے جان چھوٹ جاتی ہے لیکن انسان کی جان چلی جاتی ہے، یہ حادثہ، سانحہ اُس پھینٹی کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتا ہے،جو اُس شخص کو بے دریغ لگائی جاتی ہے، جس کے اہل خانہ اس کا جن نکلوانے کے لیے اسے لیکر ماہر جنات کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، وہ ان کے سامنے جن کے قبضے میں جانے والے شخص کی مرمت کرتا ہے جو دیکھی نہیں جاتی، انہیں بتایا جاتا ہے کہ پھینٹی اس شخص کو نہیں دراصل اُس میں موجود جن بھائی کو لگ رہی ہے، اسی طرح ضربات سامنے بیٹھے، لٹائے یا الٹا لٹکائے گئے شخص کو نہیں آرہیں بلکہ جن صاحب کو آرہی ہیں، لہٰذا آپ مطلق پریشان نہ ہوں، اس طفل تسلی کے نتیجے میں اپنی جیب سے معقول رقم خرچ کرکے اپنے عزیز کو پھینٹی لگواکر گھر لایا جاتا ہے، نوجوان لڑکی یا خوبرو عورت کا جن نکالتے یا اُسے چڑیل کے چنگل سے آزاد کرنے کا طریقہ مختلف ہے، ضرورت مندوں سے کہاجاتا ہے کہ مریضہ کو کسی بھی جمعرات، اُن کے حجرے میں چھوڑ جائیں وہ اس پر عمل پڑھ پڑھ کر پھونکیں گے، پانچویں جمعرات شفا حاصل ہوجائے گی، اس کام کا معاوضہ نقد، جنس اور اجناس، تینوں صورتوں میں وصول کیاجاتا ہے، مشاہدے میں آیا ہے کہ اس عمل کے بعد مریضہ جن کے قبضے سے نکل کر ماہر جنات کے مستقل قبضے میں چلی جاتی ہے، بعض اوقات وہ گھر کی رہتی ہے نہ گھاٹ کی، اب تو سائنسی اور میڈیائی دور ہے، اس دور کے تقاضوں کے مطابق مریض خواتین کی ویڈیوز بھی بنالی جاتی ہیں جس کے بعد ماہر جنات کے کاروبار کی دھومیں دور دور تک پہنچ جاتی ہیں، ماہر جنات اپنے حجرے میں مریضہ پر عمل پڑھ پڑھ کر پھونکتے اور اس کے جسم پر ہاتھ پھیرنے کے علاوہ اور کیا کیا کرتے ہیں، اس کے لیے آپ مشہور و معروف افسانہ نگار منٹو کا افسانہ’’صاحب کرامت ‘‘ ضرور پڑھیں، جنات اور چڑیلوں کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ گھر، مکان، دکان خالی کرتے وقت کوئی نہ کوئی بڑا نقصان ضرور کرتے ہیں، وہ کسی فرد کو شدید زخمی بھی کرنے سے باز نہیں رہتے۔
زخم کھانا ہمارا قومی مشغلہ ہے، ہم ایک جگہ سے زخم کھانے کے بعد سبق حاصل نہیںکرتے، اگلے برس کوشش ہوتی ہے کہ پہلے سے بڑا زخم
کھائیں اور دنیا بھر کو دکھاکر داد سمیٹیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتائیں کہ جو میدان میں اُترتا ہے وہ بہادر ہوتا ہے، زخم بہادروں کو ہی لگتے ہیں، اس برس عید الاضحی کے موقعے پر بہادری دکھانے اور زخمی ہونے کے واقعات ملک بھر میں پیش آئے، دنبوں، بکروں، چھتروں، اونٹوں، بچھڑوں اور بیلوں کی ٹکر سے آٹھ سو شہری زخمی ہوئے ہیں، کچھ ٹانگیں ، بازو تڑوابیٹھے ہیں، کچھ کے سر پھٹے ہیں، یہ سب لوگ قربانی کے جانور سے کشتی لڑنے اور انہیں زیر کرنے میدان میں اُترے تھے، جانوروں نے انہیں زیر کرلیا۔ اونٹوں کی کارکردگی سب سے بہتر رہی، اونٹ کو گلے میں رسی ڈال کر کسی درخت یا کھمبے سے باندھ کر اُس کا ایک گھنٹہ کھڑے کھڑے موڑ کر باندھ کر سمجھا گیا کہ اب اونٹ اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا، پھر ماہر قصاب ہاتھ میں تیز چھرا لیکر بڑا سا کٹ لگانے کے لیے جلادنہ شان سے جونہی آگے بڑھا، اونٹ نے اُسے گردن سے دبوچ کر پہلے اونچا اٹھایا پھر زمین پر پٹخ دیا، اونٹ آخر اونٹ ہے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے، اس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتا ہے، ایک اور واقعے میں اونٹ نے قصائی کا پہلا حملہ برداشت کیا پھر رسی تڑواکر وہ زخمی گلے اور بہتے خون کے ساتھ گلی گلی پھرتا نظر آیا، قصائی رفوچکر ہوگیا، اس نے خدشہ ظاہر کیا کہ زخمی اونٹ بدلہ لینے کے لیے اُسے گلی گلی تلاش کرنے نکلا ہے، لہٰذا اب اس کی جان کو
خطرہ ہے، اُسے حفاظتی ضمانت کی ضرورت ہے۔
کارکردگی کے اعتبار سے بیل و بچھڑے دوسرے نمبر پر رہے، انہوںنے مختلف شہروں میں مختلف واقعات میں قصائی بھائی کو قریب آنے پر سینگوں پر رکھ لیا، کسی کو اٹھاکر پٹخا، کسی کو زمین پر گراکر رگیدا، اہل محلہ کو فرانس جاکر بل فائٹنگ دیکھنے کی بجائے گھر کے دروازے پر وہ تمام منظر دیکھنے کو ملے جو اکثر شوقین لاکھوں روپیہ خرچ کر کے فرانس جاکر دیکھتے ہیں،بکرے اور چھترے تیسرے نمبر پر رہے، انہوںنے ٹکریں مار مار کر قربانی دینے سے قبل آگے بڑھ کر سر پر پیار دینے والے کے خوب کھنے سینکے اور انہیں احساس دلایا کہ پیار کرنے والوں کو پیار ہی پیار میں کتنے زخم ملتے ہیں جبکہ مضروب حضرات نے زخم کھانے کے بعد کپڑے جھاڑکر زمین سے اُٹھنے کے بعد اپنے عمل اور مستقل مزاجی سے ثابت کیا کہ پیار کیا تو ڈرنا کیا۔
عید بیت گئی تو سیاسی ٹکروں کا موسم آگیا، ایک طرف برسات تو دوسری طرف ضمنی انتخابات ، سیاست دانوں اور ان کے چاہنے والے سیاسی کارکنوں کے درمیان مختلف حلقوں میں ٹکرائو کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں، آئندہ چوبیس گھنٹوں میں غیرحتمی غیرسرکاری اعدادو شمار سامنے آئیں گے جبکہ حتمی و سرکاری اعدادو شمار کبھی سامنے نہیں آئیں گے، ٹکروں کے نتیجے میں زخمی ہونے یا جاں بحق ہونے والے کی حقوق ملکیت کے متعدد دعوے دار سامنے آئیں گے جبکہ ابتدائی مرہم پٹی یا تدفین کے بعد کوئی ان کا والی وارث بننے کے لیے تیار نہ ہوگا، وہ ایسی صورتحال میں بالکل تنہا ہی اپنے پارٹی لیڈر کا راستہ دیکھتے رہیں گے، کچھ تائب ہوکر اپنی نوکری یا کاروبار پر توجہ دیں گے، کچھ زخم کھانے کے شوقین صحت یاب ہوکر ایک نئے جوش و جذبے سے نئے زخم کھانے کی تلاش میں نکلیں گے۔
عام انتخابات کی طرح ضمنی انتخابات پر ہر لحاظ سے ’’آزادنہ‘‘، ’’منصفانہ‘‘ نظر آئے، اسی طرح سستا اور فوری انصاف بھی بہ آسانی دستیاب رہا، کسی کو اس معاملے میں یوٹیلٹی سٹور سے مزید سستا مال خریدنے کے لیے رجوع نہیں کرنا پڑا، ایک زمانہ تھا ماہرین نفسیات، مریض کے مرض کی تشخیص کے لیے سو سوال یا اُن پر مشتمل سوال نامہ اس کے سامنے رکھتے تھے جن میں اس کی پسند و ناپسند کے حوالے سے سوال ہوتے تھے، جوابات سے اندازہ لگایا جاتا تھا کہ کون کیا ہے، یا اسے کیا مرض لاحق ہے۔ زمانے نے ترقی کی تو بتایاجانے لگا کہ آدمی اپنے دوستوںکی صحبت سے پہچانا جاتا ہے، جیسے دوست ویسی ان کی صحبت، اسی قسم کے ذوق و شوق، علم نے ایک منزل اور طے کی تو بتایاگیا کہ انسان اپنے کرتوتوں سے پہچانا جاتا ہے، جیسا لیڈر ویسے ہی اس کے پیچھے چلنے والے، ایک سیاسی جماعت نے پہلے یکساں نصاب کا دعویٰ کیا، اب انہوں نے قبر کا نصاب بھی بدل ڈالا ہے، اور ایک سوال کا اضافہ کردیا ہے، بقول ان کے اب قبر میں پوچھا جائے گا کہ تم نے خان کو ووٹ دیا یا نہیں، ضمنی انتخاب پرانے نصاب اور نئے نصاب کے درمیان تھا، نتیجہ آپ کے سامنے ہے، ہمیشہ کی طرح دھاندلی کا شور ہے، سیاسی ٹکریں ختم نہیں ہوں گی، ان میں ہوشربا اضافہ ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button