Editorial

ضمنی انتخابات اور ناخوشگوار واقعات

ضمنی انتخابات اور ناخوشگوار واقعات
پنجاب اسمبلی کے بیس حلقوں میںاتوار کے روز ہونے والے ضمنی انتخابات کے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج جاری کردیئے ہیں۔ مرکز اور پنجاب میں آئینی حق کے استعمال سے آنے والی تبدیلی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے نتیجے میں گذشتہ روز پنجاب اسمبلی کے بیس صوبائی حلقوں میں ضمنی انتخاب ہوا، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ووٹرز کو پرامن ماحول دینے کے لیے فرائض انجام دیئے، یوں غیر جانبداراورشفاف ضمنی انتخابات کے انعقاد کے لیے متعلقہ اداروں نے دن رات محنت کی مگر اِس کے بعد کوئی حلقہ اور پولنگ سٹیشن ایسا نہ تھا جہاں متحارب سیاسی کارکنوں کے درمیان ناخوشگوار واقعات پیش آئے جن پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فوری کارروائی کرکے صورتحال کو قابو کیا اور پولنگ کا عمل جاری رہا جبکہ بعض جگہوں پر الیکشن کمیشن کے سٹاف بالخصوص پریزائیڈنگ افسران سے متعلق شکایات سامنے آئیں جن پر الیکشن کمیشن نے فوراً ایکشن لیا یا اِس کی وضاحت دی تاہم پنجاب کے 20حلقوں میں مجموعی طورپر امن و امان کی صورتحال اطمینان بخش رہی اور اس کی وجہ موثر اقدامات تھے جو پرامن ماحول میں ضمنی الیکشن کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے تشکیل دیئے گئے تھے۔ یوں پرامن ماحول میں ضمنی الیکشن کے انعقاد کا فرض بطریق احسن پورا کیا گیا، امن عامہ کی فضا برقرار رکھنے کے لیے تمام ضروری وسائل بروئے کار لائے گئے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق پر ہر ممکن حد تک عمل درآمد کرایا ۔ ضمنی انتخابات کے نتائج یقیناً پنجاب اور ملکی سیاست پر واضح طور پر اثرانداز ہوں گے جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے لیکن قابل توجہ امر ہے کہ سیاسی رہنما اور کارکن اِس اہم موقعے پر اور اِس سے صبر و تحمل کادامن کیوں چھوڑ دیتے ہیں، ایک ہی گھر اور گلی محلے میں رہنے والے پولنگ کے دن فریق نظر آتے ہیں حالانکہ ہم سبھی محب وطن ہیں اور سبھی کا پاکستان ہے لیکن عام انتخابات ہوں، ضمنی ہوں یا پھر بلدیاتی، سیاسی جماعتوں کے قائدین جذبات کا پارہ ایسے چڑھادیتے ہیں کہ حلقے میں موجود کارکن ایک جگہ ایک ساتھ رہتے ہوئے ایک دوسرے کو ناپسند کرنے لگتے ہیں اورایک چھوٹی سا واقعہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کا باعث بن جاتا ہے کیونکہ ہمارے یہاں انتخابی عمل ہمیشہ متنازعہ اور متشدد رہا ہے، اسی لیے پولنگ سٹیشن پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، لیکن اس کے باوجود متحارب سیاسی کارکنوں میں اختلافات اس نہج تک پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ بسا اوقات ایک دوسرے کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتااگرچہ گذشتہ روز ہونے والے ضمنی انتخابات میں ایسا کوئی افسوس ناک واقعہ رونما نہیں ہوا لیکن جتنی بار کارکنوں
اور مقامی رہنمائوں کے درمیان تلخ کلامی اور دھینگا مشتی ہوئی، کوئی شک نہیں کہ ایسا کوئی افسوس ناک واقعہ رونما ہوسکتا تھا، جہاں ہم پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس کا کریڈٹ دیتے ہیں وہیں ہم سیاسی قیادت سے بھی کہنا چاہتے ہیں کہ پولنگ کا عمل خوشگوار ماحول میں ہونا چاہیے اور سبھی کو اپنا حق رائے دہی پوری آزادی کے ساتھ استعمال کرنے کی اجازت دینی چاہیے، ایسے افسوس ناک واقعات کی بنیادی وجہ سیاسی تربیت کا فقدان ہے حالانکہ سیاسی قیادت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اپنے کارکنوں کی تربیت کرے، لیکن صدافسوس ماسوائے چند ایک منظم جماعتوں کے ملک کی کسی بڑی جماعت میں سیاسی کارکنوں کی تربیت کرنے کا تصور بھی موجود نہیں، لیکن ملکی سیاسی میں گذشتہ چند دہائیوں میں جو عدم برداشت اور رواداری کا فقدان نظر آیا ہے اس کی نظیر ملکی سیاست میں کہیں نہیں ملتی، مرکزی قیادت کی مخالفین پر لفظی گولہ باری، الزام تراشی، محاذ آرائی، ملک و قوم کے دشمن جیسے الزامات دراصل سیاست میں شائستگی کو ختم کرکے عدم برداشت اور تشدد کو فروغ دینے کا سبب بن رہے ہیں یہی نہیں سیاسی جماعتوں کے عہدیدار مختلف بحث و مباحثوں میں گتھم گتھا اور ایک دوسرے سے گالم گلوچ کرتے اور الجھتے نظر آتے ہیں، جب مرکزی قیادت سیاسی مخالفین کے متعلق غیر سیاسی اور نامناسب باتیں کرے گی اور ان کے عہدیدار سیاسی مخالفین پر طاقت کا استعمال کریں گے تو یہی سبق گلی محلے میں رہنے والے ان کے کارکنوں کو ملے گا کہ نظریاتی اختلافات کودلائل کی بجائے طاقت کے زور پر کچلنا ہے، یہی وجہ ہے کہ عام کارکن بھی دلائل کی بجائے طاقت کا سہارا لیتے ہیںکیوں کہ وہ اپنے قائدین کو ایسا ہی کرتے دیکھتے ہیں، یوں ملکی سیاست میں تنائو اور محاذ آرائی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ قریباً ڈیڑھ سال قبل ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں بھی دو قیمتی جانیں ضائع ہوئیں ،تین زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا زیر علاج رہے اور بلاشبہ اِن خاندانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی جن کے افراد سیاسی مخاصمت میں مارے یا زخمی ہوئے ۔ گذشتہ روز ہونے والے ضمنی انتخابات کے موقع پر رونما ہونے والے ناخوشگوار واقعات اور اِس سے پہلے عدم برداشت کا مسلسل مظاہرہ کسی بھی صورت جمہوریت اور انتخابی عمل کے لیے نیک شگون نہیں لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کے حُسن کو مزید داغ دار ہونے سے بچانے کے لیے سیاسی قیادت کو خود کو رول ماڈل بنانا ہوگا کیوں کہ ہماری سیاست لہجوں اور رویوں میں سختی کی وجہ سے سیاست کے صحیح معنوں اور ثمرات سے دور جاتی نظر آرہی ہے اور رہی سہی کسر سیاسی انتقام اور کج بحثی کی وجہ سے نکل رہی ہے اس لیے سیاسی قیادت کو فوراً سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنے طرز سیاست کو مثالی بنانا ہوگا کیوں کارکن اپنے رہنما کو ہی اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں، جب قیادت خود شائستگی اور دلائل کے ساتھ ایشوز پر بات کرے گی تو سیاست میں طاقت کے استعمال کی سختی سے حوصلہ شکنی کرے گی تو ان کے کارکنان بھی اپنی قیادت سے یہی سبق سیکھیں گے اور پھرسیاست سے خون بہا، مار کٹائی، توڑ پھوڑ، الزام تراشی، کردار کشی جیسی برائیوں کا خاتمہ ہوگا۔

معیشت اور عوام کیلئے خوشخبریوں کی نوید !
وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک بار پھر اچھے دنوں کی نوید سناتے ہوئے کہا ہے کہ معاشی استحکام لائیں گے ،زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جائے گا ،عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں اضافہ ہوا تو بڑھائیں گے ،یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کے اچھے دن آگئے ہیں لیکن ہم سب کو اب ذرا مل کر کام کرنا ہوگا، میں وعدہ کررہا ہوں کہ مہنگائی کو ہم کم کریں گے، یہ 20 فیصد مہنگائی نہیں رہے گی۔ امراء کے لیے گیس کی قیمت میں اضافہ ہو گا تاہم اس کا تعلق آئی ایم ایف سے نہیں ۔وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل ہی نہیں دیگر حکومتی وزرا اور بالخصوص وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہبازشریف جلد اچھا وقت آنے کی نوید سناتے ہیں لیکن اس بار وزیر خزانہ نے واضح ًطور پر کہہ دیا ہے کہ پاکستان کے اچھے دن آگئے ہیں لیکن التماس کے ساتھ ہم بات آگے بڑھائیں گے کہ اچھے دنوں کے اثرات عوام کی معاشی حالت پر بھی نظرآنے چاہئیں جنہوں نے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے وعدے پر بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تاریخ ساز اضافے کو برداشت کیا ہے اور ابھی تک معاشی بحران کا شکار ہیںکیونکہ مہنگائی اعشاریہ پر پہنچ چکی ہے یہ تاریخ کا بلند ترین اعشاریہ ہے یعنی ایک طرف حکومت نے سخت فیصلے کیے ہیں تو دوسری طرف مہنگائی نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ وزیر خزانہ پر امید ہیں کہ ایک دوست ملک سے ہمیں 4 ارب ڈالر کے ڈپازٹس 2 حصوں میں ملیں گے اور ایک دوست ملک سے ایک ارب 20 ڈالر کی موخر ادائیگی پر تیل کی سہولت ملے گی، تیسرا دوست ملک پاکستانی سٹاک ایکسچینج میں ڈیڑھ سے 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گااور شاید ایک ملک موخر ادائیگی پر گیس بھی دے گا۔متذکرہ تمام خوشخبریوں پر ہم معاشی ٹیم کو مبارک دیتے ہوئے عرض کرنا چاہیں گے کہ معاشی مصائب کا شکار پاکستانی قوم کو ماضی کے بعض حکمرانوں کی طرح صبر کا پھر دینے کی بجائے ان کو حقیقی ریلیف جائے اور امیر و غریب کے درمیان تمیز اور فرق کو بھی لاگو کیا جائے تاکہ غریبوں کے حق امیروں کے حصے میں نہ آئے۔ عوام کو ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے تو زیادہ مناسب ہے اور ایسا فیصلہ فوراً کیا جانا چاہیے، مہنگی بجلی اور لوڈ شیڈنگ سےبچانے کے لیے حکومت نے عام صارفین کو سولر سسٹم دینے کا منصوبہ بنایا ہے، ایسے عوام دوست منصوبوں پر فوری عملدرآمد نظر آنا چاہیے تاکہ عام شہریوں کو دوسری طرف فوراً ریلیف میسر ہوسکے ۔ حکومت کو ملکی سیاست ،معاشی حالات اورعام پاکستانی کی پریشانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ریلیف کے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button