Editorial

سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ

عدالت عظمیٰ نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے موقع پر قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 5(1) کے تحت جاری کی گئی رولنگ کے خلاف از خود نوٹس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیاہے۔ 86 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے قلمبند کیا۔متفقہ فیصلے میںجسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندو خیل نے علیحدہ سے بھی اپنے نوٹس قلمبند کئے ہیں۔ فیصلے میں لکھاگیا ہے کہ چیف جسٹس ہائوس میں منعقدہ اجلاس میں سپریم کورٹ کے 12 ججوں نے ملکی سیاسی صورتحال پر ازخودنوٹس لینے کی سفارش کی تھی ،فیصلے کے مطابق عدالت نے آئین و قانون کو مقدم رکھنے اور اس کے تحفظ کے لیے سپیکراسمبلی کی رولنگ کے خلاف یہ ازخودنوٹس لیا اور ڈپٹی سپیکر کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے سپریم کورٹ متحرک ہوئی تھی ،عدالت نے متفقہ فیصلے میں قراردیاکہ ڈپٹی سپیکر کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا فیصلہ غیر آئینی ہے لہٰذا وزیر اعظم کی سفارش پرصدرکی جانب سے قومی اسمبلی کی تحلیل کرنے کے حکم کوغیرقانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جاتاہے،
فاضل عدالت نے قراردیاکہ تحریک انصاف کے وکیل نے بیرونی مداخلت سے متعلق مراسلے کا حوالہ تو دیا لیکن مبینہ بیرونی مراسلے کا مکمل متن عدالت کو نہیں دکھایا گیا اور مراسلے کا کچھ حصہ بطور دلائل سپریم کورٹ کے سامنے رکھا گیاتھا ،فیصلے میں قراردیاگیا کہ تحریک انصاف کے وکیل کے مطابق مراسلے کے تحت حکومت گرانے کی دھمکی دی گئی تھی، مبینہ بیرونی مراسلہ خفیہ سفارتی دستاویز ہے، فاضل عدالت نے قراردیاکہ سفارتی تعلقات کے باعث عدالت مراسلے سے متعلق کوئی حکم نہیں دے سکتی ، سپریم کورٹ کاسپیکررولنگ پرازخودنوٹس سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر لیا گیا، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ، وزیراعظم کی سفارش پر صدرمملکت کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اقدام سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق کے منافی ہے۔
عدالت نے یہ بھی قراردیاکہ قومی سلامتی کے لیے دی گئی 3 اپریل کی سپیکر رولنگ شواہدپرمبنی ہونی چاہیے تھی، ثبوت کے بغیر لیے گئے پارلیمانی اقدامات کا سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے متن کا جائزہ لیا جائے تو کئی ایسے معاملات سامنے آتے ہیں جو اُس وقت حکومت اور ذمہ داران کے کرنے والے تھے لیکن نہیں کیے گئے جیسا کہ تفصیلی فیصلے میں کہاگیا کہ سابق حکومت نے کسی قسم کی کوئی تحقیقات نہیں کروائیں نہ ہی یہ بتایاکس نے بیرونی سازش کی ہے؟ حکومت نے 31 مارچ تک مراسلے کی تحقیقات کرائیں نہ ہی اپوزیشن کے سامنے حقائق رکھے اور تفصیلی رولنگ سے ثابت ہوا کہ بیرونی سازش کے نامکمل، ناکافی اور غیرنتیجہ خیزحقائق سپیکرکوپیش کیے گئے، ڈپٹی سپیکر نے اسی وجہ سے بیرونی سازش پر تحقیقات کرانے کی رولنگ دی اور2اپریل کو اس وقت کے وزیر قانون نے بیرونی مداخلت سے متعلق کمیشن بنانے کا کہا تھااور انکوائری کمیشن کا قیام غماز ہے کہ سابقہ حکومت کو بیرونی مداخلت کا شک تھا،
ڈپٹی سپیکر نے قومی سلامتی کو جواز بنا کر تحریک عدم اعتماد مسترد کر دی تھی،تاہم عدالت بیرونی مداخلت سے متعلق دلیل سے مطمئن نہیں۔ عدالت نے قراردیاکہ عدالت کے سامنے بیرونی سازش سے متعلق ثبوتوں میں صرف ڈپٹی سپیکرکا بیان ہی موجود ہے مگر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں نہیں بتایا گیا کہ مراسلے کے مطابق وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے اپوزیشن میں کس ممبر نے بیرون ملک رابطہ کیا اور مبینہ مراسلے کے مطابق حکومت گرانے میں کون کون شامل تھا ؟عدالت نے قراردیاکہ آرٹیکل 69(1) واضح ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو عدالت سے تحفظ حاصل ہے لیکن اگرپارلیمانی کارروائی میں آئین کی خلاف ورزی ہو تو اس پر کوئی تحفظ حاصل نہیں ، عدالت مقننہ کے معاملات میں آئینی حدود پار نہ ہونے تک مداخلت نہیں کرے گی، آئین کے آرٹیکل 95 (2) کے تحت سپیکر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا پابند ہے، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو آئینی تحفظ حاصل نہیں، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دینے کا فیصلہ ذاتی طورپر وزیرقانون کے کہنے پر کیا تھا۔عدالت عظمیٰ کے تفصیلی فیصلے پر وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے عمران خان اینڈ کمپنی کے جھوٹ اور پراپیگنڈے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ عمران خان نے حکومت کی تبدیلی کو سازشی بیانے کا رنگ دینے کے لیے جھوٹ گھڑا۔اسی طرح حکومت کی اتحادی جماعتوں نے بھی عدالتی فیصلے پر ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ہے لیکن سابق حکمران جماعت کی قیادت کی طرف سے اِس فیصلے پر ایسے سوالات اٹھائے جارہے ہیں جن کی ہمارے نزدیک اب تفصیلی قطعی گنجائش نہیں کیونکہ جسٹس جمال خان مندو خیل کے نوٹ کے مطابق جب عدالت نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو ہی غیر آئینی قرار دے دیا تھاتو تحریک عدم اعتماد خود بخود ہی بحال ہوگئی ۔
ایک اور اہم بات جو فاضل جج نے قرار دی کہ اس سے قبل متعدد بار قوم نے اس ملک میں نظریہ ضرورت کے ناجائز استعمال کا مشاہدہ کیا ہے ،جسے عدالتوںنے بھی منظور کیا تھا لیکن اس سے کبھی بھی مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان ہی پہنچا ، اس وقت ملک میں کوئی غیر معمولی حالات نہیں تھے نہ ہی ریاست کے وجود کو کسی قسم کا کوئی خطرہ تھااِس لیے کسی شخص کی ذاتی خواہش پر نئے انتخابات کا انعقاد کروانے کا کوئی جواز نہ تھا۔متذکرہ فیصلے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ آئین و قانون اور اداروں کا تقدس بحال رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ماضی میں نظریہ ضرورت کے تحت ہونے والے فیصلوں اور اِن کے نتیجے میں ریاستی نظام کو پہنچنے والے نقصان کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس نظریہ کو ہی دفن کردینا چاہیے کیونکہ ہر فریق ہمیشہ نظریہ ضرورت کا استعمال اپنے حق میں ہی چاہتا ہے لیکن جب تک نظریہ ضرورت کی سوچ موجود رہے گی تب تک آئین و قانون کا تقدس خطرے میں رہے گالہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ آئین و قانون اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں ، البتہ جہاں نظام میں خامیاں موجود نظر آئیں انہیں دور کیا جانا چاہیے مگر اداروں کا احترام بہرصورت کیا جانا چاہیے اسی نظریہ کو اپناکر قومیں ترقی کرتی ہیں آج کل وطن عزیز کی سیاست میں جو کچھ چل رہا ہے، یقیناً اس کا نتیجہ عدم برداشت کے مظاہروں کی صورت میں سامنے آئے گا،
جس طرح کائنات نظام قدرت کے تحت چل رہی ہے اسی طرح ریاستیں اور ادارے بلکہ گھر بھی ایک نظام کے تحت چلائے جاتے ہیں جب ہم نظام کی ہی پرواہ نہیں کریں گے تو ہر چیز اپنی جگہ سے کھسک جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button