Editorial

 ہم کس سمت بڑھ رہے ہیں؟

مدینہ منورہ میں بے حرمتی کے واقعہ کے بعد مقامی حکام نے بے حرمتی کے مرتکب بعض افراد کو گرفتار کیا ہے اور اسلام آباد میں سعودی سفارتخانے نے اِس کی تصدیق کی ہے۔ اِس افسوس ناک واقعہ کی سماجی، سیاسی اور ہر طبقہ فکر کی جانب سے شدید مذمت کی جارہی ہے۔ ترجمان مدینہ منورہ پولیس کے مطابق مسجد نبویﷺ کے احاطے میں نازیبا الفاظ کے الزام میں 5 پاکستانی شہری گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ زیرحراست افراد نے پاکستانی خاتون اور ان کے ساتھیوں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے اور گرفتار افراد پر مقدس مقام کی بے حرمتی کا الزام ہے۔ پولیس کے مطابق زیرحراست افراد پر زائرین اور نمازیوں کی سلامتی اور عبادات میں خلل ڈالنے کا الزام ہے اور ملزمان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے قمر زمان کائرہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعہ اچانک نہیں ہوا، یہاں سے منصوبہ بندی کی گئی، عمران خان لوگوں کو تنگ کرنے کا راستہ دکھا رہے ہیں،اگر چاہوں تو شیدا ٹلی کی ٹلی کھڑکائی جاسکتی ہے لیکن یہ مناسب نہیں، کسی کو حدود پار نہیں کرنے دیں گے۔ سعودی حکام سے درخواست کی جارہی ہے کہ واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے اور واقعے میں شامل افراد کی شناخت پاکستان کو بھی بھیجی جائے تاکہ ان افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے اور قمر زمان کائرہ نے کہا کہ حکومت نے واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ دے دیا ہے۔ مسجد نبویﷺ میں اِس افسوس ناک واقعہ کے بعد اسلام آباد میں بعض افراد نے سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری کو زدوکوب کیا غالباً نواب شاہ زین بگٹی کے ساتھ مدینہ منورہ میں ہونے والے واقعے کا ردعمل تھا۔ مدینہ منورہ میں پاکستانی وفد کے ساتھ بعض ہم وطنوں نے جو سلوک روا رکھا وہ بھی قابل مذمت تھا اور قاسم خان سوری کے ساتھ جواباً جو کچھ ہوا وہ بھی قابل مذمت ہے لیکن اِن دونوں سے بڑھ کر قابل مذمت وہ عمل ہے جس سے مسجد نبویﷺ کی حرمت پامال ہوئی اور ہر مسلمان کے نزدیک مدینہ منورہ جیسے مقدس مقام کی حرمت کو پامال کرنا نا قابل معافی ہے جبکہ قرآن کریم میں ایمان والوں کو مخاطب کرکے حکم دیاگیا ہے کہ اپنی آوازیں نبی ﷺکی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور(نبی کریمﷺ) زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ
کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺ کے احترام سے متعلق ایسے کئی احکامات دیئے گئے ہیں جن پر نزول قرآن سے روز ِ محشر تک ہر مسلمان کو عمل کرنا ہے، اِس لیے روضہ رسول ﷺپر ہونے والا واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے اور پوری پاکستانی قوم ہی نہیں بلکہ اُمت مسلمہ نے اس کرب کو محسوس کیا ہے۔ ارض مقدس پر اِس بے ادبی سے پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیاہےکیونکہ مسجدنبویﷺ ایسا مقام ہے جہاں پر لوگ چلنے کے لیے قدم بھی انتہائی احترام سے رکھتے ہیں ، اِس لیے سیاسی اختلاف کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ روضہ رسول ﷺکے تقدس کو پامال کرکے اپنے اعمال برباد کئے جائیں جیسا کہ قرآن کریم میں بھی فرمایاگیا ہے پس  مسجد نبوی شریف میں چند شرپسندوں نے جو کچھ کیا اس سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل دکھی ہوئے ہیں۔ ارض مقدس پر ہماری عقیدتوں کے مراکز ہیں، جن کی حرمت ہمارے لیے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے ، ہماری نمازوں اور ہر عبادت کی ادائیگی کے لیے اِسی سمت (قبلہ )رُخ کرنے کا حکم ہے ، مگر ذہنی پسماندگی اور جہالت کی انتہا ہے کہ مسجد نبویﷺ کے احترام کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھاگیا، جو لوگ اِس افسوس ناک واقعے میں ملوث ہوئے وہ یقیناً دنیا و آخرت دونوں جگہوں پر جوابدہ ہوں گے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک طرف سعودی حکومت نے ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا ہے تو دوسری طرف حکومت پاکستان نے بھی اِن لوگوں کو واپس پاکستان لانے کے لیے سعودی حکومت سے رابطہ کیا ہے اِن کے خلاف پاکستان میں بھی کارروائی ہوگی۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے مذہبی جذبات اُبھر سکتے ہیں اور ملک میں بے امنی ہوسکتی ہے، ان لوگوں کو ارض مقدس سے واپس بھیجا جانا چاہیے، سی سی ٹی وی فوٹیج منگوا رہے ہیں تاکہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ارض مقدس پر جو کچھ ہوا وہ ہر لحاظ سے قابل مذمت اور قابل گرفت ہے۔ صرف ہم پاکستانیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مسلمان کے لیے ارض مقدس کی اہمیت ناقابل بیان ہے۔ اِس لیے مدینہ منورہ واقعے میں ملوث افراد نے پوری اُمہ کو کرب میں مبتلا کیا ہے لیکن پاکستانیوں کا تو سر ہی شرم سے جھکادیا ہے، کیا اِس واقعے کے بعد سعودی حکام عام پاکستانیوں سے ایسا رویہ روا رکھیں گے جو اِس واقعے سے قبل ہوتا تھا؟ یقیناً اب ہر پاکستانی کو اِن چند افراد کی وجہ سے ارض مقدس پر بے شمار پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور پھر غیر مسلموں پر اِس واقعے کا جو اثر پڑے گا یقیناً وہ بھی مسلمانوں کے لیے تشویشناک ہوگا۔
ارض مقدس پر ہونے والے اِس افسوس ناک واقعے کے بعد ہمیں نظر آرہا ہے کہ ردعمل میں ایسے افسوس ناک واقعات کا نہ رُکنے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا یعنی جواب بالجواب ۔ پھر ایسے سیاسی کارکنان جو اپنی قیادت کے لیے مر مٹنے کا جذبہ رکھتے ہیں اِس کام میں آگے سے آگے جانے کی کوشش کریں گے اور خدانخواستہ پھر کوئی ناقابل قبول اور افسوس ناک واقعہ بھی سامنے آسکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے ایسے افسوس ناک واقعے کی ہمارے ہاں نظیر نہیں ملتی۔ ہمارے سیاسی کارکن تو پہلے ہی سیاسی تربیت سے ناآشنا ہوتے ہیں اِس لیے سیاسی قیادت کی جذباتی تقاریر اُن کے لیے احکامات سے کم نہیں ہوتی۔ بعض لوگ تو سیاسی میدان میں نام کمانے کے لیے ایسے کام کرنے میں دیر نہیں کرتے جن کا انجام اگرچہ انتہائی خوفناک ہو لیکن وہ اپنی قیادت کی نظروں میں آجائیں اور پھر افسوس ایسے لوگ سیاسی جماعتوں میں عہدوں کے حق دار بھی ٹھہرتے ہیں اِسی لیے ہمارا کوئی بھی الیکشن خون خرابے کے بغیر نہیں ہوتا اور قریباً ایک سال پہلے ڈسکہ میں ہونے والا ضمنی انتخاب اِس کی واضح مثال ہے جس میں دو سیاسی پارٹیوں کے کچھ جذباتی کارکنان جان سے گئے اور درجنوں کی جان بچانے کے لیے اُنہیں ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔ جب بڑے بڑے عوامی اجتماعات میں کارکنوں کو مشتعل کیا جائے گا تو اِس کا ردعمل اور نتیجہ وہی ہوگا جو ڈسکہ میں دیکھنے میں آیا یا ہر الیکشن میں نظر آتا ہے۔ ہم کسی ایک سیاسی جماعت سے ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت سے گذارش کرنا چاہیں گے کہ کیا ایسی سیاست ہمارے وارے میں آئے گی جس میں مخالف جماعت کے کارکن ہمہ وقت حملہ آور ہونے کا خدشہ موجود رہے اور بیرون ملک دورے کے دوران بھی کسی افسوس ناک واقعے کا ردعمل کا ڈر رہے؟ حالیہ دنوں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک سیاسی جماعت کے منحرف اراکین کو عوام میں جاتے ہوئے دشواری کا سامناکرنا پڑ رہا ہے اور لوگ اِنہیں روک روک کر اپنے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں پھر کچھ عرصے کے بعد بلدیاتی اور عام انتخابات کا انعقاد بھی ہوتا نظر آرہا ہے، اِس عدم برداشت کے ساتھ ہم اپنی سیاست کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں؟ کیا ہماری قیادت فکر مند ہے کہ پوری قوم کدھر جارہی ہے، ہم کونسی نئی مثالیں قائم کررہے ہیں اور کیا یہ سوچ اور یہ رویے ہمارے لیے قابل قبول ہوں گے؟ کیا ہمیں ابھی سے سیاسی کارکنوں کی تربیت کا آغاز، اپنے لہجوں میں نرمی اور الفاظ کے چنائو میں احتیاط کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button