ColumnImtiaz Ahmad Shad

عید ایک آفاقی پیغام ہے ۔۔۔۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

عید کا تصور اتنا ہی پرانا اور قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ قدیم ہے۔ ہر وہ دن جو بطور یاد گار منایا جائے ا سے عید کہا جاتا ہے۔مسلمان صدیوں سے عید کا دن بطور یادگار مناتے آرہے ہیں اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔انسانی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالی جائے توتاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں جو عید کے تصور سے آشنا نہ ہو۔ہر دور میں عید کا تصور پایا جاتا ہے تاہم اس کی کیفیت و ماہیت میں تھوڑی سی تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ایک روایت کے مطابق انسانی دنیا کی پہلی عید اس دن منائی گئی جب حضرت آدم ؑکی توبہ قبول ہوئی۔ دوسری بار جس روز ہابیل اور قابیل کی لڑائی کا خاتمہ ہوا۔ حضرت ابراہیمؑ کی قوم نے اس دن عید منائی تھی، جس دن آپ ؑپر نمرود کی بھڑکائی آگ گل وگلزار ہوئی تھی۔ اسی طرح انبیا ءؑکی قوموں نے عیدیں منائی ہیں۔حضرت یونس ؑ کی قوم نے اس دن عید منائی تھی جب ان کو مچھلی کی قید سے چھٹکارا ملا تھا۔حضرت موسی ؑ کی امت نے اس روز عید منائی تھی جس روز حضرت موسی ؑ نے بنی اسرائیل کو ظالم فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔ حضرت عیسٰی ؑ کی قوم ان کے یوم ولادت کی مناسب سے عید مناتی ہے اور دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر اہتمام کیا جاتا ہے۔ہر ملت، قوم اور کلچر کے لوگ مختلف تہواروں کی شکل میں عیدیں مناتے آرہے ہیں۔بعث نبوی ﷺ کے بعد مسلمانوں کے لیے دو عیدیں مختص ہوئیں۔ مسلمانوں کے لیے حضور ﷺ نے دوعیدیں پسند فرمائیں،جب پہلی بار مسلمانوں پر روزے فرض ہوئے تو تاریخ اسلام کے اس پہلے رمضان المبارک کے آخری ایام میں حضورﷺ نے مدینہ کے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہر قوم کے لیے عید ہوتی ہے تم بھی مختلف تہواروں کی شکل میں عیدیں مناتے تھے، اللہ تعالی نے تمہاری عیدوں کو ان دو عیدوں سے بدل دیا ہے۔ اب تم ہر سال شان سے عیدالفطر اور عیدالاضحی منایا کرو۔یہی مسلمانوں کی عیدیں ہیں (ابوداود)۔عیدالفطر اللہ کی طرف سے ایک انعام اور تحفہ بھی ہے یعنی رمضان المبارک کے روزوں کے ذریعے عبادت، قیام اللیل اور اس بابرکت مہینے کی تکمیل پر رب العزت کی طرف سے خصوصی انعام والا دن ہے۔عید الفطر کی خوشیوں میں دوسروں کو کیسے شریک کیا جائے؟ یہ انتہائی اہمیت کا  حامل سوال ہے۔اس کے لیے چنداہم باتیں یاد رکھی جائیں تاکہ اس پرمسرت اسلامی تہوار کو ہر اعتبار سے بامقصد اور مفید بنایا جاسکے۔عیدالفطر کے پرمسرت موقع پر جو آپس میں کسی وجہ سے ناراض ہیں ان کو ایک دوسرے سے صلح کر لینی چاہیے اور بروز عید ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا چاہیے۔ اسلام اور فطرت دونوں میں ویسے بھی قطع رحمی ممنوع اور حرام ہے۔عید کے دن دل و دماغ میں کسی سے متعلق بھی کوئی رنجش نہ رکھی جائے۔عید سال میں ایک مخصوص دن آتی ہے اور ڈھیر ساری خوشیاں دے کر چلی جاتی ہے۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ، اور جب انسان اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے سرفراز ہو تو اسے چاہیے کہ وہ خوب خوشیاں منائے۔ عید کے دن مسلمانوں کی مسر ت اور خوشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خدا کے احکامات کی ایک ماہ تک سختی سے تعمیل کی اور اس تعمیل کے بعد خوش و مسرور رہتے ہیں اور اس خوشی و تسکین کے لمحات کو رنجشوں اور آلائشوں سے پاک کرکے منایا جاناچاہیے۔حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ عیدالفطر کے دن حضور ﷺ میدان میں نماز ادا فرماتے، نماز کی ادائیگی کے بعد لوگوں سے ملاقات کرتے،گلے ملتے پھر واپس گھر آجاتے۔سیرت الرسول ﷺکا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ ﷺ عید کی خوشیاں گھر والوں کیساتھ بھی مناتے اور ہمسائیوں کا بھی خوب خیال کرتے اور عید کی خوشیوں میں رشتہ داروں، ہمسائیوں، غریبوں، مسکینوں اور دیگر غیر مسلموں کو بھی شامل کرتے تھے۔آپ بھی خوب خوشیاں منائیں،مسرتوں کا اظہار نت نئے طریقوں سے کیجیے۔ نئے کپڑے وجوتے خریدیں، عید کی شاپنگ کیجیے اور بڑوں سے عیدی بھی لیں اور
چھوٹوں کو عیدی دینے کی روایت بھی  برقرار رکھیں، لیکن اس کے ساتھ ہی ہماری اجتماعی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ اس پرمسرت خوشی کے موقع پر اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو نہ بھولیں۔ حسب توفیق اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو بھی اپنی عید کی خوشیوں میں ضرور شریک کریں۔عید اصل میں ہے ہی دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا نام  یادوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا نام۔ اسلام دین فطرت ہے۔ اس کا کوئی بھی حکم حکمت و مقصد سے خالی نہیں۔اللہ تعالیٰ نے صاحب نصاب مسلمانوں پر زکوۃ اور صدقہ فطر واجب کرکے یہ آفاقی پیغام دیا ہے کہ غریبوں اور مصیبت زدہ انسانوں کو عام حالات، بالخصوص عید کی خوشیوں میں اپنی زکو ۃ و صدقات اور خیرات کے ذریعے شامل کیا جائے۔عام طور پر مسلمان اسی مبارک مہینے میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔یہی وہ حکم ہے جس کے ذریعے امیر لوگ اپنی آمدنی سے شریعت کے اصولوں اور احکام کے مطابق ایک خاص رقم الگ کرکے غریب مسلمان بھائیوں میں تقسیم کرتے ہیں۔یوں بہت سارے غریب گھرانوں اور حاجت مندوں میں کھانے پینے کی چیزیں اور پہننے کے لیے کپڑے خرید لیے جاتے ہیں اور سب عید کی خوشیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی ماہ مبارک میں صدقہ فطر دیا جاتا ہے جو ہر امیر،غریب پر واجب ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی ارشاد ہے کہ مسکینوں پر اتنا خرچ کرو تاکہ وہ سوال سے بے نیاز رہیں اوربھیک مانگنے سے گریز کریں۔ مہنگائی نے انسان کی کمر توڑ دی ہے، اس مہنگائی کی وجہ سے لاکھوں لوگ عیدکی خوشیاں منانے سے قاصر ہیں تو ہمیں محمدعربی ﷺ کا سچا امتی اور اطاعت گزار بنتے ہوئے ان غریبوں کو بھی اپنی ہر قسم کی خوشیوں میں شامل کرلینا چاہیے اور ویسے بھی ایک غریب مسلمان کی خوشی کے موقع پر بے لوث مدد اور خدمت کرنے سے جو روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے اور ایسی مدد کرنے پر خدا اور رسول ﷺ بھی خوش ہوتے ہیں۔عید ایسے تہواروں پر ہمارا فرض بنتا ہے کہ امن کا ماحول قائم کریں ،نئی رنجشوں کو پیدا کرنے کے بجائے پرانی رنجشوں کا خاتمہ کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button