گندم اسکینڈل، ذمے داروں سے سختی کیساتھ نمٹا جائے
ہمارے ملک کے طول و عرض میں بسنے والے بے چارے کسان پچھلے کئی عشروں سے بدترین استحصال کا سامنا کررہے ہیں۔ ہر بار ہی اچھے مستقبل کی آس میں فصلوں کی کاشت کرتے ہیں، ان کے لیے اپنی جمع پونجی صَرف کر ڈالتے ہیں، اُدھار لے کر فصلوں کو کاشت کرتے ہیں، دن رات اُن کی آبیاری اور دیکھ بھال میں مصروفِ عمل رہتے ہیں، لیکن جب فصل پک کر تیار ہوجاتی ہیں تو انہیں اُن کے اُن کی توقعات کے مطابق دام نہیں مل پاتے، اُن کے ہاتھ اتنی رقم آتی ہے، جتنی اُنہوں نے لگائی ہوتی یا اس سے کم ہاتھ آتا ہے، اُن کی ساری محنت اکارت جاتی ہے۔ اُن کے استحصال کے لیے ایک منظم گروہ پہلے سے ہی تیار ہوتا ہے اور جیسے ہی اُسے موقع ملتا ہے وہ غریب ہاریوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھیننے سے دریغ نہیں کرتا۔ کسانوں کی حالتِ زار عرصۂ دراز سے یہی ہے اور اُس میں سُدھار کی سنجیدہ کوششوں کا فقدان دِکھائی دیتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ملک بھر میں گندم اسکینڈل کی بازگشت خاصے زور شور سے سنائی دے رہی ہے۔ ملکی ضروریات سے خاصے زیادہ پیمانے پر گندم درآمد کی گئی۔ اس کی وجہ سے کسانوں کا بدترین اور تاریخی استحصال دیکھنے میں آیا۔ کسان اپنی گندم کی فصل کے معقول دام نہ ملنے پر شدید مشکلات سے دوچار رہے اور اب بھی اُن کی حالت کوئی اچھی قرار نہیں دی جاسکتی۔ اس حوالے سے کبھی کسی کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا رہا تو کبھی کسی کو۔ ذمے داروں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔ ان میں کتنی صداقت تھی، یا یہ سراسر جھوٹ پر مبنی تھیں۔ اس متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس معاملے کی تحقیقات جاری تھیں اور اس کے ذمے داروں کا تعین کرلیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق نگران دور حکومت میں اضافی گندم درآمد کرنے کے اسکینڈل میں ذمے داروں کا تعین کرلیا گیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے دی ہے، جس کی روشنی میں وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے 4افسروں کو معطل کرنے کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ سابق وفاقی سیکریٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی محمد آصف کے خلاف باضابطہ کارروائی کی منظوری دی گئی ہے جب کہ سابق ڈی جی پلانٹ پروٹیکشن اے ڈی عابد کو معطل کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق فوڈ سیکیورٹی کمشنر وَن ڈاکٹر وسیم اور ڈائریکٹر سہیل کو بھی معطل کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ذمے دار افسروں پر ناقص منصوبہ بندی اور غفلت برتنے کا چارج لگایا گیا ہے۔ خیال رہے کہ ایک ماہ سے زائد عرصے کی تحقیقات میں نگراں دور حکومت کے کسی بھی ذمے دار کو طلب ہی نہیں کیا گیا۔ نگراں دور میں گندم درآمد کرنے کی اجازت کس نے دی؟، مقدار کا تعین کرنے کی ذمے داری کس کی تھی؟ نگراں حکومت نے ضرورت سے زیادہ گندم درآمد کرنے کے بعد نئی منتخب حکومت کو اس سے متعلق آگاہ کیوں نہیں کیا ؟ ان سوالوں کا جواب نہیں مل سکا۔ یاد رہے کہ سرپلس گندم امپورٹ سے ملک میں گندم کی مارکیٹ کریش ہوئی، جس سے کسانوں کو گندم سستے داموں فروخت کرنا پڑی۔ دوسری طرف وزیر خوراک پنجاب بلال یاسین کی ہدایت پر محکمہ خوراک پنجاب میں احتساب کا عمل تیز کر دیا گیا۔ سیکریٹری خوراک نے کرپشن، نااہلی اور فرائض میں سنگین غفلت پر 20افسر معطل کر دئیے۔ وزیر خوراک کے مطابق افسروں کے خلاف کرپشن، نااہلی اور فرائض کی انجام دہی میں غفلت پر کارروائی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ محکمے میں نااہل، کرپٹ اور فرائض میں کوتاہی برتنے والوں کی کوئی جگہ نہیں۔ وزیر خوراک کا کہنا تھا کہ حکومت پنجاب عوامی ریلیف میں حائل کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کرے گی۔ بلال یاسین نے کہا کہ پنجاب بھر کی مارکیٹس میں معیاری اور سستے آٹے کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے مصروف عمل ہیں۔ معطل ہونے والوں میں شیخوپورہ، فیصل آباد، جھنگ، سرگودھا، خوشاب، بھکر، بہاولنگر، راولپنڈی اور گوجر خان کے افسر شامل ہیں۔ شیخوپورہ، فیصل آباد، جھنگ اور گوجرخان سے 6اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر معطل کئے گئے۔ فیصل آباد، جھنگ اور بہاولنگر میں 7فوڈ گرین انسپکٹرز کیخلاف بھی کارروائی کی گئی۔ سرگودھا، خوشاب اور بھکر سے 3اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولرز، 3فوڈ گرین انسپکٹرز اور 1جونیئر کلرک معطل ہوئے۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق متعلقہ افسر مکمل کلیئرنس تک اپنے علاقے میں موجود گندم کے اسٹاک کے ذمے دار ہوں گے۔گندم اسکینڈل میں ملوث ذمے داروں کا تعین بڑی کامیابی ہے۔ ضروری ہے کہ کسانوں کے بدترین استحصال کی وجہ بننے والوں کو کسی طور نہ چھوڑا جائے، ان کو ان کے کیے کی سزا بہرطور لازمی دی جائے۔ ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ دوسری جانب ایسی حکمت عملی بنائی جائے کہ آئندہ کوئی اس قسم کی خرابی کو بڑھاوا نہ دے سکے۔ دوسری جانب ہم ان سطور کے ذریعے حکومت سے گزارش کریں گے کہ کسانوں کی حالتِ زار بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔ وہ خوش حالی سے کوسوں دُور ہیں۔ اُن کی زندگیاں سہل بنانے کی ضرورت ہے۔ اُن کو آسانیاں بہم پہنچائی جائیں۔ ایسے انتظامات کیے جائیں کہ اُن کے استحصال کا سلسلہ رُک سکے۔ اُن کو حکومت ہر طرح کی سہولت فراہم کرے۔ اس حوالے سے پنجاب حکومت کی جانب سے پچھلے دنوں اہم اعلان سامنے آیا تھا۔ اس پر جلد از جلد عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ کسان خوش حال ہوگا تو ملکی ترقی اور خوش حالی کا سفر مزید تیز تر ہوسکے گا۔
اوگرا کی گیس قیمتوں میں 10 فیصد کمی کی تجویز
ملک میں اس وقت بجلی اور گیس کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہیں۔ پچھلے چند سال سے مسلسل ان بنیادی ضروریات کے نرخوں میں اضافے کے سلسلے دِکھائی دیتے ہیں۔ عوام کی جانب سے ان اضافوں پر احتجاج بھی دیکھنے میں آئے، ایک مرتبہ بجلی بلوں کے ضمن میں احتجاج اس انتہا تک پہنچا کہ ملک کے بعض حصّوں میں بجلی بلوں کو پھاڑا اور نذرآتش کرتے ہوئے ان کی ادائیگی سے انکار کیا گیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان سہولتوں کے عوض ہر مہینے غریب عوام کو اپنی آمدن کا بہت بڑا حصّہ صَرف کرنا پڑتا ہے۔ پچھلے کئی سال سے ایک بھی موقع پر ان کی قیمتوں میں کمی کی کوئی نوید سنائی نہیں دی ہے۔ اب گیس قیمتوں میں کمی کے حوالے سے اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ اوگرا نے اس حوالے سے گیس قیمتوں میں 10 فیصد تک کمی کی تجویز حکومت کے گوش گزار کر ڈالی ہے۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ عوام کو اس کے ثمرات سے کس حد تک مستفید کرتی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اوگرا نے گیس کی قیمتوں میں 10 فیصد تک کمی کرتے ہوئے مالی سال 2024-25 کے لیے سوئی کمپنیوں کی ضروریات کا تعین بھی کردیا۔ اوگرا نے مالی سال 2024-25 کے لیے سوئی کمپنیوں کی آمدن کی ضروریات کے تعین کا نوٹیفکیشن جاری کردیا، جس کے مطابق ایس این جی پی ایل کے لیے گیس کی اوسط تجویز کردہ قیمت فی ایم ایم بی ٹی یو 1635.90 روپے ہے۔ فی ایم ایم بی ٹی یو کی قیمت میں 10 فیصد یعنی 179.17 روپے کمی ہوئی۔ گزشتہ سال کے شارٹ فال کا مالی اثر ایس این جی پی ایل کے دعوے کے مطابق 862,612 ملین فی پٹیشن جب کہ اوگرا کے حساب سے 580585 ملین روپے بنتا ہے، جو مناسب پالیسی فیصلے کے لیے وفاقی حکومت کو بھیجا گیا ہے۔ اسی طرح ایس ایس جی سی ایل کے لیے اوسط تجویز کردہ قیمت 1401.25 روپے مقرر کی گئی ہے، جس میں فی MMBTU قیمت میں 59.23روپے یعنی کہ 4 فیصد کمی کی گئی ہے۔ وفاقی حکومت سے کیٹیگری کے لحاظ سے فروخت کی قیمتوں کے حوالے سے مشاورت کی درخواست کی گئی ہے۔ وفاقی حکومت کے مشورے کے مطابق کسی بھی نظرثانی کا نوٹیفکیشن اوگرا کی جانب سے جاری کیا جائے گا۔ اس وقت تک موجودہ زمرے کے لحاظ سے قدرتی گیس کی فروخت کی قیمتیں برقرار رہیں گی۔ اس میں شبہ نہیں کہ پچھلے 5، 6 سال کے دوران غریب عوام نے انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کیا ہے۔ اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ اُستوار رکھنا ازحد دُشوار ہوچکا ہے۔ اُن کو اب ہر صورت ریلیف فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کا درد اپنے دلوں میں محسوس کرنے والے حکمراں اُن کے مصائب میں کمی لانے کا باعث ثابت ہوتے ہیں، اُن میں اضافے کی وجہ ہرگز نہیں بنتے، لہٰذا حکومت کو عوام کے وسیع تر مفاد میں قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کے مطالبات سامنے آرہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اوگرا کی تجویز پر عمل ہوتا ہے یا عوام پر مزید بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافوں کا بوجھ لادا جاتا ہے۔