Editorial

آئی ایم ایف مطمئن، مذاکرات مکمل

پاکستان معاشی طور پر پچھلے 6سال کے دوران انتہائی کٹھن دور سے گزرا ہے۔ ایک طرف معیشت کا بٹہ بیٹھا ہوا اور صنعتوں کا پہیہ رُکا ہوا رہا تو دوسری جانب پاکستانی روپیہ روز بروز تیزی سے پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتا چلا گیا۔ گرانی کا سیلاب غریب عوام کا سب کچھ بہا کر لے گیا۔ ہر شے کے دام مائونٹ ایورسٹ سر کرتے نظر آئے۔ تمام اشیاء کے دام تین، چار گنا بڑھے۔ روز ہی مہنگائی کا نیا سلسلہ دیکھنے میں آتا۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔ غریبوں کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا دُشوار گزار ترین امر بن کر رہ گیا۔ 2018 ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت تجربات پر تجربات کرتی رہی، غریبوں کی زندگیوں کو مشکلات میں ڈالا، ملک کو معاشی طور پر سنگین تجربات کی بھینٹ چڑھادیا، اس چار سالہ دور میں ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ قرض لیے گئے، قرض در قرض کی بھرمار سے امور مملکت چلائے جاتے رہے، وسائل پر انحصار سے یکسر گریز کیا گیا، جب یہ حکومت رخصت ہوئی تو ملک پر ڈیفالٹ کی تلوار لٹک رہی تھی۔ حالات خاصے سنگین تھے۔ اُس وقت پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ کے خطرے سے ناصرف بچایا، بلکہ دُنیا کا پاکستان پر اعتماد پھر سے بحال کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ناراض دوست ملکوں سے تعلقات کو بہتر بنایا۔ معیشت کی بحالی کے لیے راست اقدامات یقینی بنائے، جن کے مثبت اثرات سامنے آئے۔ آئی ایم ایف کو مطمئن کیا، اس کے ساتھ معاملات طے کیے اور حالات کو بہتر رُخ پر گامزن کیا۔ اُس وقت بھی شہباز شریف ملک کے وزیراعظم تھے اور اب جب کہ فروری 2024ء میں عام انتخابات کے نتیجے میں حکومت سازی کا عمل مکمل ہوچکا ہے تو اب بھی شہباز شریف ہی وزیراعظم ہیں اور وہ ملک کو لاحق مسائل سے ناصرف پوری طرح آگاہ ہیں، بلکہ ان کو جلد حل کرنا اور صورت حال کو ملک اور قوم کے حق میں موافق بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے اُن کی جانب سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات یقینی بنائے جارہے ہیں۔ معیشت کی بحالی کا مشن جاری ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام میں بھی آگے بڑھا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں عالمی ادارے کے وفد کے ساتھ مذاکرات کا دور مکمل ہونے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کے درمیان اقتصادی جائزہ مذاکرات کامیابی کے ساتھ مکمل ہوگئے، پاکستان نے آئی ایم ایف کے مشن کو معاشی کارکردگی پر مطمئن کرلیا، وزارت خزانہ ذرائع کے مطابق اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت آخری اقتصادی جائزہ مذاکرات میں مثبت پیش رفت رہی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے 1.1ارب ڈالر کی آخری قسط کے واضح امکانات ہیں، معاہدے اور کامیابی کا حتمی اعلان آئی ایم ایف اعلامیے کے ذریعی کرے گا۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کے مشن کو معاشی کارکردگی پر مطمئن کرلیا ہے اور آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ اپریل میں پاکستان کے لیے 1.1ارب ڈالر کی قسط منظور کرسکتا ہے۔ دوسری طرف امریکی سفیر نے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین معاہدے کے لیے حمایت کی یقین دہانی کرادی ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے ملاقات کی، جس میں ملک کے ٹیکس نظام اور سرمایہ کاری کے ماحول میں بہتری سمیت پاکستان کے اصلاحاتی اہداف پورے کرنے کے لیے مزید امریکی تعاون اور حمایت پر تبادلہ خیال کیا۔ امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے موجودہ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کو مکمل کرنے کے لیے امریکی حکومت کی حمایت کا یقین دلایا۔ انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان باہمی دلچسپی کے شعبوں میں امریکا پاکستان اقتصادی تعاون کو مزید وسعت دینے کے عزم پر زور دیا۔مذکورہ اطلاع موجودہ حالات کے تناظر میں تازہ ہوا کا خوش گوار جھونکا معلوم ہوتی ہے۔ امریکا کی جانب سے بھی حمایت کی یقین دہانی خوش کُن قرار پاتی ہے۔ اس قسط کے ملنے سے حکومت کو نظام مملکت چلانے میں تھوڑی سہولت میسر آئے گی۔ دیکھا جائے تو صورت حال بہتر رُخ اختیار کررہی ہے اور ان شاء اللہ کچھ سال میں ملک اور قوم کی خوش حالی کے نئے دریچے وا ہوں گے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کو ملک اور عوام کی صورت حال کا بخوبی اندازہ ہے۔ وہ قرض کو ملک اور قوم کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔ وہ قرضوں کے رول اوور ہونے کو بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ اس امر کا اظہار اُنہوں نے اپنے ایک تازہ بیان میں بھی کیا ہے۔ قرض سے جان چھڑانے سے متعلق اُنہوں نے کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ وزیراعظم کے خیالات عوام کے جذبات کی مکمل ترجمانی کرتے ہیں۔ قرض کبھی بھی مسائل کا حل ثابت نہیں ہوسکتے۔ ان سے وقتی ریلیف تو ضرور ملتا ہے، لیکن ان کی ادائیگی ملک اور قوم پر بھاری بوجھ ثابت ہوتی ہے۔ اس تناظر میں ضرورت اس امرکی ہے کہ قرضوں سے مستقل چھٹکارے اور خودانحصاری کی جانب قدم بڑھانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ پاکستان قدرت کا عظیم تحفہ اور وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ بس ان وسائل کو درست خطوط پر بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ زرعی ملک ہونے کے ناتے اس شعبے کا کُل مجموعی قومی آمدن میں بہت بڑا حصّہ ہوتا ہے۔ زراعت کو جدید تقاضوں سے ہم کنار کیا جارہا ہے۔ اس سے زرعی پیداوار میں حوصلہ افزا اضافہ متوقع ہے۔ دوسری جانب ملک میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر ہیں۔ یہاں کی زمینوں میں قدرت کے عظیم خزینے مدفن ہیں۔ ان کو تلاش کرنے کے سلسلے جاری رہتے ہیں۔ ملک عزیز حسین وادیوں اور پُرفضا مقامات کا حامل ہونے کے سبب دُنیا بھر کے سیاحوں کے لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ سیاحت کے فروغ اور سہولتوں کی فراہمی سے معقول آمدن کا بندوبست ہوسکتا ہے۔ کئی ممالک ملک میں بھاری سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ اس سے بھی صورت حال بہتر رُخ اختیار کرے گی۔
ماحولیاتی آلودگی کی تباہ کاریاں
ماحولیاتی آلودگی کے عفریت کے باعث بڑے پیمانے پر موسمی تغیرات رونما ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ناصرف سردی کی شدّت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے بلکہ گرمی کی
حدّت بھی بہت بڑھ چکی ہے۔ اس کے منفی اثرات حیوانات، نباتات اور انسانوں پر بُری طرح مرتب ہورہے ہیں۔ نت نئے امراض جنم لے رہے ہیں۔ اطفال زیادہ تر متاثر ہوتے ہیں اور ان کی اموات میں اضافہ بھی دیکھنے میں نظر آرہا ہے۔ اسموگ کی صورت حال جنم لیتی رہتی ہیں۔ دُنیا بھر کے ممالک ماحولیاتی آلودگی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے عرصہ دراز سے مصروفِ عمل ہیں اور اس کے تدارک کے لیے اُن کی جانب سے حوصلہ افزا اقدامات کیے گئے ہیں، اس وجہ سے یہ ممالک موسمیاتی تغیرات کے منفی اثرات سے کافی حد تک محفوظ ہیں جب کہ ہمارے ہاں ابتدا سے ہی اس حوالے سے زبانی کلامی دعووں پر اکتفا کیا گیا۔ اس سے آگے کچھ اور نہ ہوسکا، اس کی وجہ سے صورت حال روز بروز سنگین شکل اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔ آئے روز ہمارے بڑے شہروں کا شمار دُنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ ملک بھر میں دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی بھرمار ہے، جو سڑکوں پر دھویں کی آلودگی میں ہولناک اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ صوتی، آبی، فضائی، شور غرض ہر قسم کی آلودگی اپنا بھرپور وجود رکھتی ہے اور ماحول دشمنی میں ہولناک کردار ادا کررہی ہے۔ اب تازہ میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور میں اسموگ نے پھر سے پنجے گاڑنا شروع کردیے، آلودگی کے اعتبار سے لاہور نے دُنیابھر کے شہروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ فضائی آلودگی نے لاہوریوں کا پیچھا نہ چھوڑا، ناقص اے کیو آئی کے اعتبار سے لاہور ناصرف پاکستان بلکہ دُنیا میں پہلے نمبر پر آگیا۔ باغوں کے شہر میں اسموگ کی اوسط شرح 296ریکارڈ کی گئی جب کہ شہرِ لاہور کے بعض علاقوں میں ایئر کوالٹی انڈیکس 400سے تجاوز کرنا معمول بن گیا۔ حکومت پنجاب کی جانب سے اسموگ پر قابو پانے کے دعوے تو کیے جاتے ہیں مگر عملی سطح پر اقدامات نظر نہیں آتے، شہر میں تاحال دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں بھی سرعام چلتی دِکھائی دیتی ہیں۔ اس حوالے سے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آلودگی پھیلانے والے عناصر کو کنٹرول نہ کیا گیا تو اسموگ میں ایک بار پھر سے خطرناک حد تک اضافہ ہوسکتا ہے، شہری اسموگ کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے ماسک اور گلاسز کا استعمال لازمی کریں۔ ملک کے بیشتر مقامات پر درجہ حرارت بھی بڑھنے لگا ہے۔ آلودگی کے عفریت کا تدارک نہ کیا گیا تو صورت حال آگے چل کر مزید ہولناک ہوجائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آلودگی کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ہر شہری اس میں اپنا بھرپور حصّہ ڈالے۔ جس طرح لوگ اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، اسی طرح گلی، محلوں، سڑکوں، عوامی مقامات، بازاروں وغیرہ کو بھی صاف ستھرا رکھنی میں ہر کوئی اپنا کردار ادا کرے، کچرا ڈسٹ بن میں ڈالا جائے، عوامی مقامات پر گندا پھیلانے سے گریز کیا جائے۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں اور فیکٹریوں کے خلاف اقدامات کیے جائیں۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے کی اجازت نہ دی جائے۔ شجرکاری مہمات کا زور ڈالا جائے۔ ہر کچھ روز بعد قومی سطح پر مہم میں ہر شہری اپنا حصّہ ڈالے اور پودا یا درخت لگاکر اُس کی آبیاری کی ذمے داری احسن انداز میں نبھائے۔ یقیناً کچھ ہی سال میں صورت حال بہتر رُخ اختیار کر لے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button