Editorial

ملک و قوم کی ترقی کیلئے وزیراعظم کا عزم مصمم

اس میں شبہ نہیں کہ قوم اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ بدترین گرانی کے باعث اُن کے لیے ہر نیا دن کسی کڑے امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ غریب محنت کشوں کے حالات بُرے ہیں۔ متوسط طبقے کا شمار بھی اب غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں کیا جانے لگا ہے۔ پچھلے پانچ برسوں میں مہنگائی کے نشتر قوم پر بُری طرح برستے رہے ہیں، ایسی نظیر پچھلی 70سالہ ملکی تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ معیشت اپنی زبوں حالی پر نوحہ کناں ہے۔ پاکستانی روپیہ تاریخ کی بدترین بے وقعتی کا شکار ہے۔ صنعتیں بند ہونے پر مجبور، کاروبار کی صورت حال مشکل ترین ہے۔ ایسی نازک صورت حال میں موجودہ حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے، معیشت کی بہتری اور استحکام کے لیے کوشاں ہے۔ اتحادی حکومت سر توڑ کوششیں کررہی ہے۔ بعض بڑے فیصلے بھی کیے گئے ہیں، جن کے ثمرات جلد ظاہر ہوں گے۔ حکومت بھی پُرامید ہے اور بارہا ملک کے ڈیفالٹ کرنے کی افواہوں کی تردید کرنے کے ساتھ معیشت کے استحکام اور بہتری کے دعوے کرتی ہے۔ معاشی تباہی کے مفروضے رد کیے جارہے ہیں۔ خوش حالی اور ترقی کی باتیں ہورہی ہیں۔ غریب عوام کے مصائب کا بھی حکومت کو ادراک ہے۔ اس لیے وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی کئی بار غریب مزدوروں کی حالت زار بہتر بنانے کے حوالے سے اپنے خیالات ظاہر کرچکے ہیں۔ بجٹ کی آمد آمد ہے، اس حوالے سے بھی حکومت کی جانب سے غریب اور کاروبار دوست بجٹ کی باتیں کی جارہی ہیں۔ ملک و قوم کی بہتری کے لیے حکومت پُرعزم ہے۔اسی حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ الحمدللہ ملک معاشی تباہی اور انتشار پھیلانے والے عناصر سے پاک ہوا، سابق حکومت نے معیشت تباہ کی جب کہ موجودہ حکومت کی محنت سے ملک میں معاشی استحکام آیا، 13جماعتوں نے پہلی بار اپنی سیاست کو دائو پر لگاکر ریاست کو بچایا۔ بجٹ کا محور ترقی، عوامی فلاح اور کاروبار دوست پالیسیاں ہوں گی۔ آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پوری کردیں، امید ہے رواں ماہ حتمی معاہدہ ہوجائے گا۔ پاکستان کے پاس بیک اپ پلان موجود ہے، عوام نے ماضی میں چیلنجز کا سامنا کیا، ضرورت پڑی تو ’’ ا پنے پیٹ پر پتھر باندھیں گیا’’ اور دوبارہ اٹھیں گے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت حکومتی اتحادیوں کا اہم اجلاس ہوا، جس میں وزیراعظم نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام پر مشاورت کی۔ اجلاس شرکا کو آئندہ بجٹ کے حوالے سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ پی ایس ڈی پی کا حجم 700سے بڑھا کر 950ارب روپے کیا جارہا ہے، بجٹ میں سیلاب متاثرہ علاقوں کی ترقی و تعمیر نو کیلئے خطیر رقم رکھی جارہی ہے، برسوں سے التوا کا شکار نیشنل فلڈ رسپانس پروگرام شروع کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مالی مشکلات کے باوجود بجٹ میں وسائل کے بہترین استعمال کی پالیسی اپنا رہے ہیں، آئندہ مالی سال پاکستان کیلئے معاشی ترقی کا سال ہوگا، آئندہ بجٹ 24۔2023کا محور ترقی، عوامی فلاح اور کاروبار دوست پالیسیاں ہوں گی۔ مزید برآں وزیر اعظم نے متعلقہ محکموں کو عوامی فلاح کے جاری منصوبے فوری مکمل کرنے اور معاشی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبے تشکیل دینے کی ہدایت کی، وزیراعظم نے بجٹ میں پسے ہوئے طبقے کو ریلیف دینے کا عندیہ دیا۔ وزیر اعظم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں ترجیحات کا تعین کرنا ضروری ہے، عوام کی بہتری کیلئے سستے اور معیاری منصوبے بنائے جائیں، گیارہ سو ارب کا وفاقی ترقیاتی پروگرام پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ مزید برآں وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پوری کردی ہیں، امید ہے رواں ماہ آئی ایم ایف کے ساتھ حتمی معاہدہ ہوجائے گا، موجودہ حکومت پاکستان کے عوام اور برادر اور دوست ممالک کی مدد سے بہترین انداز میں چیلنجوں سے نمٹنے میں کامیاب رہی ہے، پاکستان اور ترکیہ مستقبل قریب میں بائیو گیس، شمسی توانائی اور پن بجلی جیسے شعبوں پر توجہ مرکوز کرکے تجارت کو بڑھانے اور باہمی ترقی کو فروغ دینے کے لئے تعاون کو بڑھائیں گے۔ وزیراعظم کے بیانات حوصلہ افزا ہونے کے ساتھ بہتری کی جانب سفر کے حوالے سے نیک نیتی اور حکومتی عزائم کا اعادہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے ہی حوصلوں اور عزائم کی ملک و قوم کو ضرورت بھی ہے۔ پُرعزم قومیں ہی اقوام عالم میں سرخرو قرار پاتی ہیں۔ مایوس قلب اور ذہن کبھی کوئی مثبت کام نہیں کرسکتا۔ اُس کی صبح وشام مایوسی میں ڈوبی رہتی ہیں۔ وزیراعظم نے آئی ایم ایف سے حتمی معاہدے کے جلد ہونے کی نوید سنائی۔ میاں شہباز شریف نے اگلے مالی سال کو معاشی ترقی کا برس قرار دیا ہے۔ ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ بجٹ میں غریبوں کی فلاح کی بات کی، کاروبار دوست پالیسی کو اختیار کرنے کا اعادہ کیا گیا۔ ایسا کرنے کی شدّت سے ضرورت بھی ہے۔ سب سے بڑھ کر حکومت کو آئندہ بجٹ میں غریب عوام کی آسانی کے لیے بڑے فیصلے کرنے چاہئیں۔ وہ پہلے ہی مشکل حالات سے گزر رہے ہیں، مزید بوجھ اُن کے لیے سوہانِ روح سے کم نہ ہوگا۔ معیشت کی استحکام کے لیے درست سمت پر چلا جائے۔ حکومتی اخراجات میں مزید کمی لائی جائے اور کفایت شعاری کی راہ اختیار کی جائے۔ سب سے بڑھ کر خود انحصاری کی پالیسی پر گامزن ہوا جائے۔ ملکی وسائل پر تمام تر توجہ مرکوز کی جائے اور انہی سے مسائل حل کیے جائیں۔
وزیراعلیٰ آفس پنجاب میں پلاسٹک
اشیاء پر پابندی، احسن فیصلہ
گزشتہ روز پاکستان سمیت دُنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا گیا۔ اس مناسبت سے ملک بھر میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا، جن میں مقررین نے ماحولیات کی بہتری کے لیے مفید معلومات شیئر کیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ ملک عزیز بدترین ماحولیاتی آلودگی سے دوچار ہے اور اس کی وجہ سے موسمیاتی تغیر رونما ہورہا ہے۔ سخت سردی اور شدید گرمی کے موسموں سے واسطہ پڑرہا ہے۔ زراعت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ نت نئے امراض جنم لے رہے ہیں۔ آلودگی کے باعث لوگوں کی اکثریت صحت کے مسائل سے نبردآزما ہے۔ یہ تمام تر حقائق تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکریہ بھی ہیں۔ ماحولیات کے عالمی دن کے موقع پر پنجاب حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے حوالے سے ایک بڑا قدم اُٹھایا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق وزیراعلیٰ آفس پنجاب میں پلاسٹک کی اشیاء کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی۔ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے ماحولیات کے عالمی دن کے حوالے سے عوام سے پلاسٹک سے بنی اشیاء کا استعمال ترک کرنے کی اپیل کی ہے۔ محسن نقوی نے کہا کہ ماحولیات کے عالمی دن پر پلاسٹک کی آلودگی کو شکست دینے کا عہد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی آلودگی میں مسلسل اضافہ تشویش ناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پلاسٹک بیگ ناصرف انسان بلکہ جنگلی حیات اور جنگلات کے لیے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔ محسن نقوی نے کہا کہ انسانی زندگی کا دارومدار اور بقا سازگار ماحولیات کی مرہون منت ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے بجا فرمایا، اُن کی اپیل پر عوام کو عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ آفس میں پلاسٹک بیگز پر پابندی احسن اقدام ہے، اس کی توصیف نہ کرنا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ دوسرے صوبوں کی حکومتوں کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہیے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پلاسٹک ہمارے ماحول کے لیے زہر کا سا درجہ رکھتی ہے، جو آلودگی کو مزید بڑھاوا دے رہی ہیں، لیکن افسوس ملک کے طول و عرض میں پلاسٹک بیگز کا استعمال کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اس کے لیے پورے ملک میں سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کاغذ سے بنے بیگز کے استعمال کو رواج دیا جائے۔ اس ضمن میں حکومت اپنا موثر کردار ادا کریں۔ عوام ماحول کی بہتری کے لیے پلاسٹک بیگ کا استعمال ترک کردیں۔ دوسری جانب انسان دوست ماحول بنانا اکیلے حکومت کی ذمے داری نہیں، عوام کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحولیات کی بہتری کے لیے شہری جس طرح اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، اسی طرح عوامی مقامات پر بھی صفائی کا خصوصی خیال رکھیں۔ بازاروں، مزاروں، تفریح گاہوں، سڑکوں اور دیگر مقامات پر کچرا ڈسٹ بن میں ڈالنے کی عادت اپنائیں۔ ماحول کی بہتری کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی مشق موثر ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لیے ہر فرد اپنے حصّے کی شمع روشن کرتے ہوئے لازمی ایک پودا لگائے اور اُس کی باقاعدگی سے آبیاری کرنے کے ساتھ پورا دھیان رکھے۔ ماحولیاتی آلودگی کا چیلنج مشکل ضرور ہے، لیکن اگر عوام نے اپنی ذمے داری صحیح طور پر نبھالی تو جلد اس حوالے سے صورت حال بہتر رُخ اختیار کرلے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button