مراعات یافتہ طبقہ کو سبسڈی
علی حسن
پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرضے کے حصول کے لئے مختلف جتن کئے لیکن آئی ایم ایف ٹس سے مس نہیں ہوا۔ ان کا پیغام بہت واضح ہے جسے حکمران طبقہ نا معلوم کیوں نہیں اب تک سمجھ سکا ہے۔ آئی ایم ایف کی خاتون سربراہ کا کہنا ہے ’’ ہم تو صرف یہ ہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو ایسے اقدامات کرنا چاہئے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک کی طرح کام کرے اور کسی ایسے ملک کی طرح نہیں جو ایک خطر ناک مقام ہو جہاں اسے اپنے قرضے ری سٹکچر کرانے کی ضرورت پیش آئی۔ ہم تو صرف دو باتوں پر زور دے رہے ہیں کہ ٹیکس اچھی طرح جمع کیا جائے اور دوم کہ پیسہ ان لوگوں پر خرچ کیا جائے جو حقیقت میں اس کے ضرورت مند ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ دولت مند افراد کو سبسڈی فراہم کی جائے۔ یہ بہت واضح ہے کہ ہم پاکستان کے غریبوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
جس بات پر آئی ایم ایف کی سربراہ زور دے رہی ہیں، حکومت پاکستان اس پیرائے میں کیوں نہیں سوچتی ہے۔ ایسا کیوں نہیں سوچا جائے۔ پاکستان کے زندگی گزارنے کے لئے ضرورتوں اور سہولتوں سے محروم عوام کی یہ ہی تو کہانی ہے کہ انہیں کچھ نہیں تو کم از کم دو وقت کی پیٹ بھر کر روٹی تو میسر ہو اور اس سے بھی بہت زیادہ فراہم کیا جائے۔ وسائل سے محروم عوام یہ ہی تو سوال کرتے ہیں کہ دنیا بھر سے قرضے اور امداد وصول کی جاتی ہے لیکن ان پر خرچ نہیں کی جاتی۔ ایک سے کہیں زیادہ مواقعوں پر حکومتیں لوگوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھنے میں ناکام رہی ہیں۔ حکومت پاکستان بہت بڑے پیمانے پر مختلف اشیاء پر سبسڈی فراہم کرتی ہے۔ لیکن اس کے معمولی اثرات بھی غریب عوام تک نہیں پہنچتے ہیں۔ ایک ہی مثال لے لیں۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت زراعت کے لئے کھاد پر کسانوں کو سبسڈی فراہم کرے گی۔ لیکن عملا یہ سبسڈی کی رقم ایک طرح سے زمینداروں کی جیب میں ہی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح جس جس شعبے میں سبسڈی فراہم کی جاتی ہے، اس سے ضرورت مند اور غریب لوگ مستفید نہیں ہو پاتے ہیں۔ معیشت کے معروف پروفیسر اکمل حسین کہا کہنا ہے ’’ اشرافیہ سے معیشت اور اشرافیہ کیلئے معیشت کے طریقے کو ختم کرنا ہوگا اور تبدیلی ضرور آئے گی۔ اس کیلئے آپ کو معیشت کی سمت کو بھی بدلنا پڑے گا، اس کا پورا ڈھانچہ تبدیل کرنا پڑے گا۔ اس وقت جو ڈھانچہ ہے، وہ یہ ہے کہ یہ معیشت اشرافیہ کے اتحاد کیلئے چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ بیرونی قرض دہندگان کے قرضے واپس کرنے کیلئے چل رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ عالمی اور ملکی اشرافیہ کی معیشت ہے۔ اصل میں اس معیشت کو عوام کیلئے چلنا چاہیے، عوام کی بہتری کیلئے کام کرنا چاہیے۔ اس کیلئے اسکی سمت اور ڈھانچہ بدلنا پڑے گا۔ اس کیلئے بیرونی قرضوں کی بنیاد پر ترقی کی بجائے لوگوں کی صلاحیتیں نکھار کر اور بروئے کار لا کر ترقی حاصل کی جائے۔ لوگوں کی صلاحیتوں کو سرمایہ کاری کر کے ابھاریں اور پھر انہیں ترقی کیلئے بروئے کار لائیں‘‘۔
کچھ سال قبل ایشین ڈیولپمنٹ بنک نے ’’ انصاف تک رسائی ‘‘ کے عنوان سے حکومت پاکستان کو قرضہ فراہم کیا تھا۔ جیسا نام سے ظاہر ہے کہ انصاف تک رسائی کی خاطر رقم مہیا کی گئی تھی لیکن پاکستان خصوصا سندھ میں وہ رقم عدالتوں کی بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر پر خرچ کر دی گئی۔ عمارتوں کی ضرورت ضرور تھی اور رہے گی لیکن اس طریقے کار سے ان غریب لوگوں کو کیا فائدہ پہنچا جو انصاف کے حصول کے لئے عدالتوں کے چکر لگاتے رہ جاتے ہیں اور اپنا آخری اثاثہ بھی اس امید پر فروخت کر دیتے ہیں تاکہ وکیل حضرات کی فیس ادا کر سکیں تاکہ انہیں انصاف مل جائے۔ ایشین ڈیولپمنٹ بنک نے یہ رقم ایسے ہی لوگوں کے لئے فراہم کی تھی جو وسائل نہ ہونے کی وجہ سے انصاف کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی نے لکھا کہ قرضے میں ڈوبا ایک بیٹا بے فکر ہو کر سگریٹ کے کش لگا رہا تھا تو پڑوسی نے کہا کہ جناب کوئی کام دھندہ کیوں نہیں کرتے اتنا قرض کیسے اتارو گے؟ جس پر بیٹے نے جوان دیا اب کے دونوں گردے موجود ہیں ہم کیوں ٹینشن لیں‘‘۔ پاکستان کے موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور سابق حکومتیں پاکستان کے ساتھ یہ ہی تو کرتی رہیں ہیں کہ انہوں نے اس ملک کے اثاثے فروخت کر کر کے قرضے اور اس پر واجب الادا سود ادا کیا ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے حال ہی میں کہا ہے کہ ’’ ٹریلین ڈالر کے اثاثے موجود ہیں ، پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا‘‘۔ کیا یہ ٹریلین ڈالر کے اثاثے موجودہ حکومت نے بنائے ہیں؟ وزیر خزانہ کا یہ کہنا پاکستان کے غریب عوام کے ساتھ کتنا ظالمانہ ہے کہ ’’ ہمارے ہاتھ آئی ایم ایف کی وجہ سے بندھے ہوئے ہیں ورنہ ہم تو عوام کو بجٹ میں ریلیف دینا چاہتے تھے‘‘۔
ممتاز ماہر معاشیات اکمل حسین سے ایک انٹرویو میں فاروق سلہریا نے سوال کیا گیا کہ ہر روز میڈیا پر یہ بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کی طرف جا رہا ہے۔ یہ بتائیں کہ ڈیفالٹ ہوتا کیا ہے اور عام آدمی کو اس سے کیا فرق پڑے گا؟ ڈاکٹر اکمل کا جواب تھا ’’ بالکل سادہ طریقے سے اگر اس کا جواب دیا جائے تو ڈیفالٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو آپ نے قرضے لئے ہوئے ہیں ان کی قسطیں اور سود ادا کرنے کے آپ قابل نہ رہیں۔ جن لوگوں نے آپ کو قرضے دیئے ہوئے ہیں، انہیں آپ یہ کہہ دیں کہ آپ قرضے واپس نہیں کر سکتے۔ یہ ساورن ڈیفالٹ (Sovereign Default) ہے، یعنی ملک یا ریاست کا ڈیفالٹ ہے۔ جہاں تک عام آدمی پر اس کے اثرات کا تعلق ہے، تو یہ ایسے ہی ہے کہ اگر آپ روز مرہ زندگی کی ضرورت کی اشیا قرض لیکر یا کریڈٹ کارڈ کے ذریعے سے خریدتے ہیں اور اگر آپ کا کریڈٹ کارڈ منسوخ ہو جائے تو آپ روز مرہ کی چیزیں نہیں خرید سکیں گے۔ جہاں تک معاشیات کا تعلق ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ باہر کے ملکوں سے کوئی چیز بھی درآمد نہیں کر سکیں گے کیونکہ جب آپ ڈیفالٹ کر جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کے پاس غیر ملکی زرِمبادلہ ( فارن ایکسچینج) یا ڈالر ہی موجود نہیں ہے۔ ایسی صورت میں کوئی بھی ملک آپ کو مصنوعات نہیں دے گا۔ اس وقت پاکستان کے اندر بننے والی 40 فیصد اشیا کا خام مال وغیرہ باہر سے آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ 40 فیصد مصنوعات تیار ہونی بند ہو جائیں گی۔ جو مصنوعات باہر سے درآمد کرتے ہیں وہ تو مکمل بند ہو جائیں گی۔ باہر سے آپ سب سے بڑی چیز تیل درآمد کرتے ہیں۔ تیل کے ساتھ آپ کی بجلی کا تقریباً 60 فیصد حصہ بنتا ہے۔ تیل سے بننے والی بجلی بند ہو جائیگی تو بجلی کی قلت ہو جائے گی۔ تیل نہ آنے سے ٹرانسپورٹ نہیں چل سکے گی۔ اس کا قومی دفاع پر بھی اثر پڑے گا۔ ایئرفورس کے لئے بھی فیول چاہیے، فوج کی نقل و حمل کیلئے، ٹینکوں اور گاڑیوں کیلئے بھی تیل چاہیے ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ فوج کے پاس کچھ سٹریٹجک ذخائر ہوتے ہیں، وہ مجھے نہیں پتہ کتنے عرصہ تک چل سکتے ہیں۔ اسی طرح کھاد اور کیڑے مار ادویات درآمد نہیں ہو سکیں گے، جس سے زراعت پر بہت برا اثر پڑے گا۔ ٹیوب ویل نہیں چلیں گے، بہت سے علاقوں میں ٹیوب ویل کی بنیاد پر کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ اس طرح گندم کی پیداوار جو پہلے ہی ناکافی ہے، اور زیادہ کم ہو جائے گی۔ یوں ایک صورت ہوتی ہے کہ افراط زر ہو، یعنی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، لیکن ایک صورتحال یہ ہوتی ہے کہ چیزیں ملتی ہی نہیں ہیں۔ پٹرول اور گندم ملنا بند ہو جائینگے، بیشتر ضروریات زندگی کی اشیا بننا بند ہو جائیں گی۔ اس طرح سے سارے ملک میں اشیا کی ایک ہمہ گیر قلت آئے گی، جو پاکستان کی تاریخ میں نہیں آئی ہے۔ جب آپ کی گھروں، فیکٹریوں اور ہسپتالوں میں بجلی نہیں ہو گی۔ ادویات کا زیادہ تر خام مال باہر سے ہی درآمد ہوتا ہے، وہ بھی بنی بند ہو جائیں گی۔ اس سب کے عام آدمی کی زندگی پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں، یہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ہماری فوج دو تین مہینے کے بعد اپنا کام کرنے سے قاصر ہو جائے گی۔ یہ سب ایک خوفناک نتائج لے کر آئے گا۔ ڈیفالٹ نہ بھی کریں تو قحط کا خطرہ ہے۔ ڈیفالٹ ہونے کے بعد تو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اس کے پھر سیاسی نتائج بھی ہونگے۔
آئی ایم ایف کے ایک امریکی عہدیدار نے بھی آئی ایم ایف کی سربراہ ہی طرح کم و پیش برہمی میں یہ ہی کہا کہ ’’ آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک جو مالی مدد کرتا ہے وہ عام لوگوں کی فلاح پر خرچ ہو نے کی بجائے اقتدار میں رہنے والا طبقہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ ایسی صورت میں قرضہ دینے یا مدد فراہم کرنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے‘‘۔