Editorial

سستی توانائی کے حصول کیلئے راست اقدامات ناگزیر

ملک میں توانائی کی کمی سنگین مسئلہ ہے، جو عرصۂ دراز گزرنے کے باوجود تاحال حل نہیں ہوسکا ہے۔ 15، 20سال پہلے بجلی کی کمی کے حوالے سے جو حالات درپیش تھے، ویسی ہی صورت حال اب بھی نظر آتی ہے۔ گو مسلم لیگ ن کی سابق حکومت نے اپنے دور میں ملک سے لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ کر دیا تھا۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی، اسے عوامی سطح پر بھی سراہا گیا تھا، تاہم نئی آنے والی حکومت اس سلسلے کو برقرار نہ رکھ سکی، ملک میں بجلی کی کمی کی صورت حال نے جنم لیا، جس پر قابو پایا نہ جاسکا، ملک میں پھر توانائی کے مسئلے نے سر اُٹھایا اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا جن بے قابو ہوتا دکھائی دیا۔ موجودہ گرمی میں ملک کے مختلف حصوں سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ توانائی کی کمی کے مسئلے کو بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع کے ذریعے پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں شدید گرم موسم چل رہا ہے، بجلی کی کھپت زیادہ اور پیداوار کم ہے۔ موجودہ حکومت ان نامساعد اور مشکل حالات میں بھی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بروقت اقدامات ممکن بنارہی ہے، اسی حوالے سے ایک بڑا منصوبہ محض ڈھائی ماہ کی مدت میں پورا کیا گیا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی نے 500کے وی تھر مٹیاری ٹرانسمیشن لائن کو ڈھائی ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل کرلیا ہے۔ ایم ڈی این ٹی ڈی سی انجینئر ڈاکٹر رانا عبدالجبار خان کی سربراہی میں ایران سے 100میگاواٹ بجلی کی ترسیل کے لیے ٹرانسمیشن لائن اور تھر سے سستی بجلی کو قومی گرڈ اسٹیشن میں شامل کرنے کے لیے ٹرانسمیشن لائن ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کی گئی۔ اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ 220کلومیٹر طویل ٹرانسمیشن لائن کو این ٹی ڈی سی نے اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے قریباً 15ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا جو سستی بجلی کو نیشنل گرڈ میں شامل کرے گی، یہ منصوبہ پاکستان کی مستقبل کی توانائی کی ضروریات کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس کے ذریعے تھر میں کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کی ملک کے دوسرے حصوں تک ترسیل کی جائے گی۔ اس ٹرانسمیشن لائن نے تھر میں 1320 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے شنگھائی الیکٹرک پاور کمپنی کے پاور پلانٹ کو حیدرآباد کے قریب مٹیاری کنورٹر اسٹیشن سے منسلک کیا ہے، جس سے ملک کا ٹرانسمیشن کا نظام مزید بہتر ہوا ہے۔ تھر مٹیاری ٹرانسمیشن لائن اس سال این ٹی ڈی سی کی جانب سے مکمل کیا گیا دوسرا منصوبہ ہے، جسے متعدد چیلنجز کے باوجود منیجنگ ڈائریکٹر این ٹی ڈی سی انجینئر ڈاکٹر رانا عبدالجبار خان کی سربراہی میں مکمل کیا گیا، اس سے پہلے پولان تا جیوانی ٹرانسمیشن لائن کو بھی این ٹی ڈی سی نے ریکارڈ مدت میں مکمل کیا ہے، جس کے ذریعے ایران سے گوادر کے لیے مزید 100 میگاواٹ بجلی درآمد کی جائے گی۔ یہ بلاشبہ بڑی کامیابی قرار دی جاسکتی ہے۔ عموماً وطن عزیز میں عوامی مفاد کے منصوبے غیر معمولی تاخیر کا شکار ہوتے ہیں اور بعض کو تو سالہا سال تک لٹکایا رکھا جاتا ہے۔ ریکارڈ ڈھائی ماہ میں اس عظیم منصوبے کی کامیابی کے ساتھ تکمیل ایک بڑا سنگ میل ہے، جسے انتہائی جانفشانی کے ساتھ طے کیا گیا۔ بلاشبہ اس کا کریڈٹ این ٹی ڈی سی کو جاتا ہے اور حکومت کی توصیف نہ کرنا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا، جو توانائی کی پیداوار کے منصوبوں میں ناصرف گہری دلچسپی لے رہی ہے، بلکہ ان کی جلد تکمیل کے حوالے سے بھی پُرعزم دکھائی دیتی ہے۔ جیسا کہ ملکی آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور وہ موجودہ جاری مردم و خانہ شماری میں 25کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ آبادی بڑھ رہی تو ظاہر ہے توانائی کی ضروریات بھی اُسی تناسب سے بڑھیں گی۔ حکومت سے ان سطور کے ذریعے گزارش ہے کہ وہ بڑھتی آبادی کے تناظر میں اسی تناسب سے توانائی کی پیداوار میں اضافے کی خاطر پیشگی راست اقدامات ممکن بنائے۔ ملک میں پہلے ہی بجلی خاصی گراں ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کے حصول کے مہنگے ذرائع سے بتدریج نجات حاصل کی جائے اور ارزاں ذرائع پر توجہ مرکوز کی جائے۔ بجلی کی پیداوار کے لیے جتنے بھی نئے منصوبے بنائے جائیں وہ سستے ثابت ہوں۔ سستے ذرائع (ہوا، سورج، پانی) سے بجلی کی پیداوار کی جائے۔ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ منصوبے بنائے جائیں۔ دوسری جانب ہم کہنا چاہیں گے کہ چھوٹے ہوں یا بڑے ڈیمز وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ آبی ذخائر جتنے زیادہ ہوسکیں، ان کے منصوبے بنائے جائیں اور مذکورہ بالا عظیم الشان منصوبے 500کے وی تھر مٹیاری ٹرانسمیشن لائن کی طرح ان کو بھی ریکارڈ مدت میں مکمل کیا جائے۔ اس حوالے سے بغیر کسی لیت و لعل ابھی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم پہلے ہی آبی ذخائر کی تعمیر کے لحاظ سے دُنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں خاصے پیچھے رہ گئے ہیں۔ آبی ذخائر نہ ہونے کے باعث ہر سال ہمیں سیلابی صورت حال کا سامنا رہتا ہے۔ جس سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوتے ہیں۔ آبی قلت کے زراعت پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے آبادی کے تناسب سے ڈیموں کی کمی کے باعث ملک بھر کے مختلف حصوں میں آئے روز آبی قلت کی صورت حال درپیش رہتی ہے۔ لوگ برتن اُٹھائے پانی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ توانائی کی کمی اور آبی قلت کو پورا کرنے کے لیے سنجیدگی سے منصوبے بنائے گئے اور انہیں بروقت مکمل کرلیا گیا تو ان کے آئندہ وقتوں میں انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ملک میں ناصرف وافر بجلی میسر ہوگی بلکہ پانی کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہوسکے گا۔
دودھ، دہی کی قیمتوں میں من مانا اضافہ
پچھلے چند سال سے ملک میں مہنگائی کا بدترین طوفان بپا ہے، جس کی زد میں غریب عوام آرہے ہیں، گرانی کے عذاب کے باعث ملکی آبادی کا بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود اب بھی مہنگائی کا سلسلہ تھما نہیں، بلکہ اس میں اور شدت محسوس ہورہی ہے۔ پورے ہی ملک سے کھلے دودھ اور دہی کی قیمتوں میں شیر فروشوں کی جانب سے ازخود اضافے کی بازگشت سنائی دے رہی ہیں۔ ملک کے گوشے گوشے سے لوگ اس پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں اور قیمتوں میں من مانے اضافے کو مسترد کرتے ہوئے پرانی قیمتوں پر ان کی فروخت یقینی بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ خاص طور پر سندھ میں اس حوالے سے صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے، جہاں کئی شہروں میں دودھ 210روپے لٹر تک جا پہنچا ہے جب کہ دہی کے نرخ 300کی حد کراس کر چکے ہیں۔ اس حوالے سے تازہ خبر لاہور سے آئی ہے، جس کے مطابق ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن نے ازخود کھلے دودھ اور دہی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا، ڈبے کے دودھ کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ کھلے دودھ کی قیمت میں 20روپے اور دہی کی قیمت میں 30روپے کلو اضافہ کیا گیا ہے۔ نئی قیمتوں کے مطابق 20روپے اضافے سے فی کلو دودھ کی قیمت 170روپے، گڑوی کی قیمت 20روپے اضافی سے 190روپے جب کہ دہی کی قیمت 30روپے کے اضافے سے 210روپے فی کلو ہوگئی۔ ضلعی انتظامیہ خاموش تماشائی بن گئی۔ شہریوں نے دودھ اور دہی کی قیمتوں میں انتہائی زیادہ اضافہ کرنے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے انتظامیہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں دودھ اور دہی کی قیمتوں کو مناسب سطح پر لانے کے لیے اقدامات کئے جائیں۔ شیر فروشوں کی من مانیوں پر قابو پایا جائے۔ عوام کو ان کے رحم و کرم پر ہرگز نہ چھوڑا جائے۔ سرکاری سطح پر مقرر نرخوں پر دودھ اور دہی کی فروخت کو ہر صورت یقینی بنایا جائے، جو اس سے زائد پر یہ اشیاء بیچتا دکھائی دے، اس سے قانون کے مطابق نمٹا جائے۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button