ColumnImtiaz Aasi

ایسا کبھی نہیں ہوا .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

ہمیں حقیقت تسلیم کرنے میں عار محسوس نہیں کرنی چاہیے بلکہ حقیقت کی روشنی میں حالات کا ادراک کرکے فیصلے کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ جس روز سیاست دانوں نے ملکی حالات کو حقیقت کے آئینے میں دیکھ کر مستقبل کا ادراک کر لیا ملک و قوم کے گوناگوں مسائل حل ہو جائیںگے۔ ایک شور غوغا ہے9مئی کو ملک میں جو کچھ ہوا ستر سالوں میں نہیں ہوا تھا۔ سوچنے کی بات ہے آخر یہ سب کچھ کیوں ہوا وہ کون سے عوامل تھے جن کی بنا عوام کا سمندر سڑکوں پر امڈ آیا تھا۔ ہم عمران خان کی حکومت جانے کی بات نہیں کریں گے بلکہ اس کے بعد ہونے والے واقعات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ دراصل پنجاب کے ضمنی الیکشن نے نون لیگ کا بھرم کھول دیا ورنہ وہ پنجاب کو اپنا قلعہ ہی سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر اور حکیم وہی قابل اور اچھا ہوتا ہے جو مریض کا مرض جان کر اس کا علاج معالجہ کرے۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن کے بعد سمجھ داروں کو عوام کے رجحان کا ادراک کرتے ہوئے عام انتخابات کو کچھ مہینے پہلے کرانے کا فیصلہ کرکے حالات کو خراب ہونے سے بچا لینا چاہیے تھا۔ مگر کیا کرے کوئی جب عقل پر پردہ پڑ جائے اور حواس جواب دے جائیں تو پھر ایسی صورت میں انسان کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا بھلا ہو جو انہوں نے ملک کو خانہ جنگی سے بچا لیا ورنہ تو حالات جانے کدھر کو چلے جاتے۔ حکومت اور اس کے اتحادیوں کو سمجھ نہیں آرہا وہ کیا کریں عوام کو ریلیف دینے کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کریں۔ بس اقتدار کے چھن جانے کی فکر لاحق ہے اور عمران خان کا خوف کھائے جا رہا ہے۔ ہمارا ملک دہشت گردی کا شکار ہے۔ افواج کے بہادر سپوت ہر روز جانوں کے نذرانے پیش کرکے ملک میں امن قائم کرنے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کر رہے ہیں لیکن اقتدار کے بھوکوں کو اپنے اقتدار کی فکر ہے۔ انتخابات کے لئے تو فنڈز ہیں اور نہ قانون نافذ کرنے والے ادارے فارغ تھے۔9مئی کے بعد تمام اداروں کے اہل کار سڑکوں پر موجود تھے۔ عوام اتنے بھی اندھے نہیں جیتنے سیاست دان انہیں سمجھ رہے ہیں۔ عوام نے ایک طویل عرصے تک دو جماعتوں کی حکمرانی کا مزا چکھ لیا۔ ہمیں مولانا فضل الرحمان پر ترس آرہا ہے وہ بے چارے نواز شریف، مریم نواز اور فریال تالپور کا رونا رو رہے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے کون سی انہونی کر دی ہے جو انہیں ناگوار گزری ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے پرامن دھرنا دینے سے کیا ہوگا۔ مدارس کے بچوں کو لے آنے سے کیا عدلیہ خائف ہو جائے گی۔ عمران خان نے اسلام آباد میں ایک طویل دھرنا دیا کیا نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔ مولانا فضل الرحمان کو نواز شریف کا پچاس روپے کے اسٹامپ پیپر پر ضمانت کے بعد لندن جانے کا یاد نہیں رہا انہیں اس کا ذکر بھی کرنا چاہیے تھا۔ اس وقت عدلیہ بہت اچھی تھی اور اس کے فیصلے صائب تھے۔ جج صاحبان کو ابتدائی رپورٹ پڑھنے کے بعد مقدمہ کی صداقت کا پورا علم ہو جاتا ہے۔ تعجب ہے مقدمات پر مقدمات بنائے جا رہے ہیں پھر بھی کہہ رہے ہیں عمران خان کے ساتھ خصوصی برتائو ہو رہا ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد انتخابی اصلاحات لانے کا اعلان کیا تھا وہ تو کھوہ کھاتے میں چلی گئیں نیب مقدمات تو ختم کرا لئے ہیں۔ دو جماعتوں نے عشروں تک ملک اور عوام سے جو کھلواڑ کیا ہے اس کے خاتمے کا وقت آگیا ہے۔ حالات کسی کے کنٹرول میں نہیں ہیں عوام کو ووٹ دینے سے نہیں روکا جا سکتا وہ تبدیلی کے منتظر ہیں۔ پی ڈیم ایم نے کبھی غور کیا ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے ساتھ جو کچھ ہوا عوام سڑکوں پر نہیں آئے۔ آخر کیا وجہ سے عمران خان کے نام پر عوام دیوانہ وار سڑکوں پر چلے آتے ہیں۔ ٹھیک ہے عمران خان نے اپنے دور میں عوام کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہائی ہیں البتہ اس نے ایون فیلڈ میں عالی شان محلات اور سوئس بنکوں میں پیسے نہیں رکھے ہیں۔ القادر ٹرسٹ کیس سامنے آیا ہے، حقائق عوام کے سامنے آجائیں گے۔ کسی پر الزام کی صورت میں اسے پھانسی پر تو نہیں چڑھایا جا سکتا۔ یہاں تو سب کچھ ثابت ہونے کے باوجود انہیں اقتدار سے نوازا جاتا ہے۔ عوام کی آخری امید عدلیہ ہے۔ ہمیں تو خود اس بات کا تجربہ ہے فریق ثانی کے اثر و رسوخ کے باوجود اس ناچیز کو سپریم کورٹ نے موت کی کال کوٹھڑی سے نکالا تھا۔ ہمارے ہاں ماحول کچھ اس طرح کا بن چکا ہے سیاست دانوں کو عدلیہ سے ریلیف ملے تو انصاف ہے سزا ملے تو ناانصافی ہوئی۔ چیف جسٹس صاحب نے عمران خان کو دیکھ کر کہہ ہی دیا تھا انہیں دیکھ کر خوشی ہوئی ہے تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ساتھ انہوں نے عمران خان سے اپنے ورکرز سے پرامن رہنے کا حکم بھی دیا ہے۔ دوسری بات کسی کو یاد نہیں بس دیکھ کر خوش ہونے پر آگ بگولہ ہوگئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دے کر دیکھ لیں مدارس کے بچے تو لے آو گئے عوام کبھی نہیں آئیں گے سپریم کورٹ بار اور دیگر وکلا تنظیمیں سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہیں۔ عمران خان کے دور میں مولانا نے دھرنا دے کر دیکھ لیا نہ تو مسلم لیگی اور نہ پیپلز پارٹی کے ورکر شریک ہوئے تھے۔ عمران خان پولیس کی کسٹڈی میں تھا اور گھیرائو جلائو کی ذمہ داری ڈالی جا رہی ہے۔ کوئی شخص پولیس کی کسٹڈی میں ہو یا جوڈیشل ہو گیا ہو تو باہر ہونے والے واقعات کی ذمہ داری اس پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے، کیا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے؟۔ ہاں یہ ضرور ہے کسی کو خراب کرنا ہو تو ایسا ممکن ہے، ایسے مقدمات میں سزائیں نہیں ہوتیں۔ البتہ یہ سچ ہے ستر سال میں نہ تو کسی سزا یافتہ مجرم کو ملک سے باہر بھیجا گیا اور نہ عوام کبھی سڑکوں پر ایسے نکلے تھے جیسا کہ9مئی کو نکلے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button