Editorial

9مئی کے ذمے داروں کیخلاف آرمی چیف کا عزم مصمم

چند روز قبل ملک کو خانہ جنگی کا شکار کرنے کی بھونڈی سازش کی گئی۔ شرپسند عناصر نے بدمست ہاتھی کی طرح امن و امان کی صورت حال کو روند ڈالا۔ انتہائی بے دردی اور سفّاکی کے ساتھ سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ بانی پاکستان سے منسوب نوادرات کا تقدس پامال کیا گیا، اس سلوک پر قائداعظم محمد علی جناحؒ کی روح بھی تڑپ اُٹھی ہوگی۔ اُنہوں نے ایسا تو کبھی خواب میں نہیں سوچا ہوگا۔ ملکی سلامتی اور حفاظت کے ضامن ادارے کی اہم تنصیبات پر حملے کرکے مذموم ترین کوشش کی گئی۔ ایسا تو پچھلے 75برسوں میں کبھی کھلا دشمن بھی نہ کر سکا، جو ملک میں موجود شرپسند عناصر نے کر ڈالا۔ سرکاری دفاتر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی۔ اسلام آباد، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے۔ پورے ملک میں افراتفری کا عالم تھا۔ پُرامن شہری شدید خوف و ہراس کا شکار تھے۔ اُن کی لاتعداد گاڑیوں کو ملک کے مختلف شہروں میں آگ کی نذر کر دیا گیا۔ تین روز تک وہ بدترین غل مچایا گیا، جس کی قومی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ کاروبار زندگی معطل رہا۔ دیہاڑی دار طبقے نے اپنی زندگی کے مشکل ترین ایام گزاری۔ موبائل انٹرنیٹ سروس بند ہونے سے اس سے بہت سے روزانہ کی بنیاد پر روزگار کما کر اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے والوں کے دل خون کے آنسو رو رہے تھے۔ وہ اس دوران سخت اذیت سے گزرے کہ تین دن کی بے روزگاری کو یہ غریب کسی طور برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ 9سے 11مئی تک معیشت کا پہیہ جام کر دیا گیا، جس سے ملک کو اربوں روپے کا دھچکا پہنچا۔ پیٹ بھرے شرپسندوں کو اس کی کہاں پروا تھی۔ وہ تو ریاست اور ادارے کی دشمنی میں تمام تر حدیں پار کر چکے تھے۔ ملکی سلامتی کے ضامن ادارے کے خلاف مذموم نعرے لگاتے رہے۔ نہ جانے کس کے ایمائ پر یہ قابل مذمت مہم تواتر کے ساتھ عرصۂ دراز سے وطن عزیز میں بعض عناصر پروان چڑھارہے ہیں۔ شرپسند عناصر کسی طور رعایت کے مستحق نہیں، ملک کو خانہ جنگی کی صورت حال سے دوچار کرنے کے ذمے داران کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔اس کا اظہار آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ 9مئی کو مشتعل افراد، اس پر اُکسانے اور عمل کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کور ہیڈ کوارٹرز پشاور کا دورہ کیا، جہاں انہیں موجودہ سیکیورٹی صورتحال اور انسداد دہشت گردی کی جاری کوششوں پر بریفنگ دی گئی۔ آرمی چیف نے کور کے افسران سے خطاب کیا اور کہا کہ ہم امن اور استحکام کی اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ آرمی چیف کا قومی سلامتی کو درپیش خطرات پر زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ امن و استحکام کے عمل کو خراب کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی، پاک افواج تنصیبات کے تقدس کی خلاف ورزی کی مزید کسی کوشش کو برداشت نہیں کریں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ 9مئی یوم سیاہ کی کارروائیوں کے تمام منصوبہ سازوں، مشتعل افراد، اس پر اُکسانے اور عمل کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے اور پاک افواج اپنی تنصیبات کو جلانے کی مزید کسی کوشش کو برداشت نہیں کریں گی۔ جنرل عاصم منیر نے انفارمیشن وار فیئر اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا اور کہا کہ دشمن عناصر کی جانب سے مسلح افواج کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے، عوام کے تعاون سے ایسی مذموم کوششوں کو ناکام بنایا جائے گا۔ یوم سیاہ 9مئی کے ذمے داران کو ہر صورت انصاف کے کٹہرے میں لانے اور قانون کے مطابق اُن سے نمٹنا ناگزیر ہے۔ اس حوالے سے موثر حکمت عملی کے ساتھ کارروائیاں ضروری ہیں۔ تمام ذمے داروں کا تعین کرکے اُن سے قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔ اُن کو نشانِ عبرت بنادیا جائے کہ آئندہ کوئی اس دھرتی کے خلاف مذموم سازش کا سوچتے ہوئے بھی کانپے۔ ان سطور کے ذریعے دشمنوں سے عرض ہے کہ محب وطن عوام پاک افواج سے بے پناہ محبت اور اُن کی عزت و احترام کرتے ہیں۔ پاک افواج کے ہر افسر اور جوان پر قوم کو فخر ہے۔ اُن کی ملک و قوم کے لیے قربانیاں کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں۔ دشمن قوتیں اوراُن کے سہولت کار چاہے افواج پاکستان کا امیج عوام کی نظروں میں خراب کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں، وہ اس مذموم مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے، وہ محب وطن عوام کے دلوں سے پاک افواج کی محبت اور عزت کو کسی طور کم نہیں کر سکتے، بلکہ یہ رشتہ وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ہماری افواج نے ملک میں قیام امن کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے بغیر کسی کی مدد کے چھٹکارا دلایا ہے۔ ملک کے دشمن دہشت گردوں کو اُن کے گھروں میں گھس کر جہنم واصل اور گرفتار کیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب اور ردُالفساد کو ملک عزیز کے بدترین ناقدین نے بھی بڑی کامیابیاں قرار دیا ہے اور دہشت گردی کے عفریت کو قابو کرنے میں پاک افواج کے کردار کی تعریف و توصیف کی ہے۔ دہشت گردی کو دُم دبا کر جانیں بچاکر بھاگنے پر مجبور کرنے والے یہ بہادر فوجی اور وطن کے قابل فخر سپوت ہی تھے۔ اب بھی وہ ظاہر و پوشیدہ دشمنوں کا قلع قمع کرکے دم لیں گے۔ کم وسائل اور مسائل کے باوجود ہماری افواج ملک و قوم کی حفاظت، امن و استحکام اور دشمنوں کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہر دم چوکس و تیار ہیں۔
مائوں کا عالمی دن، کیا ایک روز میں حق ادا ہوگیا؟
ماں وہ ہستی ہے، جس کی چھائوں اگر میسر ہو تو زمانے کے سرد گرم حالات بھی انسان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس کی دعائیں انسان کیلئے کسی عظیم نعمت سے کم نہیں ہوتیں۔ ماں وہ ہستی ہے جو ہر فرد کی پہلی درس گاہ ثابت ہوتی اور اس کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ گزشتہ روز انہی عظیم ہستیوں یعنی مائوں کا عالمی دن دُنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی منایا گیا، اس دن کو منانے کا مقصد عوام الناس کو ماں کے رشتے کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دینا، اس کی محبت اجاگر کرنا اور اس کے لیے شکرگزاری کے جذبات کو فروغ دینا ہے۔ اس تناظر میں آج اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو انتہائی مایوس کن صورت حال سے واسطہ پڑے گا۔ مائوں کی کسمپرسی ہمارا منہ چڑا رہی ہوگی۔ بڑی تعداد میں بوڑھے ماں باپ بے یارومددگار دکھائی دیں گے، جو اولادوں کے ہوتے ہوئے بھی در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور اور دانے دانے کو ترس رہے ہوں گے۔ اس پریشان کُن صورت حال کی وجوہ جاننے کی کوشش کی جائے تو یہ حقائق سامنے آئیں گے کہ موجودہ دور میں ہم اخلاقیات سے دور ہوگئے ہیں اور افسوس کا مقام تو یہ ہے ہم اسلام کے احکامات پر بھی عمل نہیں کر رہے۔ اسلام تو والدین سے حُسن سلوک کا درس دیتا ہے۔ اُن کے سامنے اُف تک کرنے سے منع کرتا ہے۔ کیا آج کی اولادیں ایسا کرتی ہیں؟ والدین سے بدزبانی اور دل دُکھانے والے سلوک تو معمول بن چکے۔ اولادیں اتنی مصروف ہوگئیں کہ ان کے پاس ماں باپ کے پاس بیٹھنے، باتیں کرنے کا وقت تک نہیں۔ حتیٰ کہ دورِِ جدید کی اولادیں والدین کو زندگی جینے کا پاٹ پڑھا رہی ہوتی ہیں، یہ سوچے بِنا کہ جنہیں ہم آج دُنیا کے دستور سِکھا رہے ہیں، اُنہی کی اُنگلی پکڑ کر ہم نے چلنا سیکھا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مغرب کی تقلید میں ہمارے ہاں بھی اولڈ ہاؤس بن رہے ہیں، ایسے میں صورت حال اس نہج تک پہنچ چکی کہ والدین کو اولادیں گھروں سے نکال رہی ہیں یا خود ان کو چھوڑ کر الگ ہورہی ہیں اور اپنی اس بے حسی پر اُنہیں ذرا بھی ندامت نہیں ہوتی۔ اس بدترین سلوک پر بھی والدین خصوصاً ماں کے دل سے اپنی اولاد کے لیے بددعا کا ایک لفظ تک نہیں نکلتا۔ وہ ہمیشہ اپنی اولاد کے بھلے کے لیے دعاگو رہتی ہے۔ کیا ایسی عظیم ہستی کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنا اولادوں کو زیب دیتا ہے۔ مائوں کے عالمی دن کے حوالے سے بات کی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف ایک دن ماں کے نام مخصوص کرکے اس عظیم رشتے کا حق ادا کردیا گیا۔ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہی ہوگا۔ مائوں کے لیے تو پورا سال ہی ہونا چاہیے، کیوںکہ اولاد جب چھوٹی عمر میں ہوتی ہے تو اُس کے لیے تو ماں نے کوئی ایک دن مخصوص نہیں کیا ہوتا، وہ تو پورا سال ہی اپنی اولاد کی پرورش میں مصروف رہتی ہے تو پھر اس کے لیے محض ایک دن ہی کیوں؟ یہ رشتہ تو پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ والدین کی قدر کریں، اُن سے عزت سے پیش آئیں، اُن کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کریں، اُن کی دل جوئی کریں۔ غرض بڑھاپے میں اُن کا اسی طرح خیال رکھیں جیسے بچپن میں وہ آپ کا رکھتے تھے، کیوںکہ اسی میں آپ کی دُنیا و آخرت کی فلاح پوشیدہ ہے۔ اسلام بھی ہمیں والدین کے ساتھ حُسن سلوک اور محبت سے پیش آنے کا درس دیتا ہے۔ اُن کے سامنے اُف تک کہنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ خدارا اپنی دُنیا و آخرت تباہ نہ کریں، دُنیا میں اُن کی خدمت کرکے جنت کما ڈالیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button